سعودی عرب کا معاشی انقلابی سرپلس بجٹ 2020۔۔منصور ندیم

سعودی عرب میں ہونے والی انقلابی تبدیلیوں کا ثمر سامنے آنا شروع ہوگیا ہے، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے انقلابی معاشی پلان کو پاکستان کے سوشل میڈیا پر جس طرح منفی پروجیکٹ کیا جارہا ہے، لیکن اصل میں وہاں معاشی پروجیکٹس کی تبدیلیوں نے  تاریخی کامیابی کی سمت کا تعین کردیا ہے، کہ پہلی بار سنہء ۲۰۱۳ کے بعد سعودی عرب کا سنہء ۲۰۲۰ کا بجٹ سرپلس میں آئے گا۔ رواں سال کے آغاز میں سعودی معاشی ماہرین کا اندازہ تھا کہ انہیں آنے والے سال کے بجٹ میں پچھلے سالوں کی نسبت بجٹ خسارہ کم ہوکر 13.9 رہے گا، اور اگر مالیاتی سال کے بجٹ میں ممکنہ خسارہ ہو تو اسے پورا کرنے کے لیے  وہ ریاست کے محفوظ اثاثوں والے اکاؤنٹ سے پورا کریں گے، مگر حیرت انگیز طور پر نئے معاشی انٹرٹینمنٹ اور سیاحتی پروجیکٹس کی وجہ سے پہلی بار بجٹ سرپلس میں جائے گا۔

ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن ۲۰۳۰ نے اپنے وقت سے پہلے ہی اپنے ملک کو آنے والے وقت میں پیٹرول کی آمدنی کے انحصار سے نکال کر دوسرے ذرائع پر منتقل کرنے کا جو انقلابی فیصلہ کیا وہ بارآور ثابت ہوا، سعودی عرب اپنا قومی بجٹ سنہء ۲۰۲۲ کی منظوری آنے والے اتوار کو دینے جارہا ہے۔ جس میں آمدنی کا تخمینہ 1045 ارب ریال اور اخراجات کا تخمینہ 955 ارب ریال کا ہے۔ اور پہلی بار سر پلس 90 ارب ریال فاضل ہوں گے۔ حالیہ سال تیل کے علاوہ دوسرے ذرائع سے مجموعی قومی پیداوار میں 5.4 فیصد شرح نمو ریکارڈ کی گئی ہے، اور توقعات یہ ہیں کہ سال رواں کے دوران حقیقی قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو 2.8 فیصد تک ہوگی، اور سنہء ۲۰۲۲ کے دوران مجموعی قومی پیداوار میں شرح نمو 7.5 فیصد تک متوقع ہے-

آنے والے سعودی قومی بجٹ سنہء ۲۰۲۲ میں اخراجات کا حجم 956 ارب ریال ہوگا۔

٭ نئے بجٹ میں تعلیم پر 185 ارب ریال خرچ کیے جائیں گے۔ یہ کل بجٹ کا 19.3 فیصد ہوگا۔

٭نئے بجٹ میں صحت کے لیے 138 ارب ریال مختص کیے گئے ہیں۔ یہ کل بجٹ کا 14 فیصد ہے۔

٭ نئے بجٹ میں عسکری سیکٹر کے لیے اخراجات کا بجٹ 171 ارب ریال ہوگا ۔یہ بجٹ کا 18 فیصد ہے۔

٭اس بجٹ میں عام مدوں پر 182 ارب ریال خرچ کیے جائیں گے۔ یہ بجٹ کا 19 فیصد ہو گا۔

یہ بجٹ سعودی ریاست کی ترجیحات واضح کررہا ہے کہ انہیں اپنی ملکی اصلاحات، عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور وسائل کا بہتر استعمال کیسے کرنا ہے،اس میں تعلیم و صحت کا بجٹ انتہائی قابل غور ہے۔ اس سر پلس سے سعودی وژن کے پروگراموں کے نفاذ میں بہتری آئے گی۔ قومی مالیاتی ادارے مضبوط ہونگے اور پرائیویٹ سیکڑ بھی طاقتور ہوگا۔ شہریوں کو اعلی معیاری بنیادی سہولتیں میسر آئیں گی۔

سعودی عرب آج اپنے ملک کی مالی پوزیشن کو ریل کے متبادل ذرائع سے بہتر بنانے کی پالیسی پر گامزن ہوچکا ہے، ہدف یہ ہے کہ سنہء ۲۰۲۲ کے دوران مجموعی سرکاری قرضے 989 ارب ریال تک ہوں- جو مجموعی قومی پیداوار کا 31.3 فیصد ہیں- اور آنے والے سال کے لئے ماہرین کے اندازے یہ ہیں کہ مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے سرکاری قرضوں کی شرح 2024 تک 27.6 فیصد تک رہ جائے گی، قرضوں کے حجم میں ٹھہراؤ آئے گا اور ۲۰۲۳ سے فاضل بجٹ کا سلسلہ شروع ہوگا- فاضل آمدنی قرضوں کی ادائیگی میں لگائی جائے گی- جبکہ بحرانی حالات سے نمٹنے کی قومی استعداد بڑھانے کے لیے محفوظ اثاثوں کا تناسب برقرار رکھا جائے گا-

سعودی عرب اپنے ویژن سنہء ۲۰۳۰ تک اپنے مجموعی اخراجات 27 ٹریلن ریال تک لے جائے گا۔ سعودی عرب اپنے ویژن ۲۰۳۰ کے اہداف کے حصول کے لیے معاشی اقدامات اوراصلاحات پر تسلسل سے بہترین کام کررہا ہے، اور عوام کی معیار زندگی میں مسلسل بہتری، دستیاب وسائل کے بہترین استعمال، سرکاری اخراجات میں شفافیت، کارکردگی اور معیار کی سطح کو بھی دیکھ رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : جو جملہ حضرات یہ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب حج وعمرہ سے اپنا بجٹ چلاتا ہے، انہیں  اندازہ ہونا چاہیے کہ گزشتہ دو سالوں سے حج و عمرہ محدود ہے اس کے باوجود معاشی طور پر بجٹ صرف معاشی انقلابی پالیسیوں کی وجہ سے ہی آتے ہیں ، صرف بندے کا ہینڈسم ہونا کافی نہیں  ہوتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply