سیموئیل مارٹن برق/اعظم معراج

یہ 2011ء کی بات ہے۔ ان دنوں میں تحریکِ شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے پاکستانی معاشرے کو بنانے سنوارنے میں شاندار کردار ادا کرنے والے ہیروز کی تلاش میں سرگرداں تھا۔میرے ریسرچر (میرے بچے) ابھی چھوٹے تھے۔ پھر بھی اپنے اسکول کی مصروفیت سے وقت نکال کر کبھی کبھار میرے لیے کوئی ای میل کر دیتے یا اگر مجھے کسی روشن مثال کا کوئی کھوج ملتا تو مجھے اسے گوگل وغیرہ پر تلاش کرنے میں مدد دیتے۔ میرا کمپیوٹر کے بارے میں علم آج کی طرح اس وقت بھی معمولی سا تھا۔ انہی دنوں اس تلاش کے دوران بریگیڈیئر سیمسن سائمن شرف کا نام سامنے آیا۔ یہ مسیحی فوجی افسر بقول اسرار کسانہ واقعی اسکالر سولجر لقب پر پورا اترتا ہے۔ شاندار فوجی کیرئیر گزارنے کے بعد یہ قومی اور بین الاقوامی اخبارات کے لیے لکھتے بھی ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی ٹیم کے اہم رکن بھی تھے۔ انہی کے بارے میں ایک دن مزید ریسرچ کرتے ہوئے ان کا مارٹن سموئیل کے بارے لکھا ہوا ایک آرٹیکل میری نظروں سے گزرا۔ یہ آرٹیکل انگریزی زبان میں تھا اور برصغیر کے کروڑوں اردو میڈیم خواتین و حضرات کی طرح انگریزی سے میری شد بد بھی واجبی سی ہے لیکن اس کے باوجود میں نے انتہائی توجہ سے یہ آرٹیکل پڑھا۔بریگیڈیئر صاحب نے جس طرح اس عظیم شخصیت کی سفارت کاری کو بیان کیا تھا اور ننکانہ صاحب مارٹن پور سے اس عظیم شخصیت کے تعلق پر اپنے لیے حیران کن اور قابل فخر کردار دیا تھا اس نے مجھے بھی جوش ولولے سے بھر دیا۔ ان دنوں پاکستانی مسیحی نوجوانوں کی روشن مثالیں ڈھونڈنے کا میرا جنون اپنے عروج پر تھا۔ میں نے بریگیڈیئر صاحب کے اس آرٹیکل کو بار بار دھیان سے پڑھا جو کہ حیران کن طور پر مجھے پورا سمجھ آ رہا تھا۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ تک بندی سے انگریزی پڑھنے کی میری مشق نے اس سے پہلے کبھی اتنے شاندار نتائج دیے ہوں۔یہ رات گیارہ کے بعد کا وقت تھا۔ بچے سو چکے تھے۔
میں عموماً سارے انگریزی سے مرعوب اور نابلد برصغیری باشندوں کی طرح اپنی اس کمزوری کا کسی کو پتہ لگنے نہیں دیتا تھا۔ لہٰذا ای میل یا میسجزپر بچوں سے ہی انگریزی میں جواب لکھواتا ہوں۔ لیکن میں اس آرٹیکل کے سحر میں اور خاص کر اس کھوج کو جب میں تحریک شناخت کے اغراض مقاصد سے جوڑتا تو مجھے یہ کھوج کسی طرح بھی کسی خزانے سے کم نہ لگتی۔ اسی جوش اور ولولے میں، میں نے غلط سلط انگریزی میں بریگیڈیئر صاحب کو ای میل کی، آرٹیکل کی تعریف کی، اپنے احساسات کا اظہار کرنے کی کوشش کی اور ان سے ان کا نمبر مانگا۔ اس طرح مسیحی نوجوانوں بلکہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے اس روشن مثال سے میرا تعلق بنا۔ اس آرٹیکل میں مارٹن سموئیل برق کے آبائی گاؤں مارٹن پور کا ذکر تھا۔ اس گاؤں سے میرا غائبانہ تعارف76-1975ء میں ہوا۔ جب میں چوتھی جماعت میں نارویجن گورنمنٹسیکنڈری اسکول میں داخل ہوا تو میری دوستی اپنے بچپن کے دوست امین صدیق کے ذریعے رفیق سے ہوئی۔ رفیق ایم خان (ایم سے مسیح یا مختار) بھی ہمارا محلے دار تھا۔ اس کے خاندان نے شاید بہاولپور کے کسی علاقے سے ہجرت کی تھی۔ اسکول کے بعد میرا باقی دو دوستوں امین اور اشرف کے ساتھ سارا وقت رفیق کے گھر کے باہر گزرتا تھا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ ان کی گلی کشادہ اور غیر آباد تھی۔ ہمارے ٹھاہ فٹ کلب کی پریکٹس اور اکثر چھوٹے موٹے میچز بھی وہیں ہوتے تھے۔ کھیل کے بعد سب گھروں کو چلے جاتے لیکن ہم تین دوست رفیق کے گھر یا گھر کے باہر لگی کیکر کی سوکھی جھاڑیوں کی باڑ میں بیٹھ جاتے۔ اکثر میں رفیق، امین اور اشرف مل کر رفیق کی دادی کی گالیوں کے ساتھ ان کے گھر کا کھانا بھی کھاتے۔ یہ جھاڑیوں کی باڑکراچی شہر میں گاؤں کا منظر پیش کرتی تھی۔ رفیق کے والد چاچا مختار مسیح ریلوے میں ملازم تھے۔ وہ دو تین بجے نوکری سے آ جاتے۔ پھر وہاں کشمیر کالونی کے

ساتھ بہتے گندے نالے کے پار موجودہ اقراء یونیورسٹی ڈیفنس ویو والے علاقے میں کیکر کے جنگلات سے لکڑیاں کاٹ لیتے جن کو وہ گھر کے باہر ہی اسٹور کرتے۔ ان لکڑیوں  کی حفاظت کے لیے وہ باڑ بنائی گئی تھی۔ اس باڑ کے اندر ہی وہ روز مرہ کے ایندھن کے لیے لکڑی مزید چھوٹی کرتے۔ ہم بھی شوق سے اس کام میں حصہ لیتے اور کئی بار جب رفیق اپنے والد کے ساتھ لکڑیوں کی کٹائی کے لیے گندے نالے کے پار جنگل جاتا تو ہم بھی ساتھ ہو لیتے۔ ہمارے گھروں میں مٹی کے تیل والے اسٹوو استعمال ہوتے تھے لیکن شہر کے بیچوں بیچ لکڑ ہاروں والا یہ کام ہمیں بڑا ہی مزہ دیتا۔ ہمارے لیے ساری کراچی صرف کراچی کے یہ تین محلے اختر کالونی، اعظم بستی، کشمیر کالونی ہی تھے۔ کراچی کے اس علاقے میں پاکستان بھرسے آئے ہوئے ہر علاقے کے لوگ رہتے تھے۔یہ ایک منفرد علاقہ ہے۔ یہاں پاکستان بھر کے ہر رنگ و نسل جغرافیہ مسلک سے تعلق والے لوگ بستے ہیں۔ لیکن مسیحی زیادہ وسطی پنجاب سے آئے دیہاتوں کے لوگ تھے۔ پنجاب میں دیہاتوں میں عموماً مسیحیوں کے چند گھرانے ہی ہوتے ہیں۔ جن میں سے اکثر کھیت مزدور کچھ حصے ٹھیکے پر زمین لے کر کاشت کاری کرتے ہیں۔ کچھ برصغیر میں تاریخ کے جبر ذات پات والے دھرم کے زیر اثر پستیوں میں دھکیلے گئے ٹھکرائے ہوئے پیشے (یعنی شعبہ صفائی ستھرائی) سے وابستہ ہیں۔ 1972ء سے ہماری یہی روٹین تھی۔ اسکول سے گھر،گھر سے گراؤنڈ جو شروع میں کشمیر کالونی کی رفیق ایم خان کے گھر کے سامنے والی بڑی سڑک ہی تھااور بعد میں جنگل کے درمیان درختوں کی کٹائی کے بعد جنم لینے والا میدان جہاں اب ڈیفنس ویو آباد ہے، منتقل ہو گیا۔ کبھی کبھار خصوصی میچ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی فیز I کے خالی پلاٹوں میں ہوتے۔ یہ عجیب اتفاق ہے۔ پچھلے پندرہ سال سے فیز ون کے انہی گراؤنڈ میں سے ایک پر میری رہائش ہے۔ یہ 1978یا 1977 کی کوئی سہ پہر تھی جب ہم رفیق کے گھر پہنچے تو وہاں دو اجنبی مہمان تھے کیونکہ ان کے سب روایتی مہمانوں کو ہم جانتے ہیں۔ پتہ چلا یہ رفیق کی والدہ کے رشتے کے بھائی ہیں یعنی رفیق کے ماموں ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام قمر تھا اور رفیق نے بتایا یہ گریجویٹ ہیں۔ دوسرے بوڑھے سے تھے ان کا نام میں بھول گیا ہوں۔ کچھ دنوں بعد ایک تیسرا غیر معمولی لمبا چوڑا اور وجیہہ نوجوان مائیکل بھی آ گیا۔ رفیق نے بتایا کہ”یہ تینوں آپس میں کزن ہیں۔ میری امی کے بھی کزن ہیں اس طرح میرے ماموں ہیں اور ینگسن آبادسے ان کا تعلق ہے۔ ینگسن آباد اور مارٹن پور ننکانہ صاحب کے پاس دو جڑواں مسیحی گاؤں ہیں۔ وہاں کے لوگوں کی ا پنی زرعی زمینیں ہیں۔ وہاں سب لوگ مسیحی رہتے ہیں۔ بڑے اچھے اسکول، ہاسٹل اور گراؤنڈ ہیں۔ ان دونوں دیہاتوں سے بڑے لوگ افسر بھی بنتے ہیں۔ بہت سے یورپ امریکا میں بھی رہتے ہیں“۔ اس طرح میرا مارٹن پور سے یہ پہلا تعارف تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ہم تینوں کو ان تینوں نے بھی لفٹ کروانا شروع کر دی۔ مائیکل شاید نوکری کی تلاش میں نکل جاتا جو ذرا بزرگ تھے وہ رفیق کی والدہ والی سلائی مشین پر سارا دن کپڑے سیتے رہتے۔ قمر صاحب صاف ستھرے کپڑے پہن کر سارا دن گھر میں ہی رہتے، شام کو ہمارے ساتھ تاش کھیلتے۔ مائیکل تو اپنے کاموں میں مصروف رہتے لیکن باقی دونوں ہمارے ساتھ گھل مل گئے اور ہمیں اپنے گاؤں کے قصے سناتے جو ہمیں حیران کر دیتے کہ پاکستان میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مسیحی زمیندار ہوں سارا گاؤں مسیحیوں کا ہو، بڑے بڑے اسکول، گراؤنڈ ہوں،وہاں سب مسیحی رہتے ہوں، افسر بنتے ہوں اور بے تحاشا بنتے ہوں۔ ہم نے تو دوردور تک ایسا کوئی واقعہ نہیں سنا تھا کہ مسیحی افسر ہو حالانکہ ہمارے اسکول میں کراچی کے اور بھی کئی علاقوں کے مسیحی بچے پڑھنے آتے تھے۔ وہاں مسلمان بچوں سے افسری شفسری کی باتیں سنی تھی۔ جن دیہاتوں سے ہمارے والدین نے ہجرت کی تھی وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا گو کہ کچھ حصے ٹھیکے پر کاشت کاری کرنے والے گھرانے معاشرے میں اچھے خاصے عزت دار تھے۔ لیکن اپنا نمبر دار، اپنے چوہدری اور بڑے بڑے گراؤنڈ اور ہوسٹل کبھی کبھی یہ سب ہمیں جھوٹ فریب لگتا اور خاص کرمیری شک کی وجہ یہ بھی تھی جس کا میں نے کبھی اظہار نہ کیا کہ اگر ایسا ہی سب ہے تو پھر یہ تینوں یہاں بہن کے گھر شہر میں کیوں پڑے ہیں۔لیکن شک کی یہ لہر ایک لمحے کے لیے آتی۔ اور پھر جلد ہی گزر جاتی۔ ہمارے لیے بالکلغیر معمولی ان تین مسیحیوں کی باتوں کا سحر ہمارا ہر شک دور کر دیتا۔
زیادہ تر ہم ان کی باتوں سے مسحور ہو جاتے۔ آج احساس ہوتا ہے کہ ہم فخر کے لیے ترسے ہوئے بچے تھے۔ جب مسیحی بچے کہیں اکٹھے ہوتے تو وار ہیروز کا ذکر چھڑتا تو مثلاً مسیحیوں، مسلمانوں کے مشترکہ ناموں والے ہیروز کا ذکر چل نکلتا تو کئی حسرت سے کہتے یار یہ یونس مسیحی تو نہیں ہے۔ حیران کن طور پر پچھلی دو دہائیوں سے رول ماڈل تلاش کرکے انہیں معاشرے میں پھیلانے کے باوجود پاکستانی مسیحیوں کی خود انحصاری کو جنم دیتی خود آگاہی و خود شناسی کی اس آگاہی مہم سے بے اعتنائی اور ہزاروں سالوں کی غلامی کی بدولت ایک خاص ذہنی کیفیت میں چلے جانے کا رویہ ایسا ہے کہ چند دن پہلے آج اس وقت نومبر 2020ء میں بھی کل برطانیہ میں مقیم ایک دیسی بشپ گلہ کر رہے تھے کہ برطانیہ میں انہوں نے کسی پاکستانی مسیحی گھرانے میں ذکر کیا کہ ”میرا بھتیجاپاکستان آرمی میں کیپٹن ہے اور میجر ہونے والا ہے تو انہوں نے مذاق اڑانے کے انداز میں کہا آپ کا بھتیجا آرمی میں کپتان ہے یا کسی کرکٹ ٹیم کا کپتان“۔ جس طرح بچپن میں ہم تینوں چاروں قمر صاحب سے قصے سن کر مسحور ہو کر فخر سے بھر جاتے اسی طرح بریگیڈیئر صاحب کی مارٹن سموئیل برق صاحب کی سفارتکاری کی بصیرت و برق رفتاری، علوم تاریخ پر دسترس، دلیر ایڈمنسٹریٹر، کامیاب ترین آئی سی ایس افسر،ایمان دارجج اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اولین معماروں میں ہونا، ان کے بارے میں تحریر پڑھ کر میرا دل دماغ مسحور اور دل مسرور ہوتا رہا۔ اس کے بعد سے آج تک تحریک شناخت کے لیے میرے چھ نکاتی ایجنڈے کو اْجاگر کرنے والی تحقیق میں سے دھرتی سے نسبت کی کھوج کو نکال کر باقی آزادی ہند میں مسیحیوں کے سینکڑوں کرداروں میں سے آزادی ہند کا برصغیر کے مقامی باشندوں میں بیج بونے والا شاعر ہنری لوئیس رچرڈ ڈریوزو، قیام پاکستان میں ہزاروں کرداروں میں سنگا صاحب تعمیر پاکستان کے لیے شب و روز محنت کرنے والے ماضی و حال کے کرداروں میں اول مارٹن سمودئیل برق ہی ہیں۔ اسی طرح دفاع پاکستان میں سے مارون لیسلے مڈل کوٹ اور دوئم ایئر کموڈور نذیر لطیف ہیں۔ میری اس عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک بھر کے کئی اسکولوں میں میں نے روشنی کے جن مینار شخصیتوں کے پورٹریٹ لگوائے ہیں۔ روشنی کے میناروں کی اس فہرست میں مارٹن سموئیل برق ضرور ہوتے ہیں۔

عمران جولیس تحریک شناخت مارٹن پورکے رضا کار اور مارٹن پور ہائی اسکول کے پرنسپل ہیں۔ وہ اسکول آنے والے ہر خاص و عام کو یہ بتاتے ہیں کہ تحریک شناخت کے پلیٹ فارم سے پہلی دفعہ مارٹن سیموئیل برق کے اسکول میں ان کا پورٹریٹ اور تعارف تحریک شناخت نے لگایا ہے۔جبکہ 1928 میں ان کے آئی سی ایس پاس کرنے کی کامیابی اس بات کی حقدار تھی۔ تحریک شناخت کے یہ پورٹریٹ 2014 میں لگوانے سے 86 سال پہلے ہی ان کی اس کامیابی کو اسکول میں بطور روشنی کے مینار کے استعمال کرکے پاکستانی مسیحی نوجوانوں کی روحوں کو اس روشنی سے منور کیا جاتا۔ لیکن افسوس مسیحیوں کی بھلائی میں شب و روز مصروف مذہبی، سماجی و سیاسی ورکروں کو اس چیز کا ادراک نہ تھا۔ یقیناًیہ ہوس زر کے مارے بھی اس لاپرواہی برتنے میں حق بجانب ہیں کہ ہزار، پانچ سو روپے کی کسی روشنی کے مینار کی تصویر اور کہانی اسکول میں لگانے کے لیے بین الاقوامی شہروں میں جا کر چندہ مانگنے کا جواز بھی نہیں رہتا اور بچوں کو خود شناسی، خود آگاہی کا درس تو خود انحصاری کی طرف لے جاتا ہے اور خود انحصاری آ گئی تو پھر چندہ مافیا کاکیا رہ جائے گا۔ لیکن اگر روشنی کے ان میناروں کو بطور رول ماڈل استعمال کیا جاتا تو پھر 2019ء تک 92 سال میں صرف 31 لوگ سی ایس ایس پاس نہ کرتے۔ میں جب بھی مارٹن سمو ئیل برق کے بارے میں لکھے ہوئے مضامین چاہے وہ بریگیڈیئر سیمسن کا مضمون ہو،رجنالڈ میسی، ساجدہ مومن، عادل انجم اورڈاکٹر عارف آزاد کا ہو، پڑھتا ہوں تو میرا دل پاکستان میں مسیحیت کے بانیوں کے لیے بھی تشکر سے بھر جاتا ہے۔کیونکہ پاکستانی مسیحیوں کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ برصغیر میں مسیحیت کے ان بانیوں کے بنائے ہوئے اداروں کی بدولت ہی ہے۔ اور جو بہت کچھ ہو سکتا تھا لیکن نہیں حاصل ہواہے وہ ان عظیم انسانوں کے نالائق اور بدنیت (چند ایک کو چھوڑ کر) جانشینوں کی وجہ سے ہی ہے۔ ہم نے ان عظیم انسانوں کی چھوڑی اس عظیم وراثت کو صحیح استعمال نہیں کیا۔چاہے یہ وراثت ان53 دیہات کی صورت میں ہو یا بڑے شہروں میں عظیم الشان تعلیمی اداروں کی شکل میں ہو یا پاکستان بھر میں مسیحیوں کی چھوٹی بستیوں میں بھی چرچ کے ساتھ قائم چھوٹے اسکولوں کی صورت میں جنہوں نے مارٹن پور جیسے 53گاؤں، دیہات میں فکری، شعوری، سماجی، معاشرتی بھلائی کیلیے مسلسل معجزے رونما کرنے والے ایسے ادارے بنائے ہیں جن کے حقائق اور شواہد بھی پیش کیے جا سکتے ہیں۔ جن میں سے ایک معجزہ آج سے 92 سال پہلے مارٹن سموئیل برق کی صورت میں ظاہر ہوا۔جب انہوں نے 1928ء میں آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا۔

”لیکن قابل رحم ہیں پاکستانی مسیحی جنہوں نے ان 53 گاؤں اور پاکستان بھر میں دیگر ایسے ہزاروں مذہبی، تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ حالانکہ یہ ادارے تباہ کرنے والوں کی آنے والی نسلوں کا بھی اجتماعی ورثہ ہیں لیکن قابل رحم ہیں یہ تیس تیس سکوں کے عوض اور مسیح کو چوکوں چراہوں میں بیچنے والے جو ہوس زر میں اتنے اندھے ہو گئے ہیں کہ اپنے بچوں کی اجتماعی وراثت بھی تباہ کئے جا رہے ہیں“۔
ان قابل رحم لوگوں کو ذرا ادراک نہیں کہ وہ چند سکوں اورتھوڑی سی خود نمائی کے عوض گنوا کیا رہے ہیں؟
بے شک قابل رحم ہیں وہ نسلیں جو چند سکوں اور تھوڑی سی خود نمائی کے لیے اپنی اجتماعی وارثت تباہ کر دیں۔ 1977ء سے میں جس مارٹن پور کے سحر میں کھویا تھا یہ تب ٹوٹا جب مارٹن پور جیسے53 دوسرے گاؤں میں سے چند نمایاں دیہاتوں کے بارے میں عملی زندگی میں آنے کے بعد میرے علم میں اضافہ ہوا۔ پھر 1995ء میں میری شادی ہوئی اور میری بیگم سیمی معراج کے خاندان کا تعلق بھی مارٹن پور سے ہے۔ میری بارات بھی مارٹن پور گئی اور میرا نکاح بھی مارٹن پور کے اسی تاریخی چرچ میں ہوا جس کی بنیاد پاکستان میں مسیحیت کے عظیم بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر سیموئیل مارٹن (بانی گاؤں مارٹن پور) نے رکھی تھی۔ یسوع مسیح کی تعلیمات کی روح کو سمجھ کر اس پر عملی کام کرنے والے ڈاکٹر سیموئیل مارٹن (بانیگاؤں مارٹن پور) کی عقیدت میں ہی3جولائی1906ء کو جب مارٹن پور اسکول کے ہیڈ ماسٹر خیرالدین برق کے گھر بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام سیموئیل مارٹن رکھا گیا۔ برق خاندانی نام کے اضافے کے ساتھ یہ بچہ مارٹن سموئیل برق ہو گیا۔ خیر الدین برق کی بیوی کا نام بشیر بیگم تھا اور خیر الدین برق المعروف کے ڈی برق۔
گاؤں کے اسکول سے ابتدائی تعلیم کے بعد یہ بچہ اسکالر شپ حاصل کرکے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا۔ وہاں سے تاریخ میں ماسٹر ڈگری کی اور 1928ء میں آئی سی ایس کیا۔ اس وقت انڈین سول سروس میں شاذو نادر ہی کوئی ہندوستانی ہوتا تھا۔ انہوں نے اس وقت امتیازی نمبروں سے یہ امتحان پاس کیا۔ انہیں ایڈمنسٹریشن اور قانون پڑھنے کے لیے دو سال کے لیے برطانیہ بھیجا گیا۔ یہیں وہ اپنی بیوی لوئیز سے ملے اور ان کی شادی ہوئی۔ وطن واپس آئے اور جلد ہی اعلیٰ بیوروکریسی میں نام کمایا۔

 

واسٹرائن لیڈی ولنگٹن نے انہیں لیڈی ولنگٹن ہسپتال بنانے کے لیے منتخب کیا۔ یہ ہسپتال 1935ء میں مکمل ہوا۔ ایمان دار جج رہے۔ 1946ء میں پنجاب کے پہلے الیکشن کمیشن پٹیشن کے سربراہ ہوئے۔ برطانوی راج میں یہ ان کی آخری تعیناتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا اور بیوی بچوں کو برطانیہ لے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کے ایما پر برطانیہ چھوڑا۔ لیاقت علی خان انہیں اقلیتی وزیر بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے تنگ دائرے میں رہنے کی بجائے اپنی اہلیت کے مطابق بطور سفارت کار اپنی خدمات پیش کیں۔ جلد ہی سفیر کے عہدے پر پہنچے اور گیارہ ملکوں میں سفیر رہے۔ برطانوی سفارت خانہ قائم کرنے میں بھی ان کا بڑا حصہ ہے۔ 1961ء میں پاکستانی وزارت خارجہ سے استعفیٰ دیا۔ اپنا تیسرا کیرئیر انہوں نے بطور پروفیسر امریکن یونیورسٹی آف مینی سوٹا میں ساؤتھ ایشین اسٹیڈیزسے کیا۔یہاں بطور مورخ و مصنف اپنے کام کا بڑا حصہ مکمل کیا اور مندرجہ ذیل کتب لکھیں۔

 

1۔ پاکستان فارن پالیسی:این ایسٹوریکل انالسز(1973)
2۔مین اسپرنگز آف انڈین اینڈ پاکستانی فارن پالیسی(1974)
3۔اکبر دی گریٹسٹ مغل(1989)
4۔ بہادر شاہ دی لاسٹ مغل امپائر آف انڈیا(1995)
5۔ دی برٹش راج ان انڈیا: این ہیسٹورکل ریویو(1995)
6۔ قائداعظم محمد علی جناح: ہز پرسنلٹی اینڈ ہز پولیٹکس(1997)
1. Pakistan’s Foreign Policy: An Historical Analysis (1973)
2. Mainsprings of Indian and Pakistani Foreign Policy (1974)
3. Akbar, the Greatest Mogul (1989)
4. Bahadur Shah, the Last Mogul Emperor of India (1995)
5. The British Raj in India: An Historical Review (1995)
6. Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah: His Personality and his Politics (1997)
یوں ڈاکٹر مارٹن سیموئیل (بانی مارٹن پور گاؤں) کے مسیحیت کی روح کو سمجھ کرہزاروں سال سے اپنی دھرتی پر ذلتیں سہتے دھرتی واسیوں میں سے ہندوستان بھر سے 72خاندانوں کے لیے قائم کیا گیا ایک مثالی گاؤں سماجی و معاشرتی بحالی کا ایک نمونہ تھا۔ اس سے فیض حاصل کرنے والے ایک بچے نے نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی، ایٹمی پالیسی پر اِ نمٹ نقوش چھوڑے بلکہ بطور مورخ و مصنف بین الاقوامی وراثت میں بھی اپنی کتب کے ذریعے اپنا حصہ ڈالا۔جس سے آج بھی اگر ڈاکٹر مارٹن سیموئیل (بانی مارٹن پور) کے موجودہ جانشین عقل،شعور اور بے لوثی سے کام لیں تو ایسے ہزاروں مارٹن سیموئیل برق پیدا کیے جا سکتے ہیں جنہوں نے اس سماجی ناہمواریوں پر مبنی معاشرے سے نکل کر افق کو چھو لیا۔
”لیکن بے شک قابل رحم ہے وہ مذہبی گروہ جو اپنے مقامی روشنی کے میناروں سے اور چراغ جلانے کی بجائے بین الاقوامی چندوں پر انحصار کرے اور نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ذہنی طور پر مفلوج اور بھکاری بنانے کا اہتمام زور شور سے کرے“۔
ایسی ہی قابل رحم ذہنی کیفیت کی بدولت نہ صرف یہ53 دیہات جنہیں میں سماجی بھلائی کے مکمل یونٹ قرار دیتا ہوں بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہزاروں ادارے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔کچھ تو تباہ ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ ڈاکٹر سیموئیل مارٹن کے قائم کے ہوئے اور مارٹن سیموئیل برق کے گاؤں مارٹن پور سے قریبی تعلق اور دوسرے کئی ایسے دیہاتوں کے بغور مشاہدے کی بنیاد پر کلفٹن کنٹونمنٹ کراچی کے ایک ملازم کے حقیقی کردار کو موضوع بنا کرجس کا تعلق نیگسن آباد سے ہے،میں نے اپنی کتاب ”دھرتی جائے کیوں پرائے“ میں ایک باب ”پاکستان کا مسیحی وزیر اعظم“ لکھا۔اس میں ایک اقتباس صفحہ نمبر 143 اس صورت حال احوال کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔

چوہدری اس بستی کا بڑا دلچسپ کردار تھا۔ اس کا تعلق ضلع شیخوپورہ (موجودہ ضلع ننکانہ صاحب) کے قریب ایک مسیحی گاؤں ینگسن آباد سے تھا۔ مارٹن پور، کلارک آباد، فیصل آباد میں گوجرہ اور جنوبی پنجاب میں ضلع خانیوال، ضلع ساہیوال، میانوالی اور لیہ کے علاقوں میں بھی کل ملا کر47 ایسے گاؤں اور سندھ میں بھی 6 ایسے گوٹھ ہیں جہاں مسیحی مشنریوں نے زیادہ تر برطانوی دور میں برصغیر کے دور دراز علاقوں سے مسیحیت قبول کرنے والے ہندوستان کے معاشی اور سماجی طور پر پسے ہوئے مسیحیوں کو ان کی معاشی اور سماجی بحالی کے لیے لا کر آباد کیا۔انہیں زرعی زمینیں دیں، گاؤں بسا کر دیے۔ یہ 53گاؤں اور گوٹھ پاکستان بھر میں ماڈل گاؤں تصور کیے جاتے ہیں۔ باقاعدہ منصوبہ بندی سے آباد کیے گئے یہ دیہات پاکستانی مسیحیوں کی ایک بہت بڑی پہچان تھے۔ اس طرح کے دیہاتوں سے مشنری اسکولوں نے بڑے قابل اور کامیاب لوگ پیدا کیے۔ لیکن اب صاحبِ حیثیت پڑھے لکھے مسیحیوں کی یورپین ملکوں میں ہجرتوں کے سبب اور مسیحیوں کی موجودہ نسلوں کی تعلیم سے دوری، سہل پسندی نے اس طرح کے مسیحی گاؤں اور ان کے مکینوں کا بھی ستیاناس کر دیا ہے۔ ان علاقوں کے مسیحیوں کی چوتھی اور پانچویں نسل مسلسل تنزل کا شکار ہو کر اب تبیلے جیسے علاقوں میں آباد ہو رہی ہے۔ ماضی میں ایک ہی نسلی حسب نسب اور مذہبی پس منظر ہونے کے باوجود ان مسیحیگاؤں کے لوگ اپنے آپ کوکوئی خاص نسل گردانتے تھے اور ان کی طبیعتوں میں ایک خاص احساسِ تفاخر اور اعتماد پایا جاتا تھا۔ گو کہ وہ گئے دنوں کی باتیں ہیں کیونکہ اب یہ گاؤں دیہات منشیات اور ہر طرح کے نشوں کے گڑھ بن چکے ہیں اور ان گاؤں کی موجودہ نسلوں کی بدقسمتی کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ مذہبی انارکی اتنی ہے کہ ایک گاؤں جہاں ایک چرچ سے سارا گاؤں اپنی روحانی ضرورت پوری کرتا تھا اور اتوار کے اتوار اپنے سماجی مسائل پر بھی ایک جگہ اکٹھے ہو کر بات کرتا تھا وہاں سے اب لاتعداد گرجے بن چکے ہیں جس سے مذہبی و سماجی غرض ہر طرح کا انتشار زوروں پر ہے۔ لیکن ان کے یہ غریب ہم مذہب و ہم وطن ہمیشہ انہیں اپنے لیے قابلِ فخر گردانتے ہیں۔ اور ان گاؤں کے زمینداروں کے قصے مزے لے لے کر ایک دوسرے کو سناتے اور خوش ہوتے ہیں کہ سارے ہم مذہب اور ایک ہی برادری کے لوگ بسنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے کوئی جھجکتا نہیں۔ پتہ نہیں کن بقراطوں نے شراب ان کے لیے جائز قرار دی ہوئی ہے جس کی وجہ سے دن بدن ان کی حالت بد سے بدتر ہو رہی ہے۔
اس لیے چوہدری لیاقت رولتا کھلتا جب اپنے عزیزوں کے پاس کراچی پہنچا تو انہوں نے اس کی نوکری کا بھی بندوبست کیا، اسے عزت بھی دی۔ چوہدری لیاقت نے جلدی پر پرزے نکالے اور ان کا لیڈر بن بیٹھا۔ چوہدری لیاقت کردار میں پاکستان کے کسی بھی بڑے، چوہدری سے کم نہ تھا۔ پولیس سے یاری رکھنا، شراب پینا، بڑے سیاسی بلکہ صاحب اقتدار لوگوں کے پیچھے بھاگنا، پولیس کے ساتھ مل کر غریبوں کو تنگ کرنا، جو بھی سیاسی حکومت ہو اس کے لیڈروں کے آگے پیچھے پھرنا اور اپنی ساری دو نمبر حرکتوں کے باوجود اپنے آپ کو عزت دار سمجھتا تھا۔چوہدری لیاقت جو شروع میں تو منہ پر ڈھاٹا باندھ کر سڑک پر جھاڑو پھیرتا تاکہ کوئی دیکھ نہ لے پھر جلد ہی اس نے اپنے ان جھک (بے جھجک) اور کمزور کے ساتھ بدتمیزی اور ا پنے سے بڑے کے ساتھ چاپلوسی کی خصلت کی بدولت جلد ہی اپنے افسروں کی توجہ حاصل کی اور صفائی والوں کا سپروائزر یعنی جمع دار ہوگیا۔ اب وہ سفید کپڑے پہن کر گولڈ لیف سگریٹ کا پیکٹ ہاتھ میں لے کر گھومتا اور اپنے انڈر کام کرنے والے اپنے ہی طرح کے حالات کے مارے ہوؤں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا۔سیاسی شعور نہ ہونے کے باوجود چاچے اکرام سے سیاست پر بحث کرتا۔چوہدری لیاقت خاموش اور افسردہ تھا۔ اس نے یہ رویے سہے تھے۔ اسے اندازہ تھا پہلے پہل جب آپ ذہنی طور پر ان رویوں کے لیے تیار نہ ہوں توکتنی تکلیف دیتے ہیں۔لوگوں کے حقارت بھرے ان رویوں اور ہزاروں سال سے برصغیر کے واسیوں کی نس نس میں بسے اس ذات پات اور چھوت چھات کے سماج میں بسنے والے لوگوں کے معاشرتی رویوں نے اس پیشے کو گالی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس معاشرے کی اجتماعی ذہنی کیفیت ایسی کر دی ہے۔ ہزاروں سال پہلے دھرم کے نام پر اس وقت کے مذہبی ٹھیکے داروں نے سماج کی بنیاد ایسی رکھ کرجنہیں شودر اور کمی کمین بنایا آج کی اشرافیہ نے ان کااتنا معاشی استحصال کیا ہے کہ مذہب بدلنے کے بعد بھی مذہبی سے وہ معاشی و معاشرتی شودر ہو گئے۔

 

ذہنی بیماریوں کا یہ حال ہو گیا ہے کہ پاکستانیوں شہریوں کے نوکر اور پاکستانی شہریوں کی خدمت کا حلف اٹھانے والے بڑے اداروں کے فارغ التحصیل پڑھے لکھے پاکستانی حلف اٹھانے کے بعد شاہوں کی نوکری کرتے کرتے اب نوکر شاہی کہلاتے ہیں۔ وہ سرکاری اشتہاروں میں بڑے دھڑلے سے لکھتے ہیں ہمیں صفائی کے کام کیلیے غیر مسلم چاہیے یعنی وہ مساوات کی تعلیم کی نفی کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسلامی ریاست کو صاف غیر مسلمان ہی رکھیں گے، ہم تو گند ہی ڈالیں گے۔ ہر طرح کااور غیر مسیحی تو یقیناً ایک خاص رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن سفید پوش مسیحی بھی ان خاک نشینوں کے ساتھ حقارت ہی برتتے ہیں بلکہ اصل شرمندگی تو اقبال کے بھائی جیسے لوگوں کو اپنے لوگوں سے ہوتی ہے۔لیاقت بے چینی محسوس کر رہا تھا جب وہ گاؤں میں باپ کے خرچے پرسر پر پگ باندھ کر مونچھوں کو تاؤ دیتا، کندھے پر بندوق لٹکائے گھومتا تھا تو وہ شہر سے جانے والے اپنے غریب رشتہ داروں کو حقارت سے پوچھا کرتا تھا کہ ”ہاں وائی شہر وچ کی کردے او“ (ہاں بھائی شہر میں کیا کرتے ہو؟) تو وہ بیچارے شرمندگی سے بغلیں جھانکنے لگتے اور پھر جان چھڑانے کے لیے کہہ دیتےپاء لیاقت اسی او تھے سکا کم کرنے آں (بھائی لیاقت ہم وہاں خشک کام کرتے ہیں)۔ذات پات کے نظام کے ساتھ ہی برصغیر میں لوگوں کے ذہنوں میں ایسا زہر بھر دیا گیاہے خاص کر صفائی کے کام کو تو ایسی گالی بنا دیا ہے کہ جہاں جن آبادیوں میں اس پیشے سے منسلک زیادہ لوگ بستے ہیں وہاں جو نالیاں گٹر کھولنے کی بجائے کسی دفتر یا گھر میں صفائی کا کام کرتے ہیں وہ اپنی کلاس زرہ بہتر بتانے کے لیے کہتے ہیں ہم (سکا کم) خشک کام کرتے ہیں۔چوہدری اپنی کمینی فطرت کی وجہ سے جب اپنے کسی غریب رشتے دار سے یہ کہلا لیتا تو وہ پھر ایک کمینی مسکراہٹ سے کہتا(اوئے کھیتی باڑی چھڈ کے ایہہ کی کرن لگے او) یہ کھیتی باڑی چھوڑ کر یہ کیا کر رہے ہو۔پھر باپ کی موت اور چوہدری کی شاہ خرچیوں سیتھوڑی بہت زمین جو باپ کے سلیقے کی وجہ سے بڑا رقبہ لگتی تھی جلدی ہی بکنا شروع ہوئی اور پانچ سالوں میں ہی تمام بک گئی۔ چوہدری کی شادی باپ کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی۔ اب جب بال بچے بھوکے مرنے لگے تو پہلے گاؤں میں محنت مزدوری کی جس سے ظاہر ہے گھر چلنا مشکل تھا۔ پھر کراچی آیا اور بھوک نے جلد ہی ساری چودراہٹ نکال دی۔ اور پھر اس نے بھی کھیتی باڑی چھوڑ کر (سکا کم) خشک کام جو اکثر گیلا بھی ہو جاتا شروع کیا۔ اس لیے اس نے یہ وار سہے بھی تھے اور یہ وار کیے بھی تھے۔ لہٰذا وہ اس موضوع سے کنی کتراتا تھا۔ کبھی جس موضوع پر وہ مزے لے لے کر بات کرتا تھا اب کوئی اس پر سنجیدگی سے بات کرتا تو اسے لگتا جیسے یہ شخص اسے گالیاں دے رہا ہے۔ اسے اپنے آپ پر رحم آنے لگتا اور اس کا دل کرتا وہ دھاڑیں مار مار کرروئے۔ اسی کیفیت میں اسے اور کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے چاچے سے پوچھا چاچا جس بندے نے یہ کتاب لکھی ہے وہ ہمارا بندہ ہے یا تمہارابندہ ہے؟۔۔چاچے نے ہنس کر کہا ”بندے تو سارے رب کے ہی ہوتے ہیں لیکن یہ تمہارا ہی لگتا ہے میں نے اپنے بیٹے سے اس کا گوگل پروفائل نکلوایا تھا“۔ اب لیاقت کو بات بڑھانے کا موقعہ ملا اور اس موضوع پر فرار کی بھی راہ نظر آئی جس پر بات کرکے وہ دونوں بے خبری میں لیاقت کی روح کو کانٹوں پر گھسیٹتے تھے۔ لیاقت نے فوراً کہا ”چاچا آخر کسی نے ہمارے لیے کچھ کیا ورنہ ٹی وی، ریڈیو، اخبار میں تو ان باتوں کا کبھی ذکر ہی نہیں ہوا“۔ چاچے نے کہا ”اوئے چوہدری اس بندے نے اظہارِ تشکر میں زیادہ تر مسلمان پاکستانیوں کا ہی لکھا ہے جنہوں نے اس کام میں اس کی مدد کی اور تو اور زیادہ کتابیں جس سے اس نے مدد لی ہے وہ بھی مسلمان ادیبوں کی ہی لکھی ہوئی ہیں اور یہ سب کام حکومتی اداروں کی راہنمائی میں معاشرے کے ذرائع ابلاغ نے کرنا ہوتا ہے حکومتی اداروں نے ہمارے لیے کون سی دودھ شہد کی نہریں بہا دی ہیں جو تمہارے لیے نہیں اور رہ گئے ذرائع ابلاغ تو وہ بھی پورے معاشرے کی طرح پیسے کی دوڑ میں ہیں لہٰذا پورا معاشرہ ہی ایک فکری انارکی کا شکار ہے تو بس جس کو جو فوری اپنے فائدے میں نظر آتا ہے وہ ہی کرتا ہے۔ ہاں ایک بات مجھے یاد آ گئی میں نے تمہاری بستی کے ذرا چوہدری ٹائپ بندے سے جب بھی بات کی ہمیشہ ساری محرومیوں مصیبتوں کی ذمہ داری حکومتی اداروں پر ڈالتے ہو۔ کبھی اپنے گریبانوں میں جھانک لیا کرو۔

 

 

مارٹن سیموئیل برق ایک عظیم مدبر، سفارت کار، مورخ، استاد جس کی بین الاقوامی شہرت اس کے مرنے پر 9 اکتوبر 2010ء کو وفات پانے کے بعد رجنالڈ میسی کے ذریعے ڈاکٹر عادل انجم، بریگیڈیئر سیمسن سائمن شرف، عارف آزاد کیتک پہنچی ہے۔ بلکہ ساجدہ مومن کا ان کی زندگی کے آخری حصے میں لکھا گیا آرٹیکل بھی ان کی موت کے بعد ہی زیادہ پڑھاگیا۔ پاکستانی نسل اور پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ ساتھ اگر مارٹن پور کے نوجوان بھی اس عظیم پاکستانی سفیر،جج، دانشور، پروفیسر، تاریخ دان، ادیب کے بارے میں نہیں جانتے تو اس کے ذمہ دار مارٹن پور کے مسیحی مذہبی، سماجی و سیاسی کارکنوں کے ساتھ مارٹن سیموئیل برق بھی ہیں۔ ”اگر وہ اس بات کو ذہن میں رکھتے کہ معاشرے کا ہر فرد معاشرے کا مقروض ہوتا ہے چاہے اس نے مفلسی میں جنم لیا ہو یا منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ہو اور جن معاشروں میں یہ قرض واپس کرنے کی روایات ہوتی ہے وہ معاشرے زیادہ خوبصورت ہو جاتے ہیں بہ نسبت ان معاشروں کے جن میں یہ قرض واپس کرنے کا رواج نہیں ہے“۔ لہٰذا اگر مارٹن سیموئیل برق مارٹن پور کی اس مٹی کا تھوڑا سا قرض بھی واپس کرتے جس سے ان کا خمیر اٹھا تھاتو بہت سے نہیں تو کئی مارٹن سیموئیل برق اورپیدا ہوتے۔لیکن یہ تب ہی ممکن ہوتااگر مارٹن سیموئیل برق جیسے دیگر مقامی وہ ہی راستہ اپناتے جو مسیحیت کے اس خطے میں بانیوں نے اپنایااور ان کی فکر سے ان درختوں سے نکلنے والے بیجوں کی اگر مزیدفکر مندی، صبر،محنت اور لگن سے آبیاری ہوتی اور یہ عمل تسلسل سے چلتا تو یہ سایہ دار شجر مسلسل بیج پیدا کرتے رہتے ہیں جن سے ہر دور اور وقت میں نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ لیکن تب ہی ممکن تھا اگر ایس ایم برق جیسے دھرتی سے اپنی نسبت کو اپنی ترجیحات میں جگہ دیتے۔ اور ان ولی صفت بندوں کا پیچھا کرتے انہی کے دیسوں میں پہنچنے کی تگ و دو کی بجائے ان کے فکر، محنت اور صبر سے آباد کئے گئے چمن بھی آباد رکھنے کی کوشش کرتے۔ خیر یہ میرا کتھارسس تو چلتا ہی رہتا ہے۔ آئیں، پڑھیں مارٹن پور کے باسی اپنے اس سپوت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
مارٹن پور کے سادہ دیہاتی جنہیں برق صاحب کی بہت ساری کامیابیوں کا تو اندازہ نہیں اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اس گاؤں کا ایک سپوت سفیر بھی رہا۔مارٹن پور کے ایک رہائشی اور خیر الدین برق کے جانشین مارٹن پور اسکول کے ہیڈ ماسٹر تحریک شناخت کے رضا کار اپنے لڑکپن کی یادیں تازہ کرتے ہیں کہ میرے ایک رشتے کے دادا جوزف مل جو کہ 58-1957ء میں قائم مقام اسکول ہیڈ ماسٹر تھے بتاتے ہیں ”کہ1958-1957ء میں برق صاحب نے گاؤں آنا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے برق صاحب کے آبائی گاؤں کو ہنگامی بنیادوں پر مرمت کیا۔ گاؤں میں ہر وقت انتظامیہ کے افسران انتظامات کا جائزہ لینے آتے جس پر گاؤں کے لوگ سالوں اْتراتے رہے۔ فیروز برق بتاتے ہیں کہ میرے تایا ایک دفعہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر 1952ء میں گاؤں آئے تھے۔ یہ شاید پہلی اور آخری بار تھا جب ان کی بیٹیوں نے اپنے والد کا آبائی گاؤں دیکھا۔ اس کے بعد ہم نے کبھی اپنی ان تایا زاد بہنوں کو نہیں دیکھا۔
لیکن بے شک اس عظیم سفارت کار، استاد، مورخ اور سب سے بڑھ کر تحریک شناخت کے لیے روشنی کے ایسے مینار ہیں جن کی روشنی سے محرومیوں کے بیوپاریوں کی بدولت معاشرتی بیگانگی کے مرض میں مبتلا ہو کر معاشرتی بیگانگی کی گھپ اندھیری راہوں میں بھٹکتے نوجوان کے لیے روشنی کے دیے جلا کر ان کے لیے ان کے آباء کی سرزمین پر فکری، شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی، معاشرتی، علمی، مذہبی، تہذیبی اور سیاسی ترقی کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں۔

برق نام سے ان کی محبت و عقیدت کا ایک تجربہ مجھے بھی ہوا ہے۔2010ء میں بریگیڈیئر سیمسن صاحب کے آرٹیکل پڑھنے کے بعد جب میں ا پنے سسرال گیا تومیں نے اپنے چچا سسر سے پوچھا برق صاحب کا خاندان کہاں رہتا تھا تو انہوں نے اپنے گھر کے بالکل سامنے والے گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا(جو اس وقت ایک خالی پلاٹ کی شکل میں تھا) یہ گھر تھابرق خاندان کا۔ 60 کی دہائی تک ماما برقنی (ایس ایم برق کی والدہ بشیر بیگم) یہیں رہتی تھیں۔ ان کے بچے تو سارے یورپ، امریکا، کینیڈا آباد ہو گئے تھے۔ لیکن ماما برقنی (سیموئیل مارٹن برق کی والدہ) سال کے کچھ مہینے یہاں گزارتی ایک تو گوری چٹی ہونے کی وجہ سے اور دوسرے زیادہ تر بچوں کے ساتھ یورپ کینیڈا گزارنے کی وجہ سے انگریزی لباس پہنتی۔ اس لیے مارٹن پور میں آج بھی جن بزرگوں نے ماما برقنی (بشیر بیگم والدہ ایس ایم برق)کو دیکھا ہے وہ کسی چھوٹی بچی کو اسکرٹ میں دیکھ کر کہتے ہیں ”بیٹا تم تو ماما برقنی بنی ہوئی ہو“۔ لیکن ایسے لوگ کم رہ گئے ہیں۔ نئی نسل بالکل نہیں جانتی کہ برق صاحب کون تھے بلکہ برق صاحب کے ایک بھائی کا بیٹا فیروزبرق جس کے ماں باپ بہن بھائی سب ہجرت کر گئے(برق صاحب کے سارے بہن بھائی یورپ، کینیڈا، امریکا ہجرت کر گئے) تھے لیکن وہ گاؤں رہ گیا۔ اس کی آل اولاد صرف اپنے باپ سے سنی سنائی اس بات کو دوہراتی ہے کہ بالی وڈ اسٹار رنویر سنگھ ہمارا رشتے دار ہے تو گاؤں کے لوگ مذاق اْڑاتے ہیں۔ یہی حقیقت ساجدہ مومن نے 2009ء میں ایس ایم برق سے ملاقات کے بعد لکھے گئے آرٹیکل میں بیان کی۔ کچھ دن پہلے اس مضمون کی تیاری سے پہلے میں نے اپنی بیگم کے بھائی صفدر گل جو آج کل کراچی چھوڑ چھاڑ کر کھیتی باڑی کا شوق پورا کر رہا ہے، سے کہا میری فیروز برق سے تو بات کروانا تو اس نے مذاق میں کہا ٹھیک ہے بات تو کروا دوں لیکن وہ بْور بڑا کرتے ہیں کہ رنویر سنگھ کو بھی اپنا قریبی رشتے دار قرار دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بات سچ ہے۔ وہ ان کی سگی پھوپھی کا پوتا ہے۔ ایس ایم برق کی سگی بہن چاندبرق جس نے قیام پاکستان سے پہلے فلم انڈسٹری جوائن کی،رنویر سنگھ کی دادی ہیں۔ صفدر نے کہا آپ کہہ رہے ہیں تو چلو مان لیتے ہیں آپ کی تصدیق سے ان کا بھلا ہو گیا ورنہ گاؤں کے لوگ تو یہ بات سن کر ان کا مذاق اْڑاتے ہیں۔

سموئیل مارٹن برق کا یہ بھتیجا اپنی زندگی کے شب و روز میں مست ہے۔ صفدر کی بیوی نے میری ان سے بات کروائی۔میں نے ان سے ان کا ٹیلی فون نمبر لیااور پوچھا کیا آپ کی دادی بشیر بی بی المعروف ماما برقنی مارٹن پور میں ہی دفن ہیں تو انہوں نے کہا ہاں وہ یہیں دفن ہیں۔ میرے ذہن میں اس سوال نے جنم لیا کہ کھوج لگانی چاہیے کہ بشیر بی بی کی وفات کب ہوئی؟کیا بیٹا ماں کی وفات پر پاکستان آیا تھا یا نہیں؟ میں نے فیروز برق سے کہا آپ مجھے اپنی دادی کی قبر کی تصویر تو بھیجیں۔ وہ اپنی زندگی میں مست ایک ایسا شخص جو بہت ساری ماضی کی باتیں شاید یاد رکھنا ہی نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا میں تو بہت مصروف ہوں لیکن میں کسی کو کہوں گا۔ میں نے اپنے سسرالیوں، رشتے داروں کو کہا۔ انہوں نے پہلے ٹال مٹول کی اورپھر ان کے فون خراب ہونے شروع ہو گئے۔ وہ عملی لوگ ہیں اور عملی لوگوں کے پاس ایسی فضولیات کے لیے وقت نہیں ہوتا۔عملی لوگ پنجابی کے اس محاورے پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ (بندہ کماں نال ای ملدا سوہنا لگدا اے) بندہ کاموں کے ساتھ ہی ملتا جلتا اچھا لگتا ہے۔عملی لوگ اس محاورے کا مطلب یوں لیتے ہیں کہ بندہ اپنے کام سے ہی ملتا اچھا لگتا ہے۔
اس دوران میں مسلسل فیروز برق صاحب کو بھی تنگ کرتا رہا اور ایک دن میں نے عمران جولین سے کہا۔انہوں نے فوراً مارٹن سموئیل برق کے کسی چچا زاد بھائی کے پوتے مقصود جلال سے میری بات کروائی۔ ان دونوں نے جا کر خیر الدین برق اور بشیر بی بی برق کی قبروں کی تصویریں بھجوائیں جس کے مطابق بشیر بی بی کی تاریخ وفات7جون1976ء تھی اور تاریخ پیدائش 23جنوری 1888ء۔اب یہ سوال میرے دل میں اور گہرا ہوا کہ عظیم سفارت کار جو بقول عمران جولین کے رشتے کے دادا 1958ء میں آخری دفعہ گاؤں آیا تھا۔ کیا 1976ء میں گاؤں آیاتھا یانہیں۔ میں فیروز برق سے یہ پوچھتا رہا۔انہی دنوں میرے ایک اور سالے سیمسون گل کی شادی فیروز برق کی بیٹی سے ہو گئی یہ خاتون مطلقہ اور سیمسون گل رنڈوا تھا۔ اس شادی نے بھی اس تحقیق کو آگے بڑھایا کیونکہ فیروز برق نے اس کی نئی رشتے داری کا پاس رکھتے ہوئے یامیرے مسلسل کہنے سے تنگ آ کر ایک دن فیروز برق نے اپنے بیٹے سے کہا انہیں اپنے چاچو راجہ چنگیز کا نمبر دے دو۔ اس نمبر پر میں نے فون کیا۔ ڈاکٹر راجہ چنگیز کے بیٹے سے بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا میرے والد فار ایسٹ گئے ہوئے ہیں۔ وہ کچھ دنوں میں آ رہے ہیں آپ کی بات کرواؤں گا۔

 

مشنریوں نے 1890 میں مارٹن پور گاؤں کی بنیاد رکھی تو چوہدری اللہ دتہ بھی ان 72خاندانوں میں سے ایک تھا جنہیں ڈاکٹر مارٹن سموئیل نے (بانی مارٹن پورگاؤں) ان کی سماجی معاشرتی بھلائی کے لیے بنائے گئے اس منصوبے کے تحت وہاں بسایا تھا۔ چوہدری اللہ دتہ کے تین بیٹے تھے خیرالدین برق، عزیز دین اور برکت گو کہ چوہدری اللہ دتہ مسیحیت قبول کر چکا تھا لیکن اس کے بھائی راجہ گلاب خان نے اس کے باوجود ا پنی بیٹی بشیر بی بی کی شادی اپنے بھائی کے بیٹے خیر الدین سے کر دی۔بشیر بی بی بھی اس دور میں میٹرک پاس تھی۔ خیر الدین نے بی اے بی ایڈ کیا ہوا تھا اور فارسی شاعری کرتا تھا اور کچھ عرصہ مارٹن پور اسکول میں بطور ٹیچر بھی کام کرتا رہا۔ وہ اس وقت کے مشہور مشنری اسکول رنگ محل لاہور میں بطور سیکنڈ ہیڈ ماسٹر اور شملہ میں بھی مشنری اسکولوں میں پڑھاتے رہے۔ بشیر بی بی نے بھی ٹیچر ٹریننگ کر لی اور وہ بھی مشنری اسکولوں میں بطور ٹیچر پڑھاتی رہی۔ راجہ چنگیز اکبر کی بتائی تفصیلات اور اسکول کے آنر بورڈ سے یہ بات یقینی ہے کہ خیر الدین برق المعروف کے ڈی برق کبھی بھی مارٹن پور ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر نہیں رہے اور سموئیل مارٹن برق کا میٹرک بھی رنگ محل سی ٹی آئی یا شملہ کے کسی مشنری اسکول سے ہو گا کیونکہ سمووئیل مارٹن برق نے1928 میں آئی سی ایس میں شمولیت اختیار کی۔ اس کامطلب ہے کہ ان کی میٹرک1920یا 1922ء کے قریب کی ہو گی جب کہ اس وقت مارٹن پور اسکول پرائمری یا مڈل اسکول ہو گا۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ مارٹن سموئیل برق نے ابتدائی یا مڈل تک تعلیم مارٹن پور اسکول سے حاصل کی ہو گی میٹرک کہیں اور سے کیا ہو گا۔ جیسے کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے سمو ئیل مارٹن اپنے والدین کی بارہ اولادوں میں سے چوتھے نمبر پر تھے۔ ان سے پہلے ان کے تین بہن بھائی اوائل عمری میں انتقال کر گئے۔ ایس ایم برق کے چار اور بھائی تھے عمانوئیل ایل برق پھر ایل جی برق پھر ڈینئیل برق جو کہ فیروز برق کے والد تھے پھر راجہ اکبر برق جو کہ راجہ چنگیز کے والد تھے۔ اس کے بعد ان کی چار بہنیں تھیں سب سے پہلے جو زفین جن کی شادی کسی سینئر نیول انگریز افسر سے ہوئی وہ کینیڈا ہجرت کر گئے۔ اس کے بعد آئی لین جن کی شادی الکانہ خاندان میں ہوئی وہ بھی کینیڈا ہیں۔ پھر نور جہاں برق جن کی شادی ایک مسلمان آرمی افسر سلیم شیخ سے ہوئی۔ پھر چاند برق جو کہ فلم انڈسٹری سے وابستہ تھی ان کی شادی سکھ خاندان میں ہوئی ان کے پوتے رنویر سنگھ ہیں۔ ان کے بھائی راجہ اکبر برق (والد راجہ چنگیز برق نے اسلام قبول کر لیا۔ اور ان کا گھرانہ لاہور میں مقیم ہے۔ باقی تینوں بھائی بھی کینیڈا ہجرت کر گئے۔انہی میں  سے ایک کی بیٹی گریس سپروےGrace Spurvey ہے۔

 

میری تسلی پھر بھی نہیں ہو رہی تھی میں نے راجہ چنگیز کو کہا کہ ساجدہ مومن نے برق صاحب کی زندگی میں جو ان پر آرٹیکل لکھا تھا ان چھ کتابوں کے علاوہ ان کی سوانح حیات لائف آف فْل فِلمنٹA Life of Fulfillment کے بارے میں لکھا ہے آپ کے پاس اگر وہ کتاب ہے تو مجھے دیں راجہ صاحب نے کہا کہ میں چیک کرتا ہوں۔ مگر ان کے پاس نہیں ملی تو میں نے انہیں صلاح دی کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کزنز کو اور خاص کر برق صاحب کی بچیوں کو گزار ش کریں۔ انہوں نے بہت کوشش کی آخر کار ان کی ایک کزن گریس سپروےGrace Spurvey کینیڈا کے شہر البرٹا سے اطلاع دی کہ میرے پاس یہ کتاب ہے۔ راجہ صاحب نے میرے کہنے پر ان سے گزارش کی کہ اسکین کرکے واٹس اپ کر دیں۔ لیکن یہ بیل بھی منڈے نہ چڑی کیونکہ وہ خاتون کوورڈ کی وجہ سے اپنے دفتر جاتی نہیں اور گھر میں انہیں فون کے ذریعے اسکین کرنا آتا نہیں پھر بھی انہوں نے کوشش کرکے چند صفحات بھجوائے۔ پھر کینیڈا ٹورنٹو میں تحریک شناخت کے رضا کار ڈینئیل نیامت سے درخواست کی آپ ان سے کسی بھی طرح فوٹو کاپی لے کر بھجوا دیں۔ ڈینئیل صاحب اور میں نے اس خاتون کو درخواست کی البرٹا میں ہمارا کوئی دوست آپ سے کتاب لے کر اس کی کاپی کرکے آپ کو کتاب واپس کر دے گا۔ لیکن محترمہ گریس نے اس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ اس سے پہلے میں نے برطانیہ میں مقیم اپنی تایا زاد بہن جوزفین جارج اور ان کے میاں شمیم جارج کو اس کام پر لگا چکا تھا۔ یہ دونوں میاں بیوی تحریک شناخت کے انتہائی سرگرم رضا کار ہیں۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ کہیں سے یہ کتاب مل جائے۔ یا برق صاحب کی بیٹیوں سے کوئی رابطہ ہو جائے۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی حتیٰ کہ جوزفین نے کووورڈ کے دوران اپنے بیٹی شان جارج کے ساتھ کئی لائبریریوں کو بھی چھان مارا اور ان کے فرمانبردار پڑھے لکھے بیٹوں نے انٹرنیٹ پر بھی سرچ کیا مگر کہیں سے بھی کوئی کھوج نہیں لگا۔ میں نے ایک دن پھر راجہ صاحب سے کہا کہ برق صاحب کی بیٹیوں میں سے کسی ایک کا نمبر دیں۔ یوکے میں تحریک شناخت کے بہت رضا کار ہیں۔ وہ وہاں ان کے پاس جا کر ان سے کتاب لے کر کاپی کروا کر انہیں کتاب واپس کر دیں گے۔ راجہ صاحب نے برق صاحب کی بیٹی نوئیل پارسنز کا فیس بک لنک بھجوا دیا۔ میں اور جوزفین مسلسل مسز نوئیل کو یہ درخواست بھیج رہے ہیں۔ مگر کوئی جواب نہیں ملا۔جب جوزفین اور اس کے بچے شان جارج ایس ایم برق کی بیٹیوں اور نواسے اور نواسیوں کی تلاس میں تھے انہیں دنوں مجھے برق صاحب کی بیٹی نوئیل پرسنز کے فیس بک پر بریگیڈیئر سیمسن شرف صاحب نظر آئے میں نے فوراً انہیں فون کیاانہوں نے برق صاحب کی ایک نواسی کا نام اور پتہ دیا میں نے وہ جوزفین کو فارورڈ کیا۔ شان اور جوزفین کی ان کی نواسی ساچا سے بات بھی ہو گئی انہوں نے برق صاحب کی آب بیتی بھجوانے کا وعدہ بھی کر لیا۔ لیکن یہ سطریں لکھنے تک ابھی آٹو بائی گرافی ہمارے ہاتھ نہیں لگ سکی تھی۔ اس لئے جو چند صفحات برق صاحب کی بھتیجی نے بھجوائے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس آب بیتی میں سے ان کے بارے میں ہر تفصیل درج ہے۔ کیونکہ یہ صفحات کتاب کے پہلے صفحات پرمبنی ہیں جس میں مضامین کی فہرست ہے۔

ایک بھرپور زندگی از سیموئیل مارٹن برق

 

انتساب

 

اپنی محبوب بیوی لوئز کے نام جس نے اچھی صحت، دنیاوی کامیابی اور خوشی کے حصول میں مدد دی

مندرجات

پیش لفظ

اظہارِ تشکر

باب اول: پیدائش، آباواجداد اور تعلیم (1928-1906)

میرے دادا اور اس کا خاندان

میرے نانا

میری والدہ

اپنے باپ کے متعلق میرے ملے جلے احساسات

کچھ صدماتی واقعات

میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا

میرے یونیورسٹی کے برس (29-1922)

میں نے جامعہ کے امتحانات کی تیاری کیسے کی

کرکٹ، میرا پسندیدہ کھیل

دوسرے طلبا کو ٹیوشن

سگریٹ نوشی کی لت سے بمشکل بچاؤ

میرے کالج کے پروفیسرز

پرنسپل گیرٹ، میرا محافظ فرشتہ

باب دوم: میں ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے آہنی چوکھٹے کا ایک حصہ بن جاتا ہوں

میرے دو مقاصد

انڈین سول سروس

میں انڈین سول سروس سے محروم ہوتے ہوتے رہا

میرے محافظ فرشتے نے مجھے بچایا

انگلستان کا میرا پہلا تاثر

باب سوم: مجھ پر تحفہ آسمانی جیسی شادی کی عنایت

مخلوط شادیوں کے خلاف گہرا تعصب

دوستی اور محبت

لویئز میرا دل لے گئی

دل تو کھو گیا تھا لیکن دماغ کا کیا بنا؟

ہماری سادہ مگر پروقار شادی

لویئز اور میرا خاندان

لویئز کی ہندوستانیوں سے جان پہچان (تین مثالیں)

لویئز بوریت سے کیسے گریزاں رہی

لویئز کا سماجی وقار

لویئز صرف گھر میں محدود نہ تھی

ہاں، یہ ایک پرانی طرز کی شادی تھی

لویئز کی بیماری اور وفات

احمد خان

باب چہارم: انڈین سول سروس میں میرے سال (1947-1931)

حصہ اول: مجھے ایک شاندار عہدہ ملتا ہے

 

سلسلہ ہمالیہ میں ہمارے سفر

روئرچ خاندان

وادی کولو

ہم نے وائسرائن کی تواضع کی

وائسرائے کی محافلِ چمن کی بے مثال شان و شوکت

حصہ دوم: ڈسٹرکٹ اور سیشن جج

میرے کام کا طریقہ کار

سزائے موت دینا

کوڑے مارنا

غیر جانب داریت کا سوال

تین کہانیاں

دو ستائشیں جن پر مجھے اب تک فخر ہے

جنوبی ایشیا میں برطانوی نظام انصاف

خان برادران

اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں انہوں نے اپنی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں باب لکھے ہیں۔یہ فہرست پڑھنے کے بعد میرا شوق اس تاریخ سازشخصیت کے بارے میں جاننے کا جنون اور بڑھتا گیا میں  نے گریس سپروےGrace Spurvey کی منت سماجت شروع کی لیکن وہ اصلی کتاب کینیڈا میں  کسی ایسے شخص کو دینے کو تیار نہ ہوئی جو اس کی کاپی کرکے مجھے بھجوا سکے ساتھ ہی میں اپنی بہن سے بھی روز پوچھتا آخر ایک دن وہاں  سے خوشی خبری ملی کہ سچامن سے رابطہ ہو گیا ہے وہ سنگا پور میں  ہے اور اس نے اپنی ماں یعنی برق صاحب کی بیٹی کو برطانیہ میں  کہا ہے اور وہ جلد ہی وہ کتاب انہیں بھیج دیں  گی اور جو زمین جارج اس کی کاپی کرکے جلد ہی مجھے بھیج دیں گی اس طرح خدا خدا کرکے یہ کھوج مکمل ہوئی پھر ایک دن میری بہن نے یہ خوش خبری سنائی کہ کتاب مل گئی ہے اگلا مرحلہ برطانیہ میں  کووڈ کی بندش لہذا اس کی مناسب فوٹو کاپی کی عدم دستیابی لہ?ذا پھر میرے بھانجے شان جارج اور بہنوئی نے ساری کتاب اسکین کی اسے مجھے بھیجا اور میں نے اس کی فوٹو کاپی کروائی اور اسے پڑھا اور اپنے ایک عالم فاضل دوست صابر صاحب کی منت کی اس کا ترجمہ کرے وہ انتہائی مصروف ہوتے ہیں انہوں نے ترجمہ سے معذرت کی اور لیکن پوری آپ بیتی کا خلاصہ بتا دیا وہ حاضر خدمت ہے آپ بیتی پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے برق صاحب کی وفات پر لکھے گئے سارے آرٹیکل ان کی حقیقی زندگی سے بہت دور ہیں صرف ساجدہ مومن نے تھوڑی تحقیق کی اس کے بعد والے بڑے بڑے نام ملکی و غیر ملکی دانش وروں نے مکھی پر مکھی بیٹھا دی۔ لیکن یہاں اس آپ بیتی کے خلاصہ کے ساتھ ان بین الاقوامی شہرت یافتہ لوگوں کے مضامین بھی شامل کئے جا رہے ہیں کیونکہ انہوں  نے اس عظیم ہستی کی صلاحیتوں کی بڑی کھل کر تعریف کی ہے اور انہیں سراہا ہے بے شک تحقیق انسان کو سچ دیتی ہے۔ فی الحال یہاں اس آب بیتی کا خلاصہ شائع کیا جا رہا ہے۔ لیکن میری کوشش یہ بھی ہو گئی کہ ترجمہ کر یا کروا کر اسے عام پاکستانی مسیحی نوجوانوں کے لئے بھی عام کیاجائے۔

1۔ پیدائش، نسب اور تعلیم

میں تین جولائی 1906کو ایک مسیحی گاؤں مارٹن پور میں پیدا ہوا۔ یہ گاؤں لاہور سے پچاس میل جنوب مشرق میں ننکانہ صاحب سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ میں اپنے دادا چودھری اللہ دتہ کے گھر پیدا ہوا۔ یہ ایک کچا گھر تھا۔ میرا دادا ایک مربع زمین کا مالک ایک عام کسان تھا۔ میرا باپ خیرالدین چار بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ میرے باپ نے میٹرک پاس کیا اور تقریباً اٹھارہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہو گئی۔ ان کا سب سے چھوٹا بھائی خواندہ تھا لیکن کوئی جماعت پاس نہ تھا۔ دوسرے دو بھائی ناخواندہ رہے اور کاشت کاری میں باپ دادا کا ہاتھ بٹاتے رہے۔

میرا باپ ایک استاد بن گیا اور نجی طور پر تعلیم جاری رکھی۔ انہوں نے بی اے کیا اور ٹیچنگ ڈپلومہ بھی حاصل کیا اور کچھ مڈل اسکولوں کے ہیڈماسٹر اور بہت ہائی اسکولوں میں سیکنڈ ہیڈماسٹر رہے۔ وہ گاؤں کے پہلے گریجوایٹ تھے اور میں گاؤں کا پہلا فرد تھا جس نے ایم اے کیا اور میری ایک بہن پہلی لڑکی تھی جس نے گاؤں میں بی اے کیا۔

خیرالدین شاعری کرتے اور برق تخلص تھا۔ انہوں نے اسے اپنا خاندانی نام بنالیا لیکن اس کے ہجے آئرش نام کے اختیار کیے۔ یہ عام بات ہے کہ ہندوستان میں ہندومت یا اسلام سے مسیحیت قبول کرنے والے یورپی یا انجیلی نام اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان کے ہندو یا مسلم نام مذہب سے پیوستہ ہوتے ہیں۔ چودھری اللہ دتہ بھی پیدائشی مسلمان تھے لیکن میرے باپ کی پیدائش سے قبل مسیحیت قبول کر چکے تھے۔ چنانچہ میں اور میرا باپ دونوں پیدائشی مسیحی تھے۔ میرا دادا اگرچہ غریب تھا لیکن گاؤں میں معزز تھا۔ تاہم میری دادی بہت چالاک، جھگڑالو اور زبان دراز عورت تھی۔ میرے باپ نے اس سے یہی عادت ورثے میں پائی۔

میرا ناناگلاب خان ایک معزز پٹھان تھا۔ ان کا قد سات فٹ اورجسامت خوب تھی۔ وہ راولپنڈی کے ایک گاؤں نتھا چھتر میں 1825 میں پیدا ہوئے اور سوسال سے زائد عمر پائی۔ ایک بار ہم صوبہ سرحد کا سفر ٹانگے پر کر رہے تھے تو میرے والد نے گلاب خان سے درخواست کی کہ حفاظت کے طور پر وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ وہ سامنے کی سیٹ پر بیٹھ گئے اور گذرنے والوں کی نظریں صرف انہیں پڑتیں۔ نتھا چھتر ایک قدیم گاؤں تھا جس کی بنیاد گلاب خان کے اجداد نے رکھی تھی۔ یہ ایک مسلم گاؤں تھا۔گلاب خان نے ایلیمنٹری تعلیم حاصل کی اور ناظرہ قرآن پڑھا تھا۔ وہ مذہبی مزاج والے تھے اور اسلام پر متعدد کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا۔چالیس برس کی عمر میں مسیحیت کی طرف راغب ہوئے۔ انہیں ایک مٹھائی والے نے بائبل کے ایک ورق میں مٹھائی لپیٹ کر دی اور انہوں نے اس کاغذ کی عبارت پڑھی۔ بعد میں بائبل کا اردو ترجمہ حاصل کیا اور اپنے مسلم رشتہ داروں کو پڑھ کر سنانے لگے۔اس باعث انہیں کافر قرار دے کرگاؤں سے نکال دیا گیا۔ وہ سرکاری حکام کی مدد سے  گاؤں واپس آئے اور 1909 میں گاؤں کے سربراہ بنے۔اس دوران میں گلاب خان کو اسکاٹش مشنری نے 1875میں بپتسمہ دیا اور وہ ہندوستان کے جنوب مغربی علاقوں میں ایک ایونجلسٹ بن گئے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اعتراف کرتے کہ پہلے پہل ان میں عاجزی کی مسیحی قدر پیدا نہ ہوئی تھی اور وہ انجیل کی تبلیغ کے دورا ن  بدمزاج لوگوں کو ڈانٹنے سے نہ ہچکچاتے۔ امریکی مشنریوں نے سوچا کہ اس کی شادی کسی پرانے مسیحی خاندان کی غریب عورت سے کروا دی جائے تو یہ پرامن ہو جائیں گے۔ انہیں 1887 میں امرتسر بھیجا گیا۔ گلاب خان وہاں پہنچے تو خواتین خانہ ایک غصیلے پٹھان کو گھر میں آتا دیکھ کر چھپ گئیں۔ گھر کے سربراہ بندوق نکال لائے لیکن ان کے نوکر نے گلاب خان سے بات چیت کی اور آمد کا مقصد جان کر سب پرسکون ہو گئے۔ ایک نیک اور چھوٹے قد کی خاتون سے شادی کا بندوبست کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ خاتون خاموش طبع اور امورِ خانہ داری میں ماہر تھیں اور روزانہ دو بار بائبل سے دعا کرتیں۔ ان کا نام مارتھا تھا۔اپنی اسّی کی دہائی میں ایک ڈاک ٹرین نے انہیں ٹکر ماری جب وہ ریلوے لائن پار کر رہے تھے۔ وہ شدید زخمی ہوئے اور دو سال تک بستر پر رہے۔ آخرکار وہ لاٹھی کے سہارے چلنے پھرنے لگے۔ ان کی بیوی ان سے بہت چھوٹی تھی لیکن ان سے بہت پہلے فوت ہو گئی۔ اپنی آخری عمر میں وہ نرم خو ہو گئے تھے۔ میرے سمیت ان کے شرارتی پوتی پوتیاں اور نواسے نواسیاں ان کے گرد جمع ہو جاتے اور مٹھائیوں کا مطالبہ کرتے یہاں تک کہ ان کی تھوڑی سی پنشن ختم ہو جاتی۔

1889 میں گلاب اور مارتھا کے ہاں ایک بیٹی بشیرالنسا بیگم پیدا ہوئیں۔ وہ میری ماں تھیں۔ وہ صورت اور سیرت کے لحاظ سے خوب صورت تھیں۔ ان کی عمر ستاسی برس ہوئی۔ انہیں کبھی آپے سے باہر ہوتے نہ دیکھا گیا۔ میرے اندر جو بھی خوبیاں ہیں انہی کی طرف سے آئی ہیں۔ وہ اسکول تک پڑھی تھیں لیکن علم والی تھیں کیونکہ دن بھر کی مشقت کے بعد دیے کی روشنی میں پڑھتیں۔ میرے والد انہیں روشنی بجھا کر سونے کو کہتے۔ 1956میں میرے والد فوت ہو گئے اور میری ماں بنکاک چلی گئیں جہاں میں سفیر تعینات تھا۔ وہ بائبل اور کچھ دیگر کتب ساتھ لے کر گئی تھیں۔ باپ کی موت کے بعد ہم نے انہیں اپنے ساتھ رہنے کو کہا لیکن وہ مارٹن پور والے گھر  میں ہی رہیں۔ لوگ ان کی عزت کرتے اور اپنے ذاتی مسائل میں ان سے رہنمائی لیتے۔میری ماں بہترین باورچی، کامل ماں اور باوفا بیوی تھیں۔

میں اپنے والدین میں طاقت کے عدم توازن پر کڑھتا تھا۔والدہ کردار، دانائی اور اطوار میں والد سے برتر تھیں لیکن اچھے برے سب فیصلے والد کرتے تھے۔ بعض اوقات والد والدہ سے سختی کرتے جس پر بے بسی میں میرا خون کھولتا۔ تاہم والدہ نے کبھی شکایت نہ کی۔ وہ مجسم صبر تھیں۔والدہ سے میرا یہی جھگڑا رہتا کہ وہ بیٹوں کی طرف داری کرتی تھیں۔ لڑکوں میں کوئی سرخاب کا پر نہ تھا لیکن خاندان کے وسائل ان کی تعلیم پر لٹائے جاتے۔ بیٹیاں دوسرے درجے کے افراد تھیں۔میں بڑا ہو کر عورتوں کے مساوی حقوق کا حامی ہو گیا۔ خدا نے ہمیں چار بیٹیاں عطا کیں۔ میں نے انہیں لڑکوں کی طرح تعلیم دلوائی۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ روزی روٹی کمانے کے قابل بنیں تاکہ روٹی اور چھت کے لیے غیر معقول خاوندوں کی منت سماجت نہ کرنی پڑے۔ میری انگریز بیوی پچھتاتی کہ کوئی بیٹا نہیں ہوا۔ میں ہنستا کہ مشرقی ہو کر بھی مجھے کوئی پروا نہیں اور تم مغربی ہو کر بھی پریشان ہو۔میری بڑی بہن نے بی اے کیا اور صوبہ پنجاب میں پہلی خاتون فزیکل انسٹرکٹر بنی۔ اس نے ایک نیوی افسر سے شادی کی لیکن اسے کھو دیا اور ایک بیٹی اور ایک بیٹا ابھی اسکول میں تھے۔ اس کی تعلیم کام آئی۔ اس نے وظیفہ حاصل کیا اور ایک امریکی یونیورسٹی سے آرٹ اور گھریلو صحت میں ڈگریاں لیں۔ وہ کینیڈا میں ٹیچر بنی اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ باقی تینوں  بہنیں سکول سے آگے نہ جا سکیں۔ میرے چار میں سے تین بھائیوں نے یونیورسٹی سے ڈگریاں لیں۔

میں نے اپنے باپ سے وہ چیزیں سیکھیں جو نہیں کرنی چاہئیں لیکن ایک صفت نے ہم بھائیوں کو بہت فائدہ دیا۔ ان کی خواہش تھی کہ ہم سب بہترین کالجوں میں تعلیم حاصل کریں۔ بہترین کوشش کے باوجود ہم سب کے تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکتے تھے۔میرا خیال ہے کہ وہ معمولی ٹیچر سے کچھ زیادہ بن سکتے تھے۔ ان کے پاؤں میں چکر تھا۔ وہ نوکریاں بدلتے رہتے اور بے روزگار رہتے۔ آمدن نہ ہونے کے برابر ہوتی۔ اس سے مجھے تکلیف ہوتی اور میں نے دو باتوں کا تہیہ کر لیا۔ اول یہ کہ مستقل ملازمت حاصل کروں گا۔ اس سے مجھے ذہنی سکون ملے گا اور اہم معاملات پر توجہ مرکوز رہے گی۔ دوسرا یہ کہ میں اپنے ذمہ واجب الادا رقم فوری طور پر ادا کر دیا کروں گا تاکہ ذہن پر بوجھ نہ رہے۔ میں نے یہ بھی عہد کیا کہ کبھی غصہ میں نہ آؤں گا۔ بدقسمتی سے باپ کا خون جوش مارتا اور میں غصہ ہو جاتاحالانکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ اس سے میرا ہی نقصان ہوتا ہے۔

میرے والد کے جگہیں بدلتے رہنے سے میں بھی سکول سکول گھوما لیکن کوشش کر کے ہمیشہ کلاس کا ذہین طالب علم رہا۔ میرا والد اس پر فخر کرتا اور میری مزید حوصلہ افزائی ہوتی۔ بچوں کو سزا دینا اساتذہ کی عادت تھی۔ ایک سزا یہ تھی کہ ڈیسک پر کھڑا کر دیتے تھے۔ ایک دن میں بنچ پر کھڑا تھا اور میرے والد کلاسوں کا دورہ کرتے ہوئے آن پہنچے۔ اگرچہ میں اکیلا نہیں تھا لیکن والد نے کہا کہ یہ شرم ناک بات ہے کہ ہیڈماسٹر کا بیٹا شرارتوں کی وجہ سے کھڑا ہو۔ وہ مجھے اپنے دفتر میں لے گئے اور میرے ہاتھ پر زور سے چھے دفعہ بید کی چھڑی ماری۔ مجھے اس نا انصافی پر غصہ آیا لیکن فخر بھی ہوا کہ والد توقع کرتے ہیں کہ دوسرے لڑکوں سے بہتر کردار کا حامل بنوں۔

بچپن کے کچھ واقعات ہمیشہ ذہن میں نقش ہو گئے۔ جس دن میں پیدا ہوا میرے دادا کہیں سے ایک کتے کا ایک پلا لے آئے۔ میری بچپن ہی سے اس سے دوستی ہو گئی۔ اس کا نام دانہ تھا۔ جب بھی ہم چھٹیوں میں گاؤں آتے دانہ اور میں ساتھ ساتھ ہوتے۔ چچا ہمیں چھوڑنیبیل گاڑی پر ننکانہ ریلوے اسٹیشن پر آتے۔ٹرین چلتی تو دانہ پیچھے بھاگتا۔ میں ڈرتا کہ کہیں دانہ یہیں پر نہ رہ جائے لیکن وہ کبھی نہ بھٹکا۔ جب ہم دس سال کے تھے تو دانہ ایک دوسرے کتے سے لڑائی ہو گئی۔ اس کے سر پر گہرا زخم آیا جس میں کیڑے پڑ گئے۔ میرے دادا اور چچاؤں نے اسے گھیر کر لاٹھیوں سے مار دیا۔ وہ فوراً مر گیا اور یہ منظر میرے لیے خوف ناک تھا۔

 

دوسری یاد یہ ہے کہ چار برس کی عمر میں میرے پاس ایک وکٹر نامی چینی گڈا تھا جو ہمیشہ میرے ساتھ رہتا۔ ایک دن میں بالکونی میں کھڑا تھا کہ وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور گر کر پاش پاش ہو گیا۔ مجھے اس کی موت پر بہت افسوس ہوا۔ تیسرا واقعہ چرچ میں پیش آیا۔ اتوار کے دن مسیح کے مصلوب ہونے پر بیان تھا۔ میں پیارے یسوع کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر بہت دل گرفتہ رہا۔

 

میں نے میٹرک کا امتحان سنٹرل ماڈل ہائی اسکول لاہور1922 میں فرسٹ ڈویڑن سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ میرے مضامین انگریزی، ریاضی، سائنس، فزیالوجی اور صحت عامہ تھے۔ میں اسکول کی کرکٹ ٹیم کا رکن بھی تھا۔ میٹرک کے بعد میں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا اور انگریزی، فزکس، کیمسٹری، بوٹنی اور زوالوجی کے مضمون رکھے اور کالج کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کا امیدوار تھا۔لیکن جلد ہی مجھے علم ہوا کہ ان مضامین کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے وقت نہ بچے گا۔ پہلا سہ ماہی ختم ہوا اور چھٹیاں ہو گئیں۔ ستمبر میں دوبارہ کلاسیں شروع ہوئیں تو مجھے لگا کہ کرکٹ نہ کھیل پایا تو خوش نہ رہ سکوں گا۔ میں نے سائنس کی بجائے تاریخ، فلسفہ، فارسی اور اردو کے مضامین رکھنے کا فیصلہ کیا۔جب پرنسپل کو درخواست دی تو انہوں نے کہا کہ سائنس اور آرٹس کے مضامین کے پروفیسروں کا راضی نامہ حاصل ہو تب مضامین تبدیل ہو سکتے ہیں۔ سائنس مضامین کے پروفیسروں نے میرے نتائج دیکھ کر کہا کہ تم بہترین طالب علم ہو یہ مضامین نہ چھوڑو۔ آخر کار انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ ادھر آرٹس کے مضامین میں فارسی کے پروفیسر نے مسئلہ بنایا۔ تاہم میں نے وعدہ کیا کہ فارسی پڑھ لوں گا تو وہ بھی مان گئے۔ اس فیصلے نے میری ساری زندگی بدل دی۔ میں کبھی اچھا ڈاکٹر نہ بن پاتا۔ آرٹس میں عام طور پر کلاس میں سرفہرست رہتا اور کرکٹ کھیلنے کے لیے بھی بہت وقت مل جاتا۔

یونیورسٹی میں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ امتحان میں اچھی کارکردگی دکھانا ایک فن ہے۔ ممتحن آپ کے علم سے نہیں بلکہ پرچے سے متاثر ہوتاہے۔ تو منصوبہ یہ بنایا کہ شروع سال ہی میں یہ دیکھتا کہ ہر مضمون کے طالب علم سے کیا توقعات کی گئی ہیں۔ پھر پچھلیپانچ سالوں کے پرچے حاصل کرتا۔ پھر میں ایک سوالیہ پرچہ تیار کرتا کہ اس قسم کا پرچہ اگلے امتحان میں آ سکتا ہے۔ چوائس بہت زیادہ ہوتی تھی۔ بارہ سوالوں میں سے چار یا چھے حل کرنے ہوتے تھے۔ اور میرے ماڈل پیپر میں تیس یا چالیس سوال ہوتے تھے۔ میں لائبریری سے متعلقہ کتابیں لیتا اور اپنے لکھے ہوئے سوالوں کے جواب تیار کرتا۔ میرے جوابوں سے تحقیق اور علم جھلکتا۔ میرا گیس سو فیصد صحیح تو نہ ہوتا لیکن میرا مقصد کافی حد تک پورا ہو جاتا۔یہ سسٹم اس طرح کامیاب ہوا کہ ہر مضمون میں کچھ موضوع زیادہ اہم ہوتے ہیں اور زیادہ سوال انہی میں سے آتے ہیں۔ کچھ سوالوں کا جواب مجھے بالکل نہ آتا تھا لیکن جن کا جواب لکھتا تھا اس سے علمیت ظاہر ہوتی تھی۔

 

تاریخ میرا پسندیدہ مضمون تھا۔ بی اے آنرز میں تاریخ میں صوبہ بھر میں اول رہا۔ ایم اے میں اسی مضمون میں اعلیٰ فرسٹ ڈویڑن حاصل کی۔ مجھے لیکچروں سے زیادہ اپنے مطالعہ سے فائدہ ہوا۔ گورنمنٹ کالج کی عمارت اوکسفرڈ اور کیمبرج کی طرز پر بنائی گئی ہے۔ برجوں اور چھت کی چابیاں لائبریرین کے پاس ہوتی تھیں۔ وہ مہربان تھا اور مجھے چھت پر بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت مل جاتی۔
کالج کے دنوں میں تین سو صفحات کی کتاب ایک دن میں پڑھ لیتا تھا۔ ساری باتیں تو یاد نہ رہتیں لیکن اگر کوئی اسی کتاب سے پڑھتا تو مجھے سیاق و سباق کا پتا چل جاتا یا امتحان میں اس سے آنے والے سوال کا جواب لکھ سکتا تھا۔ رٹا نہ لگا سکتا تھا اس لیے پریشان ہو کر نفسیات کے پروفیسر سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا پریشان نہ ہوں آپ کی یادداشت خیالات کو یاد رکھتی ہے لفظوں کو نہیں۔
یونیورسٹی کے سال مزے کے تھے۔ پڑھائی بھی کرتا اور کالج لائف میں بھی شریک رہتا۔ ہر سال ٹورنامنٹ میں کرکٹ ٹیم کا حصہ رہا۔ کالج یونین سمیت کئی طلبہ شعبوں کا سربراہ رہا۔ پڑھائی اور تقریری مقابلوں میں کئی انعامات اور اعزازات حاصل کیے اور کالج کے ساتھیوں سے اچھی دوستی رہی۔ مجھے ڈے اسکالر ہونے سے بہت فائدہ ملا۔ میں تمام سرگرمیوں میں شامل رہتا۔ چھٹیوں میں بے صبری سے کالج کھلنے کا انتظار کرتا اور دوستوں سے خط و کتابت میں لگا رہتا۔یہ دوستیاں ہی خالص تھیں۔
کرکٹ بچپن ہی سے میرا جنون تھا۔ تیز کھیلنے والے بلے باز میرے ہیرو تھے۔ میں نے کہیں سے رسمی کوچنگ یا ٹریننگ نہیں لی تھی۔ میں اچھے باؤلروں کو بھی چھکے لگاتا لیکن اکثر شارٹ پچ بال پر آؤٹ ہو جاتا۔ میرے لیے کرکٹ حقیقی زندگی سے مشابہ ہے۔ ایک بلے باز پوری ٹیم کا بیک وقت سامنا کرتا ہے۔ کرکٹ میں آپ کی پہلی غلطی ہی آخری ہوتی ہے۔ یہ چانس کی گیم ہے۔ چار پانچ دن کے میچ میں آپ مسلسل اپنے ساتھیوں کی صحبت میں رہتے ہیں۔ میرے فخریہ چھکے دو ہیں جو میں نے بیس سال کی عمر میں انگریز باؤلر ولفرڈ روڈز کو لگائے۔ یہ میچ پٹیالہ میں مہاراجہ کی ٹیم کے خلاف کھیلا گیا تھا۔ مہاراجہ رولز رائس میں میدان میں اترے اور پہلی دفعہ آؤٹ ہونے پر کسی نے بھی انہیں کریز چھوڑنے کا کہنے کی جرات نہ کی۔ پینتالیس رنز بنا کر بولڈ ہوئے تو رضاکارانہ طور پر وکٹ چھوڑی۔ مہاراجہ کی یادداشت بڑی زبردست تھی۔ میں جہاں بھی جاتا کرکٹ کلب بنا لیتا۔ میں رائل بینکاک کلب کی طرف سے کرکٹ کھیلا۔ اوٹاوہ کرکٹ کلب کا وائس پریذیڈنٹ بنا۔ انڈین اور پاکستانی کرکٹ تاریخ میں میرا نام نمایاں رہا۔
میرے مالی وسائل زیادہ نہ تھے اس لیے یونیورسٹی میں شروع ہی سے ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ امیر جاگیرداروں کے بچے جو میرے کلاس فیلو تھے انہیں پڑھاتا۔ چیفس کالج میں امیر اشرافیہ کے بچے پڑھتے تھے انہیں پڑھاتا۔ رات کو کیروسین لیمپ جلا کر سائیکل پر لگاتا اور چار میل دور چیفس کالج میں پڑھانے جاتا۔ اس سے آمدن باقاعدہ اور بہتر ہوئی اور میں خوش لباس ہو گیا۔ تازہ آنے والی کتابیں سب سے پہلے خرید لیتا۔ جب میرے والد پہلی دفعہ کالج کے پرنسپل سے ملے تو پرنسپل کو حیرت ہوئی کہ میں امیر باپ کا بیٹا نہیں۔گرمیوں کی چھٹیوں میں میرے امیر شاگرد مجھے اپنے ساتھ پہاڑی مقامات پر لے جاتے اور میں بھی ان کی طرح شہزادہ بن جاتا۔انہی دنوں میں سگریٹ کی لت سے بمشکل بچا۔
میں ذاتی مطالعہ پر انحصار کرتا تھا اس لیے کلاس میں خلل پیدا کرنے پر لیکچرار سے ڈانٹ پڑتی رہتی۔ انڈین سول سروس کے دوران میں نے اس کا ازالہ کیا اور پروفیسروں کا بہت زیادہ احترام کیا۔ میں سب سے زیادہ بدتمیزی فارسی کی کلاس میں کرتا۔ جب امتحان ہوا تو فارسی کے پرچے میں 150 میں سے 130 نمبر یعنی سب سے زیادہ نمبر لیے حالانکہ پروفیسر کلاس میں کہتا رہتا تھا کہ میں فیل ہو جاؤں گا۔ آخرکار ہم میں سمجھوتا ہو گیا کہ وہ میری حاضری لگا دیتے اور میں کلاس سے نکل جاتا تاکہ دوسرے سکون سے پڑھ سکیں۔ جب میں طالب علم تھا تو برطانوی سلطنت کا نصف النہار تھا اور ہم سوچتے کہ انگریزوں میں حاکموں والی کون سی خوبیاں ہیں۔ گورنمنٹ کالج میں فزکس کے پروفیسر A.S. Hemmy، انگریزی کے پروفیسر H. Y. Langhorne اور تاریخ کے پروفیسر H. L.O. Garrett پہلے انگریز تھے جن سے میں متعارف ہوا۔انگریزاساتذہ کا اپنے شاگردوں سے رویہ مشفقانہ ہوتا تھا۔
پروفیسر گیرٹ کے لیے میرے جذبات تشکر بے انتہا ہیں۔ چھے فٹ کا یہ دبلا پتلا پروفیسر جمخانہ کلب کا ہر دلعزیز ممبر تھا۔ میں اس کا عزیز شاگرد تھا۔ اس نے میرے بیرون ملک وظیفہ کی حمایت کی لیکن یہ وظیفہ ایک ہندو کو ملا کیونکہ کمیٹی کا چیئرمین ایک ہندو تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ ہندو لڑکا چیئرمین کے پوتوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ میں اور میرے دو مستحق ساتھی جو مسترد ہوئے تھے ان میں سے ایک حافظ عبدالماجد انڈین سول سروس میں گئے اور چودھری محمد علی پاکستان کے وزیراعظم بنے اور وظیفہ پانے والا ہندو کوئی کارنامہ نہ کر پایا۔1928ء-04 میں گیرٹ نے میرے ارادوں کے خلاف مجھے ایم اے اور انڈین سول سروس کا امتحان دینے کا کہا۔ سول سروس میں تو نمایاں نہ ہوا لیکن ایم اے تاریخ میں اول رہا۔مجھے پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے درخواست کرنے پر گیرٹ نے مجھے لیکچررشپ تو نہ دی البتہ کالج ہوسٹل کا وارڈن بنا دیا۔ اس نے ایم اے انگریزی کرنے کا مشورہ دیا اور فیس معاف کروا دی۔ میں تیاری کرتا رہا اور 1929ء-04 میں سول سروس کا امتحان دیا۔
2۔ میں ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے فولادی ڈھانچے کا حصہ بن گیا
میں نے یونیورسٹی کے ابتدائی ایام ہی سے دو چیزوں سے بچنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے پڑھ رکھا تھا کہ بعض لوگ لاکھوں کماتے ہیں لیکن مفلوک الحال مرتے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آخری عمر میں غریب نہیں بنوں گا۔ ذہنی سکون میری اولین ترجیح تھا جسے مستقل ملازمت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا تھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ کامیاب ترین انسان ریٹائرمنٹ کے بعد جلدی مر جاتے ہیں۔ میں اس سے بھی بچنا چاہتا تھا۔ یہ دو مقصد ہمیشہ میرے سامنے رہے۔ میں نے صرف جاب نہ کی بلکہ کیرئیر بنایا جس میں پنشن بھی ملی۔ آخری کیریئر ایسا تھا جس کی سرگرمیاں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رکھ سکتا تھا۔

ہمیں یہ تکلیف دہ احساس تھا کہ ہم محکوم نسل ہیں۔ اس لیے پہلی چوائس انڈین سول سروس تھی۔ قریب ایک ہزار انڈین سول سرونٹس کئی سو ملین لوگوں اور چھے سو شہزادوں پر حاکم تھے۔ وزیراعظم لائڈ جارج نے کہا تھا کہ آئی سی ایس ہندوستانی حکومت کا فولادی ڈھانچہ ہے۔ آئی سی ایس افسران وائسرائے اور پریذیڈنسی کے گورنر کے علاوہ کوئی بھی عہدہ لے سکتے تھے۔ سول سروس میں داخلہ کھلے مقابلے سے ہوتاتھا جو دنیا میں مشکل ترین خیال کیا جاتا تھا۔ کامیاب ہونے والوں کو بھی کئی سال تک ڈراؤنے خواب آتے رہتے کہ وہ فیل ہو گئے ہیں۔
مقابلے کا امتحان 1800 نمبروں کا تھا۔ 800 نمبر کے آٹھ مضامین لازمی تھے اور اختیاری مضامین ساٹھ تھے جن میں سے دس کا انتخاب کرنا ہوتا تھا۔ پہلے پہل اس پر انگریزوں کی اجارہ داری تھی۔ امتحان لندن میں ہوتا تھا اور صرف امیر ہندوستانی ہی وہاں جانے کے اخراجات اٹھا سکتے تھے۔ ہندوستانیوں کا کامیاب ہونا انتہائی مشکل تھا۔ جب میں نے امتحان دیا تو امتحان دہلی میں ہونے لگا تھا اور پچاس فیصد کوٹہ ہندوستانیوں کے لیے تھا۔ ٹاپ پوزیشن عام طور پر ہندو حاصل کرتے۔ منصفانہ نمایندگی یقینی بنانے کے لیے اقلیتوں یعنی مسلمانوں، مسیحیوں، سکھوں اور پارسیوں کے لیے کوٹہ مخصوص کیا گیا۔ مسلمان سب سے بڑی اقلیت تھے۔ انڈین سول سرونٹس ہی کی بدولت انڈیا اور پاکستان انتظامی طور پر مستحکم رہے۔
آئی سی ایس میں درخواست دینے کے بعد طبی معائنہ ہوتا تھا۔ ڈاکٹروں میں لاہور کا سول سرجن، میڈیکل کالج کے پروفیسر، انسپکٹر اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف ہاسپٹلز شامل ہوتے تھے۔ ڈاکٹر کرنل سوان نے بڑی دیر تک میری نبض اور چھاتی کا معائنہ کیا۔ دوسرے ڈاکٹروں نے باقی اعضا کا معائنہ کیا اور تسلی کا اظہار کیا۔طبی امتحان کا نتیجہ صیغہ راز میں رکھا جاتا اور خط کے ذریعے بتایا جاتا۔ میں نے ہمت کر کے سپرنٹنڈنٹ گوش صاحب سے پوچھ لیا۔ میرا خدشہ درست نکلا کیونکہ سول سرجن نے کہا تھا کہ میری دھڑکن تیز اور بے قاعدہ ہے اور میں فٹ نہیں۔ معلوم ہوا کہ کرنل سوان کی بیوی کو دل کا مسئلہ تھا اور وہ صحت مند لوگوں کو بھی اس کا شکار سمجھتا تھا۔ میں نے گھر آ کر ماں کو بتایا اور انہوں نے تسلی دی اور بہترین ماہر قلب کو دکھانے کا فیصلہ کیا۔ پتہ چلا کہ اس شعبے کا سب سے بڑا نام کرنل ہارپر نیلسن ہے۔ اس نے معائنہ کر کے سرٹیفیکیٹ دے دیا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔دوسری طرف یہ ہوا کہ دو سال پہلے میں نے انڈین پولیس سروس میں درخواست دی تھی اور کرنل سوان نے تب مجھے ٹھیک ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا تھا۔ بہرحال بتایا گیا کہ میڈیکل بورڈ کا فیصلہ حتمی ہے۔

میں مایوس ہو گیا۔ میرا چھوٹا بھائی عمانویل کالج میں تھا۔ پرنسپل گیرٹ نے اس سے میری غیر حاضری کا سبب پوچھا۔ گیرٹ نے مجھے فوری طور پر پیغام بھیجا۔ اس نے انڈین سول سروس کے رکن اور پنجاب کے چیف سیکریٹری ایچ ڈبلیو ایمرسن کے نام ایک خط لکھ کر میرے حوالے کیا۔ ایمرسن گیرٹ کا اچھا دوست تھا۔ چیف سیکریٹری کے دفتر کے باہر چپڑاسیوں نے میرا مذاق اڑایا کہ بغیر وقت لیے ملاقات کے لیے ایک طالب علم آن دھمکا ہے۔ بہرحال ایمرسن نے بلایا اور بات سنی۔ کوئی وعدہ نہ کیا۔ ایک ہفتے میں دو خط میرے والدین کے نام پر آئے۔ ایک میں کہا گیا تھا کہ میں مستقل طور پر آئی سی ایس میں جانے سے معذور ہوں۔ دوسرے میں کہا گیا کہ دوبارہ میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوں۔ کرنل سوان دوبارہ بورڈ میں شامل ہو سکتا تھا اس لیے گیرٹ نے کرنل میکنزی کو لکھا کہ اس کی جگہ کوئی دوسرا ڈاکٹر شامل کیا جائے۔ میڈیکل بورڈ میں کرنل میکنزی کا نائب کرنل سوڈھی اور کرنل ہارپرنیلسن بھی تھے۔ تیسرا کرنل ہیوگز تھا جو پروفیسر لینگ ہارنے کا پے انگ گیسٹ تھا۔ میں پروفیسر کے پاس پہنچا اور صورت حال بتائی۔ کرنل سوڈھی تک دسترس کے لیے اس کے دوست گوپال داس سے ملا جس کا چھوٹا بھائی روپ چاند میرا دوست تھا۔ روپ چاند تو نہ تھا۔ خوش قسمتی سے گوپال داس باہر نکل کر کار میں بیٹھنے لگا تھا۔ میں نے کلیجہ تھام کر قصہ بیان کیا۔اس نے کہا کار میں بیٹھو سوڈھی کے گھر چلتے ہیں۔ گوپال اندر گیا اور ایک خاتون نے چیخ کر کہا کہ سوڈھی گھر پر نہیں۔ میں نے سنا کہ گوپال کہہ رہا تھا کہ وہ انتظار کرے گا۔ سوڈھی آیا اور گوپال سے بات چیت کی جبکہ میں باہر کھڑا رہا۔ سوڈھی باہر آیا اور مجھے کہا کہ بورڈ کے سامنے جانے سے پہلے سائیکل نہ چلاؤں۔ میں اگلے دن ٹانگے پر مقررہ جگہ پہنچ گیا۔ جب پیش ہوا تو کسی نے کوئی معائنہ نہ کیا۔ میرے بالکل ٹھیک ہونے کا لیٹر جاری کر دیا گیا۔
اس واقعہ سے مجھے یہ تاثر ملا کہ لندن کی معاشی پالیسی کچھ بھی ہو ہندوستان میں برطانوی اہل کار انصاف پسند تھے۔ استعمار پرستوں کی کوئی اور نسل ہوتی تو نسلی برتری کا مسئلہ بنا کر کرنل سوان کی مخالفت نہ کرتی۔ جنوری 1929میں امتحان دیا۔ لیکن گورنمنٹ آف انڈیا نے کہا لندن آفس کو تجویز دی کہ اس سال مسیحی کی بجائے مارشل نامی ایک پارسی کو منتخب کیا جائے۔ میری ناکامی یقینی تھی لیکن ایک غیر متوقع کام ہو گیا۔ اگرچہ مارشل کے خلاف پولیس میں کچھ نہ تھا تاہم اس کے باپ کی حکومت برطانیہ کے ساتھ وفاداری مشکوک تھی۔ باپ کی سزا بیٹے کو نہیں ملنی چاہیے تھی لیکن سیکریٹری نے مارشل کی امیدواری مسترد کر دی۔ایمرسن نے فوری طور پر میرا نام تجویز کیاجسے منظور کر لیا گیا۔
امتحان میں کامیابی کے بعد دو سال کے لیے سرکاری خرچے پر کسی برطانوی یونیورسٹی میں تربیت حاصل کرنا تھی۔ اوکسفرڈ میں کوئی جگہ نہ تھی اس لیے لندن یونیورسٹی بھیجا گیا۔ وہاں ایسے مضامین پڑھائے گئے جو ہماری سروس سے متعلقہ تھے۔ گھڑ سواری کا امتحان بھی پاس کرنا ضروری تھا۔ میرے والد مجھے مارٹن پور لے گئے اورگاؤں میں جشن کا ماحول تھا۔ روانگی سے پہلے ماں نے مجھے بائبل دی۔ اس دن سے آج تک میں باقاعدگی سے دو بار بائبل پڑھتا ہوں۔ دعائیں روحانی طور پر مضبوط کرتی ہیں۔ آئی سی ایس میں شامل ہونے کے لیے میری کوششوں نے میری ہمت بلند کر دی تھی۔ میں ہر رکاوٹ سے لڑنے کا ہنر جان گیا۔
میں ستمبر 1929 میں انگلینڈ پہنچا اور وہاں سبزہ اور ہریالی دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ کچھ ماہ تک گھر کی یاد آئی اور اداس رہا۔ تب برطانیہ اپنی استعماری شان و شوکت کے عروج پر تھا۔ دنیا کی ہر بہترین شے یہاں دستیاب تھی۔ برطانوی کلچر سیکھنے کے لیے لندن سب سے بہترین جگہ تھی۔ اضافی خوش بختی یہ ہوئی کہ ہونے والی بیوی بھی لندن میں ہی مل گئی۔
3۔ مجھے آسمانوں میں طے ہونے والی شادی عطا ہوئی
ان دنوں میں ہند برطانوی شادیاں ہندوستانی لڑکوں کی طرف سے ہوتی تھیں۔ برطانیہ سے پلٹنے والے اکثر شوہر اس قابل نہ ہوتے کہ انگریز بیوی بچوں کے اخراجات برداشت کر کے انہیں ہندوستان بلا لیں۔ خاندان والے دباؤ ڈالتے کہ اپنی برادری کی کسی لڑکی سے شادی کرو اور میم کو بھول جاؤ۔ اگر کوئی انگریز بیوی کو ساتھ لے بھی آتا تو شادی ٹوٹ جاتی یا کئی حوالوں سے عبرت ناک بن جاتی۔ برطانیہ پلٹ کنواروں کو بڑی آسانی سے زیادہ جہیز والی لڑکیاں مل جاتی تھیں۔ لیکن اگر برطانیہ پلٹ لڑکا اپنے ساتھ کسی اجنبی کو لے آتا جس کے خرچے اٹھانا بس سے باہر ہوتا تو کوئی بھی اس کی بیوی کو خوش آمدید نہ کہتا۔ہندوستانی شہر دو حصوں میں تقسیم تھے۔ سول لائنز میں سرکاری افسران یورپی طرز پر رہتے تھے۔ دوسرے حصے میں عام ہندوستانی رہتے۔ برطانیہ سے آنے والی لڑکی کو جب اس علاقے میں رکھا جاتا تو اس سے انگریزی بولنے والا کوئی نہ ہوتا اور بہو سے توقع کی جاتی کہ وہ گھریلو امور میں ہاتھ بٹائے گی۔ خاندان مسلم یا ہندو ہوتا لیکن بہو مسیحی ہوتی جس سے ایک ثقافتی خلیج پیدا ہو جاتی۔ میرا ماننا تھا کہ شادی میں محبت ہی نہیں دوستی بھی ہونی چاہیے۔ دوستی محبت سے زیادہ پائیدار ہے۔
برطانیہ روانہ ہونے سے پہلے انگریز عورتوں سے شادی کے خطرات مجھے خوب سنائے گئے تھے لیکن میرے سارے حصار لوئزی کو دیکھ کر ٹوٹ گئے۔ یہ قصہ اکتوبر 1929ء-04 کو ویمبلڈن کے ٹینس کلب میں ہوا۔ وہ دراز قد، سلم، سنہرے بالوں، نیلی آنکھوں، گلابی گالوں والی اور ہونٹوں پر مسکان لیے ہوئے تھی۔ وہ کلاسیکل انگریزی حسینہ تھی۔ میں ہمت کر کے اس کے پاس گیا۔ وہ خوش اخلاق تھی۔ ہم نے ایک اٹالین ریسٹورنٹ میں ڈیٹ ماری۔وہ ہر لحاظ سے میرے لیے موزوں تھی اور ایک اخبار میں رپورٹر تھی۔لوئزی پہلے سے شادی شدہ تھی۔ اس کی شادی برما کے ایک طالب علم سے ہو چکی تھی۔ اس طالب علم کی وکالت نہ چلی اور وہ طلاق دینا چاہتا تھا۔ میں متذبذب تھا کہ شادی کر کے مالی مشکلات میں نہ پھنس جاؤں۔ اسی دوران میں میری ملاقات ایک جنوبی ہندوستانی مسیحی لڑکی سے ہوئی جس کی ماں ایک بیوہ تھی لیکن مالدار تھی۔ اس نے بہانے بہانے سے ذکر کیا کہ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو بہت سا جہیز دے گی۔ لیکن میرا دل لوئزی پر اٹکا ہوا تھا۔ ہندوستان روانگی سے پہلے میں نے لوئزی سے وعدہ کیا کہ میں ہر قیمت پر اسی سے شادی کروں گا۔ میں نے رقم ادھار لی اور اسے تین بیڈرومز والا ایک گھر کرائے پر لے کر دیا۔میں اکتوبر1931 میں لندن سے روانہ ہوا۔ لوئزی اتنی اداس تھی کہ مجھے خدا حافظ کہنے بھی نہ آئی۔ گھر پہنچ کر بھی میں شکستہ دل رہا۔نومبر 1931-04 میں لائلپور میں میری تعیناتی اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر ہوئی۔

 

گھر واپسی پر ماں نے میرے لیے کچھ لڑکیاں دیکھ رکھی تھیں لیکن میں نے بہانہ کیا کہ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ لوئزی کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ البتہ لوئزی کو روزانہ خط لکھتا۔ میرے خط بہت طویل ہوتے۔ ایک خط تو انیس صفحات کا تھا۔
لوئزی کی پہلی شادی کا معاملہ لٹکا ہوا تھا۔ برما برطانوی ہند کا حصہ تھا اس لیے جو قوانین لائلپور میں تھے وہی رنگون میں تھے۔ لوئزی نے لائلپور آ کر یہاں سے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ لائلپور کے ویمنز ہسپتال کی انچارج ایک اینگلو انڈین تھی وہ راضی ہو گئی کہ لوئزی کو بمبئی سے لے آئے گی اور شادی تک اپنے پاس رکھے گی۔ لوئزی 1933-04 میں لائلپور پہنچی۔ اس نے طلاق کا دعویٰ کیا، شوہر مان گیا اور عدالت نے طلاق دے دی۔ میں لوئزی کو پروفیسر گیرٹ سے ملوانے لاہور لے گیا۔ گیرٹ نے کہا کہ لاہور کیتھڈرل میں شادی کا بندوبست کیا جائے گا۔ 28 جون 1933 کو ایک مقامی چرچ میں ہماری شادی ہو گئی۔ میرے والدین، ڈاکٹر ورسلے اور گواہوں کے سوا کوئی مہمان نہ تھا۔ہم ہنی مون منانے دس دن کے لیے مسوری گئے اور سیوائے ہوٹل میں ٹھہرے۔ مہاراجہ اندور بھی اپنی نئی دلہن نینسی ملر کے ساتھ وہیں قیام پذیر تھا۔
ہماری مخلوط شادی کئی لحاظ سے فائدہ مند تھی کیونکہ ہم دونوں چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ تھے۔ میرے گھر والے انگریزی بول سکتے تھے اور ان کا نقطہ نظر مغربی تھا۔میرے پاس وسیع بنگلہ اور نوکرچاکر تھے۔ لوئزی یہاں کے ماحول میں رچ بس گئی اور ہر قسم کی تبدیلی کے لیے تیار رہی۔ میری والدہ اور بیوی میں محبت کا گہرا رشتہ استوار ہو گیا۔ میرے والد بھی میری بیوی کی خدمات کے معترف ہو گئے۔ لوئزی نے میرے والد کی بیماری میں خود ان کی تیمارداری اور دیکھ بھال کی۔ میری بہنیں اور بھائی اور ان کی اولادیں بھی لوئزی سے محبت کرتے تھے اور کئی کئی دن ہمارے گھر میں آ کر رہتے۔ میری ملازمت کے ابتدائی سالوں میں مالی مشکلات کا سامنا رہا۔ بہت زیادہ اخراجات کی وجہ سے میں مقروض ہو گیا لیکن والدین کو ایک سو روپیہ ماہوار باقاعدگی سے بھیجتا رہا جبکہ میری تنخواہ تین سو روپیہ تھی۔ اس کے علاوہ بھی ان کی مدد کرتا رہتا۔
لوئزی نے پاکستانی پاسپورٹ بنوا لیا اور اس طر ح پاکستانی شہری بن گئی۔ وہ گھر کے کاموں میں مصروف رہتی اور کبھی بوریت کا شکار نہ ہوئی۔ اس نے ہندوستانی کھانے پکانا سیکھ لیا۔ وائسرائے اور اس کی بیوی بھی لوئزی کے ہاتھ کے پکے کھانے پسند کرتے۔ وہ اپنے پہناوے خود سلائی کرتی یہاں تک کہ بیٹیوں کے لباس اور میرے گاؤن بھی خود ہی سلائی کرتی۔ لوئزی نے میری پیشہ ورانہ زندگی میں بھی معاونت کی اور نہایت اہم کردار ادا کیا۔بیگم شائشتہ سہروردی اکرام اللہ لوئزی کی بہت مداح تھیں۔ لوئزی گھر کی نگران تھی اور میں کمانے والا تھا۔ اس کے اخراجات مقرر تھے اور میں جب بھی دورے سے واپس آتا اس کے لیے اور بیٹیوں کے لیے زیورات اور دیگر تحائف ضرور لاتا۔اس نے شادی کے بعد صرف ایک خواہش کی تھی کہ اسے Surrey میں ایک کاٹیج خرید دیں۔ لوئزی کی وفات 17 دسمبر 1993-04 میں ہوئی۔

4۔ میں انڈین سول سروس میں
مئی 1934-04 میں میری ترقی ہوئی اور میں کولو میں سب ڈویڑنل افسر بن گیا۔ چیف سیکریٹری نے خود مجھے نامزد کیا تھا۔ اس پوسٹ کے ساتھ بہت سی مراعات اور دو جگہ رہائشیں بھی ملیں۔ ناگر میں جو بنگلہ مجھے ملا تھا وہ کسی برطانوی جنرل اوسبورن نے بنوایا تھا۔ یہاں ہم نے ان علاقوں کی خوب سیاحت کی۔ کولو میں Roerichخاندان مشہور تھا۔ روئرچ عالمی سطح کا مصور اور ایک مذہبی گروہ کا رہنما تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے جس میں سے ایک مستشرق بنا اور دوسرا مصور تھا جس نے انڈین مووی کوئین دیویکا رانی سے شادی کی۔ روئرچ خاندان پر روسی جاسوس ہونے کا شبہ تھا لیکن مجھے کوئی ثبوت نہ ملا۔
کولو وادی میں ان دنوں سڑک منالی تک جاتی تھی۔ لوگ دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔سادھو لوگ عام تھے جو عجیب و غریب صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ایک سادھو نے ایک شیرنی پال رکھی تھی جو ہرجگہ اس کے ساتھ ساتھ رہتی۔
اکتوبر 1934-04 میں وائسرائن لیڈی میری ولنگڈن ہماری مہمان بنی۔ میں نے تمام انتظامات اپنی نگرانی میں کروائے۔ لیڈی ولنگڈن بہت خوش ہوئیں اور مجھے اپنے پہلو میں بٹھایا۔ اس نے کہا کہ وہاں موجود فر کا ایک درخت نظارے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ جب وہ نہاکر لباس تبدیل کر کے نکلی تو اس وقت تک وہ درخت وہاں سے کٹوا دیا گیا تھا۔ وائسرائن خوشی سے چیخ اٹھی۔ میں پہلا انڈین تھا جس نے وائسرائن کو تازہ ٹراؤٹ ڈنر میں کھلائی۔ اسی طرح جب وائسرائن نے خواہش کی کہ بنگلہ کی چھت پر رنگ ہونا چاہیے تو میں نے فوری طور پر اسے سرخ رنگ کروا دیا۔ لیڈی ولنگڈن نے چھے صفحات کا شکریے کا خط ہمیں لکھا اور ہمارے انتظامات پر بہت خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ چند دنوں بعد لیڈی کی طرف سے ایک سلور سگریٹ کیس تحفہ کے طور پر ملا۔ لیڈی نے اپنے ہاتھ سے ایک خط لکھا اور ہدایت کی کہ کولو میں ہسپتال بنوایا جائے۔ اس نے تین ہزار روپیہ اپنی طرف سے ہسپتال کے لیے بھیجے تھے۔ہسپتال بن گیا تو لیڈی ولنگڈن جہاز پر دہلی سے آئیں اور افتتاح کر کے اسی دن واپس چلی گئیں۔
1938-04 میں میری ترقی ہوئی اور میں انبالہ کا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنا دیا گیا۔ میں نے موت کی سزائیں بھی سنائیں اور کوڑوں کی سزائیں بھی دلوائیں۔ تاہم مجھے اعتراف ہے کہ میں امیر اور طاقت ور مخالف کے خلاف غریب آدمی کااور مرد کے مقابلے میں عورت کا ساتھ دیتا۔ میں نے کبھی رشوت نہ لی۔ رشتہ داروں اور دوستوں حتیٰ کہ والدین کی سفارش بھی کبھی نہ مانی۔
1946-04 میں ہماری بیٹیوں پامیلا اور شیلا نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا اور ہم لاہور منتقل ہونے کا سوچ رہے تھے۔ فروری 1946-04 میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا اعلان ہوا اور اکثریتی ارکان کے خلاف پٹیشنز دائر کی گئیں۔ مجھے فرسٹ الیکشنز پٹیشنز کمیشن کا چیئرمین بنا یا اور ہمیں اکتیس پٹیشنز سننا تھیں۔ نواب افتخار حسین خان ممدوٹ، سر فیروز خان نون اور محمد ابراہیم برق جیسے سیاست دانوں کے خلاف پٹیشنز تھیں۔
میں نے 14 اگست 1947-04 کی سہ پہر کو اپنی ریٹائرمنٹ کے کاغذات پر دستخط کیے جب اقتدار منتقل ہو رہا تھا۔ نواب افتخار ذاتی طور پر میرے پاس آئے اور افسوس کیا کہ آئی سی ایس سے ریٹائرمنٹ کیوں لی۔ انہوں نے مجھے مسیحیوں کے لیے وزیر بننے کی پیش کش کی لیکن میں نے انکار کر دیا کہ پہلے اپنے معاملات نبٹا لوں تو نیا کام شروع کروں گا۔ مجھے دو سال سے زائد کی چھٹیاں مع تنخواہ ملی تھیں اور نئی ملازمت سے پہلے میرے پاس کافی وقت تھا۔ میں اپنی فیملی کو لے کر دسمبر 1947-04 میں لندن پہنچا۔ ہم نے چھے بیڈرومز والا ایک گھر Surrey میں خریدا اور لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں داخل کروا دیا۔ میں نے رخصت ختم کی اور 20 مئی 1948-04 سے پنشن وصول کرنے لگا۔ ہندوستان چھوڑنے سے پہلے میں اپنا ریوالور تھانے میں جمع کروانے گیا تو میری ملاقات پرتھوی راج سے ہوئی جو میرے کالج فیلو اور نمبر ون فلم اسٹار تھے۔ ہم انگلینڈ کے لیے بمبئی سے بذریعہ بحری جہاز گئے جبکہ ہمارا کتا Chang ایک دوسرے جہاز سے گیا۔انگلینڈ جا کر معلوم ہوا یہ وہ تبتی ٹیرئیر بہت قیمتی کتا تھا۔

5۔ پاکستان فارن سروس
پنشن کا معاملہ حل کر کے میں پاکستان پہنچا اور نئی ملازمت کی تلاش میں تھا۔ وزارت کی آفر موجود تھی لیکن میں مستقل روزگار چاہتا تھا۔ سر ظفراللہ خان پاکستان کے زیر خارجہ تعینات ہوئے۔ انہوں نے مجھے فارن سروس میں شمولیت کی دعوت دی۔ اگست 1948-04 میں مجھے فارن آفس میں ڈپٹی سیکریٹری بنا دیا گیا۔ مجھے انڈیا برانچ اور اقوام متحدہ برانچ کی ذمہ داری دی گئی۔ فروری 1949-04 میں لندن ہائی کمیشن میں کونسلر کی اسامی خالی ہوئی اور وہاں میری پوسٹنگ کر دی گئی۔ لندن میں ہماری فیملی کو کئی بار بکنگھم پیلس میں مدعو کیا گیا۔ میں وزیراعظم اٹیلی سے بھی ملا اور میری اور لوئزی کی ملاقاتیں ونسٹن چرچل اور اس کی بیگم سے بھی ہوئیں۔ چرچل نے اپنی تصویر آٹوگراف کے ساتھ مجھے دی۔
لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین کی منظوری سے مجھے واشنگٹن میں کونسلر تعینات کیا گیا جہاں محمد علی بوگرہ میرے چیف تھے۔ ہمارا یہاں مشن یہ تھا کہ امریکا کو قائل کریں کہ پاکستان کے ساتھ اتحاد ہندوستان کی نسبت زیادہ مفید رہے گا۔ پاک امریکا تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا کیونکہ امریکا سمجھتا تھا کہ کمیونزم سب سے بڑا دشمن ہے جبکہ پاکستان کے نزدیک ہندوستان سب سے بڑا دشمن تھا۔ مسیحی ہونے کی وجہ سے میں بہتر پوزیشن میں تھاکہ امریکا میں پاکستان کا بہتر تاثر قائم کروں۔ میں نے لوئزی، پرائیویٹ سیکریٹری اور پریس اتاشی کے ساتھ 9 تا 26 نومبر 1952-04 امریکا کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور پاکستان کی حمایت کے لیے کمپین چلائی۔ واشنگٹن سے مجھے سپیشل مشن پر ڈومینکن اور میکسیکو بھی بھیجا گیا۔ جون 1953-04 میں جب ہم لندن کے لیے رخصت ہوئے تو ہمارے دوستوں اور پریس نے ہمیں پرجوش طریقے سے رخصت کیا۔میں نے صدر ٹرومین سے کئی ملاقاتیں کیں۔ واشنگٹن سے روانگی سے قبل میں صدر آئزن ہاور اور نائب صدر رچرڈ نکسن سے بھی ملا۔
1953-04 میں مجھے اچانک احکامات ملے کہ ریوڈی جنیرو(برازیل) میں پاکستانی سفارت خانے کا مسئلہ حل کروں۔جون 1953-04 میں مجھے وزیر کے عہدے کے برابر لندن میں ڈپٹی ہائی کمشنر تعینات کیا گیا۔ واشنگٹن ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے مجھے تین سال کے لیے کمیٹی آن کنٹریبیوشنز کا رکن منتخب کر لیا گیا تھا۔ ستمبر 1953-04 میں مجھے سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور ڈنمارک کے لیے پاکستان کا وزیر بنا کر بھیجا گیا۔ میں اپنی بیٹیوں نوئل اور پامیلا اور لوئزی کے ساتھ اسٹاک ہوم میں رہائش پذیرہو گیا۔
1954-04 میں لوئزی، پامیلا، روبن اور نوئیل کے ساتھ میں پاکستان کرسمس منانے آیا۔ ہزاروں مسیحیوں نے کراچی میں ہمارا استقبال کیا۔ لاہور میں بھی ایسا ہی استقبال کیا گیا۔ ا ن لوگوں کی خواہش تھی کہ میں ان کی سیاسی قیادت کروں۔ سب سے زیادہ پرجوش استقبال میرے آبائی قصبے مارٹن پور میں ہوا۔ہم اپنے ساتھ گھڑیوں اور گڑیوں کے تحائف بچوں کے لیے لائے تھے۔ میں سویڈن سے شیورلے کار لایا تھا جس کے لیے مقامی شوفر رکھا گیا۔ بہت سے لوگ اس کار کو خریدنے کے خواہش مند تھے لیکن میں یہ کار واپس سویڈن لے گیا۔ ناروے اور سویڈن میں ملکہ عالیہ الزبتھ اور ڈیوک آف ایڈنبرا نے 1955-04 اور 1956-04 میں سرکاری دورے کیے جن میں میری ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ سویڈن اور دوسرے اسکینڈے نیوین ملکوں کے شاہی خاندانوں کے ساتھ بھی ہماری اکثر ملاقاتیں رہیں۔

 

اگست 1956-04 میں میری تعیناتی بنکاک میں بطور پہلے مقیم سفیر کے طور پر ہوئی۔ تھائی لینڈ کے ساتھ ساتھ مجھے لاؤس اور کمبوڈیا میں پاکستانی وزیر بھی بنایا گیا۔ بنکاک میں سیٹو کے جلسوں میں شرکت کی اور پاکستان کی طرف سے نمایندگی کی۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فلپائن بھی گیا۔ 1957-04 میں میری بیٹی پامیلا کی شادی آسٹریلیا کے بزنس مین سے ہوئی۔اس وقت میری ماں بھی بنکاک میں ہمارے ساتھ موجود تھی۔1958-04 میں مجھے فلپائن میں بطور سفیر جانے کے احکامات ملے۔ لوئزی کی صحت خراب تھی اس لیے میں فلپائن نہیں جانا چاہتا تھا۔ میں پاکستان پہنچا اور وزیراعظم فیروز خان نون سے ملا۔ انہوں نے فیصلے پر نظرثانی سے انکار کر دیا۔ یہاں میں نے جنرل ایوب خان سے راہ و رسم بڑھائی۔ میں نے ایوب خان کو بتایا کہ میں فلپائن کی بجائے کینیڈا جانا چاہتا ہوں۔ پھر میں بنکاک چلا گیا کہ اگر فلپائن جانے پر زور دیا گیا تو فارن آفس سے استعفیٰ دے دوں گا۔ اکتوبر 1958-04 میں صدر مرزا نے فیروز خان نون کو معزول کر دیا اور ایوب خان چیف مارشل لاء-04 ایڈمنسٹریٹر بن گئے اور کچھ ہی دنوں بعد صدر بن گئے۔ انہوں نے میرے فلپائن جانے کے احکامات منسوخ کیے اور کینیڈا میں ہائی کمشنر بنا دیا۔ میں 8 مئی 1959-04 کو کینیڈا کے لیے روانہ ہو گیا۔ چھے دن بعد ہی میں نے کینیڈا کے ساتھ ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کا معاہدہ کیا۔ کینیڈا نے دریائے کابل پر وارسک ڈیم بنوایا۔

 

ذوالفقار علی بھٹو کاوزیر کامرس کے طور پر 1959-04 میں مونٹریال گئے تو میں نے ان کے لیے بریف لکھی۔ اوٹاوا میں بھٹو صاحب میرے مہمان بنے۔ کینیڈا میں لوئزی اور میں نے تمام ساحلوں کی خوب سیاحت کی۔ یہاں میں نے کلبوں میں تقریریں کیں اور یونیورسٹیوں میں لیکچر دیے۔ میک گل یونیورسٹی میں میرے گہرے تعلقات تھے۔ میں نے وہاں ادارہ مطالعہ اسلام بنوایاتاکہ اسلام کی عقلی اور سائنسی تشریح پیش کی جا سکے۔
مئی 1960-04 میں لوئزی اور میں اونٹاریو میں تھے جب پرنس علی خان کی حادثے میں موت کی خبر سنی۔ علی خان اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل سفیر اور ارجنٹائن میں پاکستانی سفیر بھی تھا۔ اگلے دن مجھے فون آیا کہ بیونس آئرس پہنچ کر علی خان کی جگہ سنبھالوں۔ میں نے وہاں پاکستان کے تعلقات بہتر بنائے، پریس اور کاروباری لوگوں سے ملاقاتیں۔ واپسی پر کیوبا میں رکا اور وہاں میرا انٹرویو پریس اور میڈیا میں نشر ہوا۔

julia rana solicitors

 

6۔ پروفیسری
1961-04 مجھے یونیورسٹی آف منیسوٹا میں پروفیسری کی پیش کش ہوئی۔ میرا کام مشاورت اور رہنمائی دینا تھا۔ میں جون 1975 -04 میں پروفیسری سے ریٹائر ہوا۔ تقرری نامہ ملنے پر میں انگلینڈ میں لوئزی اور بیٹیوں سے ملا پھر ماں سے ملنے پاکستان آیا۔ پھر سڈنی میں اپنی بیٹی پامیلا سے ملا۔ 22 اپریل 1961-04 کو میں نے صدر ایوب کو لکھا کہ اب میں فارن سروس سے ریٹائر ہونا چاہتا ہوں۔ ایوب خان نے مجھے ستارہ پاکستان سے نوازا۔ 2 جولائی 1961-04 کو میں ریٹائر ہو گیا اور لندن میں اپنی سب سے چھوٹی بیٹی نوئیل کی شادی میں شرکت کی۔ لندن سے لوئزی اور میں سویڈن گئے اور سویڈش ماچس کمپنی کو مطلع کیا کہ میں پاکستان میں ان کی کمپنی کا چیف نہیں بن سکتا۔
مینیسوٹا میں ہم نے پلاٹ خرید کر اپنا گھر بنوایا۔ مجھے انڈا ابالنے کے علاوہ کوئی گھریلو کام نہیں آتا تھا۔ میں نے چھوٹے موٹے کام کرنا سیکھے۔ ڈرائیونگ کا ٹیسٹ پاس کیا۔ مجھے ٹائپنگ نہیں آتی تھی۔ میں پہلا پروفیسر تھا جس کے لیے یونیورسٹی نے ایک فل ٹائم سیکریٹری کا بندوبست کیا۔ یہاں میں نے پیس کارپس کو لیکچرز دیے۔ جو کوئی بھی انڈیا یا پاکستان آنا چاہتا میں اسے تعارفی خط لکھ کر دیتا جس سے اس کا کام آسان ہو جایا کرتا۔ مختلف ڈیپارٹمنٹس میں ڈپلومیسی، ہندومت، اسلام، جنوبی ایشیائی دیہی زندگی، انڈیا اور پاکستان کی خارجہ پالیسی، ہندوستان میں برطانوی راج اور تقسیم ہند جیسے موضوعات پر لیکچر دیتا۔ مختلف شہروں میں کونسل آن فارن ریلیشنز کی طرف سے لیکچر دیے اور دورے بھی کیے۔ 1965-04 میں مجھے فورڈ فاؤنڈیشن نیویارک کی طرف سیٹریول اینڈ اسٹڈی ایوارڈ دیا گیا۔ اس ایوارڈ کی مد میں میں نے پورے امریکا اور دنیا بھر کا سفر کیا۔ مجھے اپنے تحقیقی معاونین رکھنے کی بھی اجازت تھی۔ میں نے تمام بڑے ملکوں کا دورہ کیا اور وہاں کی اہم سیاسی اور علمی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔
فورڈ فاؤنڈیشن ٹریول اینڈ اسٹڈی ایوارڈ کا خاص مقصد یہ تھا کہ میں پاک و ہند کی خارجہ پالیسی کی تاریخ پر کتاب لکھوں۔ ‘‘پاکستان کی خارجہ پالیسی: ایک تاریخی تجزیہ’’ 1973 میں اوکسفرڈ یونیورسٹی لندن سے شائع ہوئی۔ اس پر اہم شخصیات نے تبصرے لکھے۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن 1990 میں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کراچی سے شائع ہوا۔ اس میں سولہ ابواب تو وہی تھے جو پہلے میں نے لکھے تھے۔ دو نئے ابواب کا اضافہ ڈاکٹر لارنس زائرنگ نے کیا جو مشی گن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر تھے۔ 1974 میں یونیورسٹی آف مینی سوٹا نے میری دوسری کتاب شائع کی اور اسے بھی پذیرائی ملی۔اس کتاب میں اس سوال کا جواب دیا گیا کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی وطن کے ہوتے ہوئے سینکڑوں سال اکٹھے رہنے کے باوجود ایک متحدہ وطن میں کیوں نہ رہے۔ میرے تجزیہ میں اس سوال کا جواب دیا گیا کہ انڈیا اور پاکستان اپنی دعووں اور ارادوں کے باوجود بین الاقوامی سطح پر طاقت ور اور خوش حال ملک کیوں نہ بن سکے۔1978 میں کتاب ‘‘اے ہسٹاریکل اٹلس آف ساؤتھ ایشیا’’ شائع ہوئی جس میں تاریخ اور جغرافیہ کے اہم ترین نقشے دیے گئے ہیں۔ یہ کتاب ایک ٹیم کی چودہ سالہ محنت کا نتیجہ ہے جس میں میرا کام مشاورت اور رہنمائی فراہم کرنا تھا۔ میں نے دونوں عالمی دوروں کے دوران جو مواد اکٹھا کیا وہ ایک لائبریری بن گیا۔
7۔ ریٹائرمنٹ
میں یونیورسٹی سے 30 جون 1975 کو ریٹائر ہوا۔ ہم نے انگلینڈ میں رہائش کا فیصلہ کیا کیونکہ ہماری چاروں بیٹیاں وہیں رہتی تھیں۔ میری بڑی بیٹی پامیلا کسی بھی صحیح بندے کی شان دار بیوی ہو سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے اس کا خاوند ہم آہنگ نہ ہو سکا اور پامیلا نے طلاق لے لی۔ طلاق کے بعد وہ ہمارے ساتھ رہنے لگی۔ اپنی ماں کی بیماری میں اس کی دیکھ بھال کی اور اس کی وفات کے بعد میری نگہداشت کرنے لگی۔ دوسری بیٹی شیلا نے بیوٹی کلچر میں ڈپلومہ لیا لیکن چار بچوں کے بعد بھی اس کی شادی بھی ناکام رہی اور اس نے دوسری شادی کر لی۔وہ وسائل رکھنے والی خاتون ہے اور اپنا خیال خود رکھ سکتی ہے۔ ہماری تیسری بیٹی پیٹریشیا (روبن) نے اوکسفرڈ سے انگریزی میں ڈگری لی۔ اس نے ایک اشتہاری کمپنی میں کری ایٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کیا۔ سب سے چھوٹی بیٹی نوئیل بہت محنتی خاتون ہے۔
ہم نے یونیورسٹی والا گھر بیچ دیا اور لندن سے 25 میل دور ایک گھر خریدلیا۔ ریٹائرمنٹ میں کچھ دن باقی تھے کہ پاکستان سے وزیر دفاع اور خارجہ امور عزیز احمد نے خط لکھا کہ میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک اسٹڈیز میں شامل ہو جاؤں۔ میں نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔ تاہم قائداعظم بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک مقالہ پڑھا۔ اسلام آباد میں قیام کے دوران وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو کیا اور اسے مشورہ دیا کہ صوبہ سرحدکانام بدل کر پختونستان یا پختونخوا رکھنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اپریل 1982میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ایریا اسٹڈی سنٹرز اور پالیسی انالسز سیل کے قیام میں مشاورت کے لیے بلایا لیکن میں نے یہ پیش کش بھی مسترد کر دی کیونکہ میں اب سکون سے اپنی فیملی کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔
1983 میں اقوام متحدہ کے ایک ٹریننگ پروگرام میں مشاورتی پینل میں شامل ہوا۔ 1985 میں وزیر اعظم راجیوگاندھی سے میری خط و کتابت رہی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد چونکہ کوئی فنڈنگ نہیں تھی اور تحقیقی معاونین اور سیکریٹری بھی نہیں تھی اس لیے لکھنے لکھانے کا کام مشکل تھا لیکن اس سے بوریت اور اکتاہٹ سے چھٹکارا ملتا تھا۔ میری بیٹی پامیلا نے سیکریٹری کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ تحقیقی مواد کے لیے انڈیا آفس لائبریری اور برٹش لائبریری کا سہارا لیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پہلی کتاب مغل اعظم اکبر پر لکھی جو 1989 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے لکھنے کے لیے مجھے بہت سی کتابیں خریدنا پڑیں۔ میں نے سوچا کہ ایک کتاب کے لیے اگر اسی طرح کتابیں خریدتا رہا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔ میں نے برٹش لائبریری میں سلیم الدین قریشی سے دوستی بنائی۔ قریشی کے پاس مواد تھا اور میرے پاس وقت تھا۔ وہ تحقیق کر کے مواد اکٹھا کرکے میرے گھر پہنچاتے اور میں کتاب لکھنے کا کام کرتا۔ ہم نے برطانوی راج، بہادر شاہ اور قائد اعظم پر کتابیں لکھیں۔
8۔ نتیجہ
سچی بات ہے اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں بالکل یہی زندگی دوبارہ جینا چاہوں گا۔ میں ساری عمر صحت مند رہا۔ نواسی (89) سال کی عمر میں درد اور تکالیف ہوئیں لیکن کوئی بڑی بیماری کبھی نہ آئی۔ میرا ماننا ہے کہ انسانی بدن مقررہ عادات کے مطابق صحیح کام کرتا ہے۔ اس لیے میرے سونے، جاگنے، کھانے پینے، ورزش کرنے اور لکھنے پڑھنے کے اوقات متعین ہیں۔ میری پنشن سے گزارا ہو جاتا ہے لیکن سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے میں کوئی امیر آدمی نہیں۔ میں بہت خوش اور مطمئن ہوں۔میرا فلسفہ یہ ہے کہ خوش باش رہنے کے لیے ضبط نفس سے کام لینا چاہیے۔
آئیں پاکستان کے اس عظیم سپوت پر ان کی موت سے پہلے تقریباً آخری ملاقات کے بعد ساجدہ مومن کا مضمون اور موت کے بعد رجنالڈ میسی ،عادل انجم، بریگیڈیئر سیمسن شرف، ڈاکٹر عارف آزاد کے مضمون پڑھیں اور مسحور ہو جائیں کہ کیا گوہر نایاب پیدا کیے اس دھرتی نے جہاں آج کل بقول مارٹن سیموئیل برق، قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ظفراللہ خان کے بعد آج جو لوگ کلیدی عہدوں پر براجمان ہیں جو ا پنے اقتدار کو دوام دینے اور دولت میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سیموئیل مارٹن برق/اعظم معراج

Leave a Reply