پروردگار عالم نے اپنی پسندیدہ مخلوق حضرت انسان کو جس قدر نعمتوں سے نوازا ہے، ان کا احاطہ و شمار کرنا بھی انسان کی قوت سے باہر ہے،کائنات کے خالق و مالک نے نہ صرف انسان کو تمام مخلوقات میں افضل بنایا بلکہ اسے فہم و فراست عطا کرکے اس قدر قوی بنا دیا کہ وہ اپنی عقل اور تدبر کا استعمال کرکے عرش و فرش میں چھپے خزانوں پر اپنی گرفت مضبوط کرتا چلا گیا،مالک کائنات نے انسان سے اپنی عطاؤ ں کے شکر کے طور پر اگر مانگا تو صرف اور صرف اپنے ساتھی انسانوں سے محبت اور شفقت مانگی،رب کو انسان کی عبادات کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس امر میں اس کے کروڑوں ملائکہ مصروفِ عمل ہیں،انسان کی تخلیق کا اوّلین مقصد تو اپنے ساتھ بسنے والے دیگر انسانوں اور مخلوقات کے لیے محبت اور درد مندی ہے،اسی لیے پروردگار عالم نے”حقوق العباد “کی بھرپور ادائیگی کو انسان کے لیے راہ نجات بنایا،انسان سے اس کی بندگی کی بابت اتنی کڑی باز پُرس نہیں ہوگی، جس قدر اس سے انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی،دین ِحق کا فلسفہ عبدیت اس قدر ٹھوس ہے کہ کہا گیا”تم سے کوئی تب تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ نہ ہو۔”
اب ذرا ہم جائزہ لے لیں کہ یہ کائنات کی اشرف ترین مخلوق اپنے ساتھ بسنے والے انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہے،دنیا میں انسانوں کی آبادی تقریباً آٹھ ارب سے زائد نفوس پر مبنی ہے،انسانی آبادی کا ایک بڑا حصّہ بنیادی ضروریات ِ زندگی سے بھی محروم ہے، امراء کا غاصبانہ رویے نے غربا کے لیے زمین تنگ کر دی ہے،ایک طرف انسان دولت کے ڈھیر پر سوار ہے تو دوسری جانب کسی کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔
ارض ِ وطن پاکستان کا وجود اسلام کے نام پر ہوا تھا، قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے وقت واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ، آج سے آپ آزاد ہیں، آپ اپنی مسجد، گرجا گھروں، مندروں، گردواروں اور اپنی مذہبی عبادت گاہوں میں پوری آزادی سے اپنی عبادات اور رسومات مکمّل آزادی سے ادا کریں،پاکستان کے حصول کا مقصد زمین کے ایک ایسے ٹکڑے کو وجود میں لانا تھا کہ جہاں زبان، نسل رنگ، مذہب اور فرقے تفریق سے بالا تر ہو کر تمام پاکستانیوں کو ایک پُر امن مادر وطن میسر ہو،مگر وقت کے ساتھ ساتھ قائد کا وہ پاکستان کہیں کھو سا گیا،اور اس ملک میں لوگ لسانی، فرقہ وارانہ، قومیت، برادری اور معاشی طبقات کی بنیاد پر تقسیم ہونا شروع ہوگئے،اور یہ تقسیم اس نہج پر پہنچی کہ مذہب اور فرقے کے نام پر شدت پسندی کی بنا پر بدترین دہشت گردی ہوئی اور پاکستان میں لاکھوں معصوم لوگوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔
16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور میں تاریخ کی بد ترین دہشت گردی کی گئی جس میں 100 سے زائد معصوم طلبا ان کے اساتذہ اور سکول کا دیگر عملہ شہید کیا گیا،پاکستانی قوم کے لیے یہ سانحہ تا حیات ایک قومی المیہ رہے گا،اس بدترین دہشتگردی کے ذمہ داران اپنے آپ کو دین کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں اور بد قسمتی سے یہ سوچ آج بھی موجود ہے۔شدت پسندی اپنے آپ میں انسانیت کی دشمن ہے، قائد اعظم کے پاکستان کا سب سے بڑا دیمک یہی شدت پسندی اور مذہبی منافرت ہے،اسی شدت پسند اور مذہبی جنونیت نے ارضِ وطن اور مذہب اسلام کی ساکھ کو بُری طرح سے متاثر کیا ہے۔
پچھلے ماہ سیالکوٹ میں مذہب کی توہین کے نام پر سری لنکن شہری کے اندوہناک قتل نے وطن ِ عزیز کے وقار کو بہت ٹھیس پہنچائی، اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف پولیس، سکیورٹی ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھرپور کارروائی نے پوری دنیا میں یہ پیغام دیا کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہیں۔
خدارا مل کر اس پاک وطن کو محبت اور بھائی چارے کی بنیاد پر ایک مثالی ریاست بنانے کے لیے ہم سب پاکستانیوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،اسلام رواداری کا مذہب ہے جس میں انسانوں کے لیے باہم کسی بنیاد پر بھی نفرت اور تفرق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ہمیں بحیثیت ایک ذمہ دار شہری معاشرے میں رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا۔
چلو یہ سوچیں ہم آج مل کے
جو اس زمیں سے کیا تھا ہم نے
وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں
ہر ایک دشمن کی سازشوں سے یہ دیس ہم کو بچانا ہوگا
محبتوں کو فروغ دے کر شعور ملّت جگانا ہوگا
یہ کون ہیں جو ہمِیں میں رہ کر ہمارے گھر کو جلا رہے ہیں
چلو یہ سوچیں ہم آج مل کے!

ہمیں نفرت اور شدت پسندی کے نظریات رکھنے والوں کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرنی ہوگی، ان پر کڑی نظر رکھنی ہوگی بلکہ اس قسم کے لوگوں اور گروہوں کی نشاندہی کرکے ان قانون نافذ کرنے والے اداروں کے گِرد گھیرا تنگ کرنا ہوگا، نفرتیں بانٹنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا ۔
دہشتگردی اور مذہبی منافرت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے متفنہ اور عدلیہ کو اس قدر مضبوط قوانین وضع کرنے ہونگے کہ اس قسم کے جرائم میں ملوث افراد، تنظیمات اور گروہوں کو قرار واقعی بدترین سزائیں دے کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنایا جا سکے تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ قائداعظم کے پاکستان میں شدت پسندی، مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں