بچپن کے کچھ واقعات ہمیشہ ذہن میں نقش ہو گئے۔ جس دن میں پیدا ہوا میرے دادا کہیں سے ایک کتے کا ایک پلا لے آئے۔ میری بچپن ہی سے اس سے دوستی ہو گئی۔ اس کا نام دانہ تھا۔ جب بھی ہم چھٹیوں میں گاؤں آتے دانہ اور میں ساتھ ساتھ ہوتے۔ چچا ہمیں چھوڑنیبیل گاڑی پر ننکانہ ریلوے اسٹیشن پر آتے۔ٹرین چلتی تو دانہ پیچھے بھاگتا۔ میں ڈرتا کہ کہیں دانہ یہیں پر نہ رہ جائے لیکن وہ کبھی نہ بھٹکا۔ جب ہم دس سال کے تھے تو دانہ ایک دوسرے کتے سے لڑائی ہو گئی۔ اس کے سر پر گہرا زخم آیا جس میں کیڑے پڑ گئے۔ میرے دادا اور چچاؤں نے اسے گھیر کر لاٹھیوں سے مار دیا۔ وہ فوراً مر گیا اور یہ منظر میرے لیے خوف ناک تھا۔
دوسری یاد یہ ہے کہ چار برس کی عمر میں میرے پاس ایک وکٹر نامی چینی گڈا تھا جو ہمیشہ میرے ساتھ رہتا۔ ایک دن میں بالکونی میں کھڑا تھا کہ وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور گر کر پاش پاش ہو گیا۔ مجھے اس کی موت پر بہت افسوس ہوا۔ تیسرا واقعہ چرچ میں پیش آیا۔ اتوار کے دن مسیح کے مصلوب ہونے پر بیان تھا۔ میں پیارے یسوع کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر بہت دل گرفتہ رہا۔
میں نے میٹرک کا امتحان سنٹرل ماڈل ہائی اسکول لاہور1922 میں فرسٹ ڈویڑن سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ میرے مضامین انگریزی، ریاضی، سائنس، فزیالوجی اور صحت عامہ تھے۔ میں اسکول کی کرکٹ ٹیم کا رکن بھی تھا۔ میٹرک کے بعد میں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا اور انگریزی، فزکس، کیمسٹری، بوٹنی اور زوالوجی کے مضمون رکھے اور کالج کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کا امیدوار تھا۔لیکن جلد ہی مجھے علم ہوا کہ ان مضامین کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے وقت نہ بچے گا۔ پہلا سہ ماہی ختم ہوا اور چھٹیاں ہو گئیں۔ ستمبر میں دوبارہ کلاسیں شروع ہوئیں تو مجھے لگا کہ کرکٹ نہ کھیل پایا تو خوش نہ رہ سکوں گا۔ میں نے سائنس کی بجائے تاریخ، فلسفہ، فارسی اور اردو کے مضامین رکھنے کا فیصلہ کیا۔جب پرنسپل کو درخواست دی تو انہوں نے کہا کہ سائنس اور آرٹس کے مضامین کے پروفیسروں کا راضی نامہ حاصل ہو تب مضامین تبدیل ہو سکتے ہیں۔ سائنس مضامین کے پروفیسروں نے میرے نتائج دیکھ کر کہا کہ تم بہترین طالب علم ہو یہ مضامین نہ چھوڑو۔ آخر کار انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ ادھر آرٹس کے مضامین میں فارسی کے پروفیسر نے مسئلہ بنایا۔ تاہم میں نے وعدہ کیا کہ فارسی پڑھ لوں گا تو وہ بھی مان گئے۔ اس فیصلے نے میری ساری زندگی بدل دی۔ میں کبھی اچھا ڈاکٹر نہ بن پاتا۔ آرٹس میں عام طور پر کلاس میں سرفہرست رہتا اور کرکٹ کھیلنے کے لیے بھی بہت وقت مل جاتا۔
یونیورسٹی میں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ امتحان میں اچھی کارکردگی دکھانا ایک فن ہے۔ ممتحن آپ کے علم سے نہیں بلکہ پرچے سے متاثر ہوتاہے۔ تو منصوبہ یہ بنایا کہ شروع سال ہی میں یہ دیکھتا کہ ہر مضمون کے طالب علم سے کیا توقعات کی گئی ہیں۔ پھر پچھلیپانچ سالوں کے پرچے حاصل کرتا۔ پھر میں ایک سوالیہ پرچہ تیار کرتا کہ اس قسم کا پرچہ اگلے امتحان میں آ سکتا ہے۔ چوائس بہت زیادہ ہوتی تھی۔ بارہ سوالوں میں سے چار یا چھے حل کرنے ہوتے تھے۔ اور میرے ماڈل پیپر میں تیس یا چالیس سوال ہوتے تھے۔ میں لائبریری سے متعلقہ کتابیں لیتا اور اپنے لکھے ہوئے سوالوں کے جواب تیار کرتا۔ میرے جوابوں سے تحقیق اور علم جھلکتا۔ میرا گیس سو فیصد صحیح تو نہ ہوتا لیکن میرا مقصد کافی حد تک پورا ہو جاتا۔یہ سسٹم اس طرح کامیاب ہوا کہ ہر مضمون میں کچھ موضوع زیادہ اہم ہوتے ہیں اور زیادہ سوال انہی میں سے آتے ہیں۔ کچھ سوالوں کا جواب مجھے بالکل نہ آتا تھا لیکن جن کا جواب لکھتا تھا اس سے علمیت ظاہر ہوتی تھی۔
تاریخ میرا پسندیدہ مضمون تھا۔ بی اے آنرز میں تاریخ میں صوبہ بھر میں اول رہا۔ ایم اے میں اسی مضمون میں اعلیٰ فرسٹ ڈویڑن حاصل کی۔ مجھے لیکچروں سے زیادہ اپنے مطالعہ سے فائدہ ہوا۔ گورنمنٹ کالج کی عمارت اوکسفرڈ اور کیمبرج کی طرز پر بنائی گئی ہے۔ برجوں اور چھت کی چابیاں لائبریرین کے پاس ہوتی تھیں۔ وہ مہربان تھا اور مجھے چھت پر بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت مل جاتی۔
کالج کے دنوں میں تین سو صفحات کی کتاب ایک دن میں پڑھ لیتا تھا۔ ساری باتیں تو یاد نہ رہتیں لیکن اگر کوئی اسی کتاب سے پڑھتا تو مجھے سیاق و سباق کا پتا چل جاتا یا امتحان میں اس سے آنے والے سوال کا جواب لکھ سکتا تھا۔ رٹا نہ لگا سکتا تھا اس لیے پریشان ہو کر نفسیات کے پروفیسر سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا پریشان نہ ہوں آپ کی یادداشت خیالات کو یاد رکھتی ہے لفظوں کو نہیں۔
یونیورسٹی کے سال مزے کے تھے۔ پڑھائی بھی کرتا اور کالج لائف میں بھی شریک رہتا۔ ہر سال ٹورنامنٹ میں کرکٹ ٹیم کا حصہ رہا۔ کالج یونین سمیت کئی طلبہ شعبوں کا سربراہ رہا۔ پڑھائی اور تقریری مقابلوں میں کئی انعامات اور اعزازات حاصل کیے اور کالج کے ساتھیوں سے اچھی دوستی رہی۔ مجھے ڈے اسکالر ہونے سے بہت فائدہ ملا۔ میں تمام سرگرمیوں میں شامل رہتا۔ چھٹیوں میں بے صبری سے کالج کھلنے کا انتظار کرتا اور دوستوں سے خط و کتابت میں لگا رہتا۔یہ دوستیاں ہی خالص تھیں۔
کرکٹ بچپن ہی سے میرا جنون تھا۔ تیز کھیلنے والے بلے باز میرے ہیرو تھے۔ میں نے کہیں سے رسمی کوچنگ یا ٹریننگ نہیں لی تھی۔ میں اچھے باؤلروں کو بھی چھکے لگاتا لیکن اکثر شارٹ پچ بال پر آؤٹ ہو جاتا۔ میرے لیے کرکٹ حقیقی زندگی سے مشابہ ہے۔ ایک بلے باز پوری ٹیم کا بیک وقت سامنا کرتا ہے۔ کرکٹ میں آپ کی پہلی غلطی ہی آخری ہوتی ہے۔ یہ چانس کی گیم ہے۔ چار پانچ دن کے میچ میں آپ مسلسل اپنے ساتھیوں کی صحبت میں رہتے ہیں۔ میرے فخریہ چھکے دو ہیں جو میں نے بیس سال کی عمر میں انگریز باؤلر ولفرڈ روڈز کو لگائے۔ یہ میچ پٹیالہ میں مہاراجہ کی ٹیم کے خلاف کھیلا گیا تھا۔ مہاراجہ رولز رائس میں میدان میں اترے اور پہلی دفعہ آؤٹ ہونے پر کسی نے بھی انہیں کریز چھوڑنے کا کہنے کی جرات نہ کی۔ پینتالیس رنز بنا کر بولڈ ہوئے تو رضاکارانہ طور پر وکٹ چھوڑی۔ مہاراجہ کی یادداشت بڑی زبردست تھی۔ میں جہاں بھی جاتا کرکٹ کلب بنا لیتا۔ میں رائل بینکاک کلب کی طرف سے کرکٹ کھیلا۔ اوٹاوہ کرکٹ کلب کا وائس پریذیڈنٹ بنا۔ انڈین اور پاکستانی کرکٹ تاریخ میں میرا نام نمایاں رہا۔
میرے مالی وسائل زیادہ نہ تھے اس لیے یونیورسٹی میں شروع ہی سے ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ امیر جاگیرداروں کے بچے جو میرے کلاس فیلو تھے انہیں پڑھاتا۔ چیفس کالج میں امیر اشرافیہ کے بچے پڑھتے تھے انہیں پڑھاتا۔ رات کو کیروسین لیمپ جلا کر سائیکل پر لگاتا اور چار میل دور چیفس کالج میں پڑھانے جاتا۔ اس سے آمدن باقاعدہ اور بہتر ہوئی اور میں خوش لباس ہو گیا۔ تازہ آنے والی کتابیں سب سے پہلے خرید لیتا۔ جب میرے والد پہلی دفعہ کالج کے پرنسپل سے ملے تو پرنسپل کو حیرت ہوئی کہ میں امیر باپ کا بیٹا نہیں۔گرمیوں کی چھٹیوں میں میرے امیر شاگرد مجھے اپنے ساتھ پہاڑی مقامات پر لے جاتے اور میں بھی ان کی طرح شہزادہ بن جاتا۔انہی دنوں میں سگریٹ کی لت سے بمشکل بچا۔
میں ذاتی مطالعہ پر انحصار کرتا تھا اس لیے کلاس میں خلل پیدا کرنے پر لیکچرار سے ڈانٹ پڑتی رہتی۔ انڈین سول سروس کے دوران میں نے اس کا ازالہ کیا اور پروفیسروں کا بہت زیادہ احترام کیا۔ میں سب سے زیادہ بدتمیزی فارسی کی کلاس میں کرتا۔ جب امتحان ہوا تو فارسی کے پرچے میں 150 میں سے 130 نمبر یعنی سب سے زیادہ نمبر لیے حالانکہ پروفیسر کلاس میں کہتا رہتا تھا کہ میں فیل ہو جاؤں گا۔ آخرکار ہم میں سمجھوتا ہو گیا کہ وہ میری حاضری لگا دیتے اور میں کلاس سے نکل جاتا تاکہ دوسرے سکون سے پڑھ سکیں۔ جب میں طالب علم تھا تو برطانوی سلطنت کا نصف النہار تھا اور ہم سوچتے کہ انگریزوں میں حاکموں والی کون سی خوبیاں ہیں۔ گورنمنٹ کالج میں فزکس کے پروفیسر A.S. Hemmy، انگریزی کے پروفیسر H. Y. Langhorne اور تاریخ کے پروفیسر H. L.O. Garrett پہلے انگریز تھے جن سے میں متعارف ہوا۔انگریزاساتذہ کا اپنے شاگردوں سے رویہ مشفقانہ ہوتا تھا۔
پروفیسر گیرٹ کے لیے میرے جذبات تشکر بے انتہا ہیں۔ چھے فٹ کا یہ دبلا پتلا پروفیسر جمخانہ کلب کا ہر دلعزیز ممبر تھا۔ میں اس کا عزیز شاگرد تھا۔ اس نے میرے بیرون ملک وظیفہ کی حمایت کی لیکن یہ وظیفہ ایک ہندو کو ملا کیونکہ کمیٹی کا چیئرمین ایک ہندو تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ ہندو لڑکا چیئرمین کے پوتوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ میں اور میرے دو مستحق ساتھی جو مسترد ہوئے تھے ان میں سے ایک حافظ عبدالماجد انڈین سول سروس میں گئے اور چودھری محمد علی پاکستان کے وزیراعظم بنے اور وظیفہ پانے والا ہندو کوئی کارنامہ نہ کر پایا۔1928ء-04 میں گیرٹ نے میرے ارادوں کے خلاف مجھے ایم اے اور انڈین سول سروس کا امتحان دینے کا کہا۔ سول سروس میں تو نمایاں نہ ہوا لیکن ایم اے تاریخ میں اول رہا۔مجھے پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے درخواست کرنے پر گیرٹ نے مجھے لیکچررشپ تو نہ دی البتہ کالج ہوسٹل کا وارڈن بنا دیا۔ اس نے ایم اے انگریزی کرنے کا مشورہ دیا اور فیس معاف کروا دی۔ میں تیاری کرتا رہا اور 1929ء-04 میں سول سروس کا امتحان دیا۔
2۔ میں ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے فولادی ڈھانچے کا حصہ بن گیا
میں نے یونیورسٹی کے ابتدائی ایام ہی سے دو چیزوں سے بچنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے پڑھ رکھا تھا کہ بعض لوگ لاکھوں کماتے ہیں لیکن مفلوک الحال مرتے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آخری عمر میں غریب نہیں بنوں گا۔ ذہنی سکون میری اولین ترجیح تھا جسے مستقل ملازمت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا تھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ کامیاب ترین انسان ریٹائرمنٹ کے بعد جلدی مر جاتے ہیں۔ میں اس سے بھی بچنا چاہتا تھا۔ یہ دو مقصد ہمیشہ میرے سامنے رہے۔ میں نے صرف جاب نہ کی بلکہ کیرئیر بنایا جس میں پنشن بھی ملی۔ آخری کیریئر ایسا تھا جس کی سرگرمیاں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رکھ سکتا تھا۔
ہمیں یہ تکلیف دہ احساس تھا کہ ہم محکوم نسل ہیں۔ اس لیے پہلی چوائس انڈین سول سروس تھی۔ قریب ایک ہزار انڈین سول سرونٹس کئی سو ملین لوگوں اور چھے سو شہزادوں پر حاکم تھے۔ وزیراعظم لائڈ جارج نے کہا تھا کہ آئی سی ایس ہندوستانی حکومت کا فولادی ڈھانچہ ہے۔ آئی سی ایس افسران وائسرائے اور پریذیڈنسی کے گورنر کے علاوہ کوئی بھی عہدہ لے سکتے تھے۔ سول سروس میں داخلہ کھلے مقابلے سے ہوتاتھا جو دنیا میں مشکل ترین خیال کیا جاتا تھا۔ کامیاب ہونے والوں کو بھی کئی سال تک ڈراؤنے خواب آتے رہتے کہ وہ فیل ہو گئے ہیں۔
مقابلے کا امتحان 1800 نمبروں کا تھا۔ 800 نمبر کے آٹھ مضامین لازمی تھے اور اختیاری مضامین ساٹھ تھے جن میں سے دس کا انتخاب کرنا ہوتا تھا۔ پہلے پہل اس پر انگریزوں کی اجارہ داری تھی۔ امتحان لندن میں ہوتا تھا اور صرف امیر ہندوستانی ہی وہاں جانے کے اخراجات اٹھا سکتے تھے۔ ہندوستانیوں کا کامیاب ہونا انتہائی مشکل تھا۔ جب میں نے امتحان دیا تو امتحان دہلی میں ہونے لگا تھا اور پچاس فیصد کوٹہ ہندوستانیوں کے لیے تھا۔ ٹاپ پوزیشن عام طور پر ہندو حاصل کرتے۔ منصفانہ نمایندگی یقینی بنانے کے لیے اقلیتوں یعنی مسلمانوں، مسیحیوں، سکھوں اور پارسیوں کے لیے کوٹہ مخصوص کیا گیا۔ مسلمان سب سے بڑی اقلیت تھے۔ انڈین سول سرونٹس ہی کی بدولت انڈیا اور پاکستان انتظامی طور پر مستحکم رہے۔
آئی سی ایس میں درخواست دینے کے بعد طبی معائنہ ہوتا تھا۔ ڈاکٹروں میں لاہور کا سول سرجن، میڈیکل کالج کے پروفیسر، انسپکٹر اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف ہاسپٹلز شامل ہوتے تھے۔ ڈاکٹر کرنل سوان نے بڑی دیر تک میری نبض اور چھاتی کا معائنہ کیا۔ دوسرے ڈاکٹروں نے باقی اعضا کا معائنہ کیا اور تسلی کا اظہار کیا۔طبی امتحان کا نتیجہ صیغہ راز میں رکھا جاتا اور خط کے ذریعے بتایا جاتا۔ میں نے ہمت کر کے سپرنٹنڈنٹ گوش صاحب سے پوچھ لیا۔ میرا خدشہ درست نکلا کیونکہ سول سرجن نے کہا تھا کہ میری دھڑکن تیز اور بے قاعدہ ہے اور میں فٹ نہیں۔ معلوم ہوا کہ کرنل سوان کی بیوی کو دل کا مسئلہ تھا اور وہ صحت مند لوگوں کو بھی اس کا شکار سمجھتا تھا۔ میں نے گھر آ کر ماں کو بتایا اور انہوں نے تسلی دی اور بہترین ماہر قلب کو دکھانے کا فیصلہ کیا۔ پتہ چلا کہ اس شعبے کا سب سے بڑا نام کرنل ہارپر نیلسن ہے۔ اس نے معائنہ کر کے سرٹیفیکیٹ دے دیا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔دوسری طرف یہ ہوا کہ دو سال پہلے میں نے انڈین پولیس سروس میں درخواست دی تھی اور کرنل سوان نے تب مجھے ٹھیک ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا تھا۔ بہرحال بتایا گیا کہ میڈیکل بورڈ کا فیصلہ حتمی ہے۔
جاری ہے

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں