مارٹن سیموئیل برق ( حصہ ہفتم)۔۔اعظم معراج

میں مایوس ہو گیا۔ میرا چھوٹا بھائی عمانویل کالج میں تھا۔ پرنسپل گیرٹ نے اس سے میری غیر حاضری کا سبب پوچھا۔ گیرٹ نے مجھے فوری طور پر پیغام بھیجا۔ اس نے انڈین سول سروس کے رکن اور پنجاب کے چیف سیکریٹری ایچ ڈبلیو ایمرسن کے نام ایک خط لکھ کر میرے حوالے کیا۔ ایمرسن گیرٹ کا اچھا دوست تھا۔ چیف سیکریٹری کے دفتر کے باہر چپڑاسیوں نے میرا مذاق اڑایا کہ بغیر وقت لیے ملاقات کے لیے ایک طالب علم آن دھمکا ہے۔ بہرحال ایمرسن نے بلایا اور بات سنی۔ کوئی وعدہ نہ کیا۔ ایک ہفتے میں دو خط میرے والدین کے نام پر آئے۔ ایک میں کہا گیا تھا کہ میں مستقل طور پر آئی سی ایس میں جانے سے معذور ہوں۔ دوسرے میں کہا گیا کہ دوبارہ میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوں۔ کرنل سوان دوبارہ بورڈ میں شامل ہو سکتا تھا اس لیے گیرٹ نے کرنل میکنزی کو لکھا کہ اس کی جگہ کوئی دوسرا ڈاکٹر شامل کیا جائے۔ میڈیکل بورڈ میں کرنل میکنزی کا نائب کرنل سوڈھی اور کرنل ہارپرنیلسن بھی تھے۔ تیسرا کرنل ہیوگز تھا جو پروفیسر لینگ ہارنے کا پے انگ گیسٹ تھا۔ میں پروفیسر کے پاس پہنچا اور صورت حال بتائی۔ کرنل سوڈھی تک دسترس کے لیے اس کے دوست گوپال داس سے ملا جس کا چھوٹا بھائی روپ چاند میرا دوست تھا۔ روپ چاند تو نہ تھا۔ خوش قسمتی سے گوپال داس باہر نکل کر کار میں بیٹھنے لگا تھا۔ میں نے کلیجہ تھام کر قصہ بیان کیا۔اس نے کہا کار میں بیٹھو سوڈھی کے گھر چلتے ہیں۔ گوپال اندر گیا اور ایک خاتون نے چیخ کر کہا کہ سوڈھی گھر پر نہیں۔ میں نے سنا کہ گوپال کہہ رہا تھا کہ وہ انتظار کرے گا۔ سوڈھی آیا اور گوپال سے بات چیت کی جبکہ میں باہر کھڑا رہا۔ سوڈھی باہر آیا اور مجھے کہا کہ بورڈ کے سامنے جانے سے پہلے سائیکل نہ چلاؤں۔ میں اگلے دن ٹانگے پر مقررہ جگہ پہنچ گیا۔ جب پیش ہوا تو کسی نے کوئی معائنہ نہ کیا۔ میرے بالکل ٹھیک ہونے کا لیٹر جاری کر دیا گیا۔
اس واقعہ سے مجھے یہ تاثر ملا کہ لندن کی معاشی پالیسی کچھ بھی ہو ہندوستان میں برطانوی اہل کار انصاف پسند تھے۔ استعمار پرستوں کی کوئی اور نسل ہوتی تو نسلی برتری کا مسئلہ بنا کر کرنل سوان کی مخالفت نہ کرتی۔ جنوری 1929میں امتحان دیا۔ لیکن گورنمنٹ آف انڈیا نے کہا لندن آفس کو تجویز دی کہ اس سال مسیحی کی بجائے مارشل نامی ایک پارسی کو منتخب کیا جائے۔ میری ناکامی یقینی تھی لیکن ایک غیر متوقع کام ہو گیا۔ اگرچہ مارشل کے خلاف پولیس میں کچھ نہ تھا تاہم اس کے باپ کی حکومت برطانیہ کے ساتھ وفاداری مشکوک تھی۔ باپ کی سزا بیٹے کو نہیں ملنی چاہیے تھی لیکن سیکریٹری نے مارشل کی امیدواری مسترد کر دی۔ایمرسن نے فوری طور پر میرا نام تجویز کیاجسے منظور کر لیا گیا۔
امتحان میں کامیابی کے بعد دو سال کے لیے سرکاری خرچے پر کسی برطانوی یونیورسٹی میں تربیت حاصل کرنا تھی۔ اوکسفرڈ میں کوئی جگہ نہ تھی اس لیے لندن یونیورسٹی بھیجا گیا۔ وہاں ایسے مضامین پڑھائے گئے جو ہماری سروس سے متعلقہ تھے۔ گھڑ سواری کا امتحان بھی پاس کرنا ضروری تھا۔ میرے والد مجھے مارٹن پور لے گئے اورگاؤں میں جشن کا ماحول تھا۔ روانگی سے پہلے ماں نے مجھے بائبل دی۔ اس دن سے آج تک میں باقاعدگی سے دو بار بائبل پڑھتا ہوں۔ دعائیں روحانی طور پر مضبوط کرتی ہیں۔ آئی سی ایس میں شامل ہونے کے لیے میری کوششوں نے میری ہمت بلند کر دی تھی۔ میں ہر رکاوٹ سے لڑنے کا ہنر جان گیا۔
میں ستمبر 1929 میں انگلینڈ پہنچا اور وہاں سبزہ اور ہریالی دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ کچھ ماہ تک گھر کی یاد آئی اور اداس رہا۔ تب برطانیہ اپنی استعماری شان و شوکت کے عروج پر تھا۔ دنیا کی ہر بہترین شے یہاں دستیاب تھی۔ برطانوی کلچر سیکھنے کے لیے لندن سب سے بہترین جگہ تھی۔ اضافی خوش بختی یہ ہوئی کہ ہونے والی بیوی بھی لندن میں ہی مل گئی۔
3۔ مجھے آسمانوں میں طے ہونے والی شادی عطا ہوئی
ان دنوں میں ہند برطانوی شادیاں ہندوستانی لڑکوں کی طرف سے ہوتی تھیں۔ برطانیہ سے پلٹنے والے اکثر شوہر اس قابل نہ ہوتے کہ انگریز بیوی بچوں کے اخراجات برداشت کر کے انہیں ہندوستان بلا لیں۔ خاندان والے دباؤ ڈالتے کہ اپنی برادری کی کسی لڑکی سے شادی کرو اور میم کو بھول جاؤ۔ اگر کوئی انگریز بیوی کو ساتھ لے بھی آتا تو شادی ٹوٹ جاتی یا کئی حوالوں سے عبرت ناک بن جاتی۔ برطانیہ پلٹ کنواروں کو بڑی آسانی سے زیادہ جہیز والی لڑکیاں مل جاتی تھیں۔ لیکن اگر برطانیہ پلٹ لڑکا اپنے ساتھ کسی اجنبی کو لے آتا جس کے خرچے اٹھانا بس سے باہر ہوتا تو کوئی بھی اس کی بیوی کو خوش آمدید نہ کہتا۔ہندوستانی شہر دو حصوں میں تقسیم تھے۔ سول لائنز میں سرکاری افسران یورپی طرز پر رہتے تھے۔ دوسرے حصے میں عام ہندوستانی رہتے۔ برطانیہ سے آنے والی لڑکی کو جب اس علاقے میں رکھا جاتا تو اس سے انگریزی بولنے والا کوئی نہ ہوتا اور بہو سے توقع کی جاتی کہ وہ گھریلو امور میں ہاتھ بٹائے گی۔ خاندان مسلم یا ہندو ہوتا لیکن بہو مسیحی ہوتی جس سے ایک ثقافتی خلیج پیدا ہو جاتی۔ میرا ماننا تھا کہ شادی میں محبت ہی نہیں دوستی بھی ہونی چاہیے۔ دوستی محبت سے زیادہ پائیدار ہے۔
برطانیہ روانہ ہونے سے پہلے انگریز عورتوں سے شادی کے خطرات مجھے خوب سنائے گئے تھے لیکن میرے سارے حصار لوئزی کو دیکھ کر ٹوٹ گئے۔ یہ قصہ اکتوبر 1929ء-04 کو ویمبلڈن کے ٹینس کلب میں ہوا۔ وہ دراز قد، سلم، سنہرے بالوں، نیلی آنکھوں، گلابی گالوں والی اور ہونٹوں پر مسکان لیے ہوئے تھی۔ وہ کلاسیکل انگریزی حسینہ تھی۔ میں ہمت کر کے اس کے پاس گیا۔ وہ خوش اخلاق تھی۔ ہم نے ایک اٹالین ریسٹورنٹ میں ڈیٹ ماری۔وہ ہر لحاظ سے میرے لیے موزوں تھی اور ایک اخبار میں رپورٹر تھی۔لوئزی پہلے سے شادی شدہ تھی۔ اس کی شادی برما کے ایک طالب علم سے ہو چکی تھی۔ اس طالب علم کی وکالت نہ چلی اور وہ طلاق دینا چاہتا تھا۔ میں متذبذب تھا کہ شادی کر کے مالی مشکلات میں نہ پھنس جاؤں۔ اسی دوران میں میری ملاقات ایک جنوبی ہندوستانی مسیحی لڑکی سے ہوئی جس کی ماں ایک بیوہ تھی لیکن مالدار تھی۔ اس نے بہانے بہانے سے ذکر کیا کہ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو بہت سا جہیز دے گی۔ لیکن میرا دل لوئزی پر اٹکا ہوا تھا۔ ہندوستان روانگی سے پہلے میں نے لوئزی سے وعدہ کیا کہ میں ہر قیمت پر اسی سے شادی کروں گا۔ میں نے رقم ادھار لی اور اسے تین بیڈرومز والا ایک گھر کرائے پر لے کر دیا۔میں اکتوبر1931 میں لندن سے روانہ ہوا۔ لوئزی اتنی اداس تھی کہ مجھے خدا حافظ کہنے بھی نہ آئی۔ گھر پہنچ کر بھی میں شکستہ دل رہا۔نومبر 1931-04 میں لائلپور میں میری تعیناتی اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر ہوئی۔

گھر واپسی پر ماں نے میرے لیے کچھ لڑکیاں دیکھ رکھی تھیں لیکن میں نے بہانہ کیا کہ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ لوئزی کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ البتہ لوئزی کو روزانہ خط لکھتا۔ میرے خط بہت طویل ہوتے۔ ایک خط تو انیس صفحات کا تھا۔
لوئزی کی پہلی شادی کا معاملہ لٹکا ہوا تھا۔ برما برطانوی ہند کا حصہ تھا اس لیے جو قوانین لائلپور میں تھے وہی رنگون میں تھے۔ لوئزی نے لائلپور آ کر یہاں سے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ لائلپور کے ویمنز ہسپتال کی انچارج ایک اینگلو انڈین تھی وہ راضی ہو گئی کہ لوئزی کو بمبئی سے لے آئے گی اور شادی تک اپنے پاس رکھے گی۔ لوئزی 1933-04 میں لائلپور پہنچی۔ اس نے طلاق کا دعویٰ کیا، شوہر مان گیا اور عدالت نے طلاق دے دی۔ میں لوئزی کو پروفیسر گیرٹ سے ملوانے لاہور لے گیا۔ گیرٹ نے کہا کہ لاہور کیتھڈرل میں شادی کا بندوبست کیا جائے گا۔ 28 جون 1933 کو ایک مقامی چرچ میں ہماری شادی ہو گئی۔ میرے والدین، ڈاکٹر ورسلے اور گواہوں کے سوا کوئی مہمان نہ تھا۔ہم ہنی مون منانے دس دن کے لیے مسوری گئے اور سیوائے ہوٹل میں ٹھہرے۔ مہاراجہ اندور بھی اپنی نئی دلہن نینسی ملر کے ساتھ وہیں قیام پذیر تھا۔
ہماری مخلوط شادی کئی لحاظ سے فائدہ مند تھی کیونکہ ہم دونوں چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ تھے۔ میرے گھر والے انگریزی بول سکتے تھے اور ان کا نقطہ نظر مغربی تھا۔میرے پاس وسیع بنگلہ اور نوکرچاکر تھے۔ لوئزی یہاں کے ماحول میں رچ بس گئی اور ہر قسم کی تبدیلی کے لیے تیار رہی۔ میری والدہ اور بیوی میں محبت کا گہرا رشتہ استوار ہو گیا۔ میرے والد بھی میری بیوی کی خدمات کے معترف ہو گئے۔ لوئزی نے میرے والد کی بیماری میں خود ان کی تیمارداری اور دیکھ بھال کی۔ میری بہنیں اور بھائی اور ان کی اولادیں بھی لوئزی سے محبت کرتے تھے اور کئی کئی دن ہمارے گھر میں آ کر رہتے۔ میری ملازمت کے ابتدائی سالوں میں مالی مشکلات کا سامنا رہا۔ بہت زیادہ اخراجات کی وجہ سے میں مقروض ہو گیا لیکن والدین کو ایک سو روپیہ ماہوار باقاعدگی سے بھیجتا رہا جبکہ میری تنخواہ تین سو روپیہ تھی۔ اس کے علاوہ بھی ان کی مدد کرتا رہتا۔
لوئزی نے پاکستانی پاسپورٹ بنوا لیا اور اس طر ح پاکستانی شہری بن گئی۔ وہ گھر کے کاموں میں مصروف رہتی اور کبھی بوریت کا شکار نہ ہوئی۔ اس نے ہندوستانی کھانے پکانا سیکھ لیا۔ وائسرائے اور اس کی بیوی بھی لوئزی کے ہاتھ کے پکے کھانے پسند کرتے۔ وہ اپنے پہناوے خود سلائی کرتی یہاں تک کہ بیٹیوں کے لباس اور میرے گاؤن بھی خود ہی سلائی کرتی۔ لوئزی نے میری پیشہ ورانہ زندگی میں بھی معاونت کی اور نہایت اہم کردار ادا کیا۔بیگم شائشتہ سہروردی اکرام اللہ لوئزی کی بہت مداح تھیں۔ لوئزی گھر کی نگران تھی اور میں کمانے والا تھا۔ اس کے اخراجات مقرر تھے اور میں جب بھی دورے سے واپس آتا اس کے لیے اور بیٹیوں کے لیے زیورات اور دیگر تحائف ضرور لاتا۔اس نے شادی کے بعد صرف ایک خواہش کی تھی کہ اسے Surrey میں ایک کاٹیج خرید دیں۔ لوئزی کی وفات 17 دسمبر 1993-04 میں ہوئی۔

4۔ میں انڈین سول سروس میں
مئی 1934-04 میں میری ترقی ہوئی اور میں کولو میں سب ڈویڑنل افسر بن گیا۔ چیف سیکریٹری نے خود مجھے نامزد کیا تھا۔ اس پوسٹ کے ساتھ بہت سی مراعات اور دو جگہ رہائشیں بھی ملیں۔ ناگر میں جو بنگلہ مجھے ملا تھا وہ کسی برطانوی جنرل اوسبورن نے بنوایا تھا۔ یہاں ہم نے ان علاقوں کی خوب سیاحت کی۔ کولو میں Roerichخاندان مشہور تھا۔ روئرچ عالمی سطح کا مصور اور ایک مذہبی گروہ کا رہنما تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے جس میں سے ایک مستشرق بنا اور دوسرا مصور تھا جس نے انڈین مووی کوئین دیویکا رانی سے شادی کی۔ روئرچ خاندان پر روسی جاسوس ہونے کا شبہ تھا لیکن مجھے کوئی ثبوت نہ ملا۔
کولو وادی میں ان دنوں سڑک منالی تک جاتی تھی۔ لوگ دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔سادھو لوگ عام تھے جو عجیب و غریب صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ایک سادھو نے ایک شیرنی پال رکھی تھی جو ہرجگہ اس کے ساتھ ساتھ رہتی۔
اکتوبر 1934-04 میں وائسرائن لیڈی میری ولنگڈن ہماری مہمان بنی۔ میں نے تمام انتظامات اپنی نگرانی میں کروائے۔ لیڈی ولنگڈن بہت خوش ہوئیں اور مجھے اپنے پہلو میں بٹھایا۔ اس نے کہا کہ وہاں موجود فر کا ایک درخت نظارے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ جب وہ نہاکر لباس تبدیل کر کے نکلی تو اس وقت تک وہ درخت وہاں سے کٹوا دیا گیا تھا۔ وائسرائن خوشی سے چیخ اٹھی۔ میں پہلا انڈین تھا جس نے وائسرائن کو تازہ ٹراؤٹ ڈنر میں کھلائی۔ اسی طرح جب وائسرائن نے خواہش کی کہ بنگلہ کی چھت پر رنگ ہونا چاہیے تو میں نے فوری طور پر اسے سرخ رنگ کروا دیا۔ لیڈی ولنگڈن نے چھے صفحات کا شکریے کا خط ہمیں لکھا اور ہمارے انتظامات پر بہت خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ چند دنوں بعد لیڈی کی طرف سے ایک سلور سگریٹ کیس تحفہ کے طور پر ملا۔ لیڈی نے اپنے ہاتھ سے ایک خط لکھا اور ہدایت کی کہ کولو میں ہسپتال بنوایا جائے۔ اس نے تین ہزار روپیہ اپنی طرف سے ہسپتال کے لیے بھیجے تھے۔ہسپتال بن گیا تو لیڈی ولنگڈن جہاز پر دہلی سے آئیں اور افتتاح کر کے اسی دن واپس چلی گئیں۔
1938-04 میں میری ترقی ہوئی اور میں انبالہ کا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنا دیا گیا۔ میں نے موت کی سزائیں بھی سنائیں اور کوڑوں کی سزائیں بھی دلوائیں۔ تاہم مجھے اعتراف ہے کہ میں امیر اور طاقت ور مخالف کے خلاف غریب آدمی کااور مرد کے مقابلے میں عورت کا ساتھ دیتا۔ میں نے کبھی رشوت نہ لی۔ رشتہ داروں اور دوستوں حتیٰ کہ والدین کی سفارش بھی کبھی نہ مانی۔
1946-04 میں ہماری بیٹیوں پامیلا اور شیلا نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا اور ہم لاہور منتقل ہونے کا سوچ رہے تھے۔ فروری 1946-04 میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا اعلان ہوا اور اکثریتی ارکان کے خلاف پٹیشنز دائر کی گئیں۔ مجھے فرسٹ الیکشنز پٹیشنز کمیشن کا چیئرمین بنا یا اور ہمیں اکتیس پٹیشنز سننا تھیں۔ نواب افتخار حسین خان ممدوٹ، سر فیروز خان نون اور محمد ابراہیم برق جیسے سیاست دانوں کے خلاف پٹیشنز تھیں۔
میں نے 14 اگست 1947-04 کی سہ پہر کو اپنی ریٹائرمنٹ کے کاغذات پر دستخط کیے جب اقتدار منتقل ہو رہا تھا۔ نواب افتخار ذاتی طور پر میرے پاس آئے اور افسوس کیا کہ آئی سی ایس سے ریٹائرمنٹ کیوں لی۔ انہوں نے مجھے مسیحیوں کے لیے وزیر بننے کی پیش کش کی لیکن میں نے انکار کر دیا کہ پہلے اپنے معاملات نبٹا لوں تو نیا کام شروع کروں گا۔ مجھے دو سال سے زائد کی چھٹیاں مع تنخواہ ملی تھیں اور نئی ملازمت سے پہلے میرے پاس کافی وقت تھا۔ میں اپنی فیملی کو لے کر دسمبر 1947-04 میں لندن پہنچا۔ ہم نے چھے بیڈرومز والا ایک گھر Surrey میں خریدا اور لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں داخل کروا دیا۔ میں نے رخصت ختم کی اور 20 مئی 1948-04 سے پنشن وصول کرنے لگا۔ ہندوستان چھوڑنے سے پہلے میں اپنا ریوالور تھانے میں جمع کروانے گیا تو میری ملاقات پرتھوی راج سے ہوئی جو میرے کالج فیلو اور نمبر ون فلم اسٹار تھے۔ ہم انگلینڈ کے لیے بمبئی سے بذریعہ بحری جہاز گئے جبکہ ہمارا کتا Chang ایک دوسرے جہاز سے گیا۔انگلینڈ جا کر معلوم ہوا یہ وہ تبتی ٹیرئیر بہت قیمتی کتا تھا۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply