• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غامدی صاحب اور سور کا دل( I object your honor)۔۔محمد وقاص رشید

غامدی صاحب اور سور کا دل( I object your honor)۔۔محمد وقاص رشید

انسان کو خدا نے “احسنِ تقویم” یعنی بہترین ہیئت میں پیدا کیا۔  یہ ہیئت صرف ظاہری شکل و صورت ہی تک محدود نہیں ہے ،بلکہ انسانی جسم میں پائے جانے والے تمام عوامل اور نظام اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ واقعی انسان تخلیق کا ایک شاہکار ہے۔ انسانی جسم ایک پراسیسنگ کی مکمل صنعت کے مصداق ہے اور اس میں پراسیس ہونے والی جنس “زندگی” ہے۔

سائنس خدا کو مانے یا نہیں طالبِ علم سائنس کو اس لیے مانتا ہے کہ اس نے انسان کو اسکی تخلیق کے مقصد سے روشناس کروایا  اور وہ مقصد خدا کا بیان کردہ ہے کہ خدا کی تخلیق کردہ کائنات میں اسکی قدرت و علمیت کی شاہکار نشانیوں پر دماغ سے غور و فکر اور علم و تحقیق کے ذریعے دل میں خدا کو بسانا ۔طالبِ علم کی نگاہ میں خدا کی عظمت کے اقرار کے لیے ایک یہی ثبوت ہی کافی ہے کہ سائنس خدا کے وجود کو اہلِ مذہب کی طرح مانے یا نہ مانے عظیم ترین اعلیٰ  ظرفی کا مالک خدا تحقیق و جستجو کے اخلاص کا اجر سائنس کو دیے چلا جاتا ہے۔  ان کامیابیوں کی صورت میں جو پچھلی ایک صدی میں اپنے ارتقائی سفر کے عروج کو چھو رہی ہیں۔ سائنس میری نگاہ میں روایتی اہلِ مذہب سے زیادہ بہتر حالت میں ہے خدا کو پہچاننے میں ۔ اسکے ثبوت کے طور پر آپ مسلم امہ اور ترقی یافتہ ممالک کی ترجیحات ہی کا موازنہ فرما لیجیے۔۔۔جہاں ہماری طرف خدا کا گھر زمین پر ناجائز قبضے سے بنانے یا نہ بنانے کی بحث ہو رہی ہے اور انکی طرف ایک ایسی خلائی دوربین خدا کے آسمانی گھر کے پاس پہنچنے والی ہے۔

خدا نے انسان کو بہترین ہئیت میں پیدا کیا اور اس پر غور کرکے خدا کی قدرت کا اقرار کرنے کا حکم دیا تو  سائنس نے یہ بیڑہ اپنے سر اٹھایا اور علم و تحقیق اور علمی جستجو کا ایک ایسا سفر شروع کیا جو آج پوری انسانیت کو خدا کی وہ نشانیاں کھول کھول کر دکھا چکا ہے۔  اگر یہ کہا جائے کہ آج کی دنیا صدیوں پر محیط اسی تحقیق کے نتیجے میں قائم ہونے والے علوم کے ستونوں پر کھڑی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔  ان ستونوں میں سب سے اہم میڈیکل سائنس   ہے ۔طالب علم میڈیکل سائنس کو خدا کی ان نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی گردانتا ہے ۔

کہیں پڑھا تھا کہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ امریکہ میں آدھے سر کے درد کو انہی مافوق الفطرت کہانیوں سے تعبیر کیا جاتا تھا جو ہمارے ہاں مختلف بیماریوں میں آج بھی عام ہیں۔ ۔ آج اسی امریکہ میں ایک انسان کی جان بچائی گئی ہے ایک سور کے دل کی ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے۔۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان یہ میڈیکل سائنس ہی ہے جو انسانیت کے لیے بانہیں پھیلائے کھڑی ہے۔

ایک رائے جو بیشتر معاملات میں طالبِ علم کے لیے اس بنیاد پر مشعلِ راہ ہوتی ہے کہ وہ واقعی میں ایک مبلغ کی رائے ہوتی ہے ۔نہ ریاکارانہ جوشِ خطابت نہ زعمِ تقویٰ  و برتری سے اٹا ہوا متکبر و متعصب بیانیہ۔۔۔۔ عجزو انکساری اور علمی دیانتداری کے ساتھ بیان کی گئی ایک مذہبی تفہیم۔۔۔اور بیان کرنے والی محترم ہستی خود بھی اسے ایک طالبِ علم کی رائے قرار دیتے ہیں۔۔۔جی ہاں انکی کامیابی یہی ہے کہ پڑھنے والوں کے دل میں ایک ہی شخصیت کا خیال آتا ہے” غامدی صاحب”۔

راقم نے بہت سی جگہوں پر اپنی طرزِ و اندازِ فکر کو آزمانے کے لیے  کسی موضوع پر ایک رائے قائم کی اور استادِ محترم کو بعد میں سنا ۔آج یہ پہلا موقع ہے کہ جب سور کے دل کو انسانی جسم میں لگانے کو ناجائز قرار دینے کی استادِ محترم کی رائے سے انکا ایک عامی سا ادنیٰ  سا شاگرد اختلاف کرتا ہے ۔

غامدی صاحب کے مطابق کیونکہ درندوں کا گوشت کھانے سے خدا نے انسان کو منع کیا ہے اور اسکی عقلی و منطقی توجیہہ یہ ہے کہ انسان اپنی تخلیق میں حیوانیت و درندگی سے بالاتر انسانیت کا شرف لے کر پیدا ہوا  اور خوراک انسان کا جزوِ بدن بن کر اسکے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے اس لیے درندوں کا گوشت کھانے سے انسان میں درندگی در آتی ہے۔ سور/خنزیز کا ذکر خدا نے  بالخصوص اس لیے کیا کہ یہ گوشت بھی کھاتا ہے اور سبزہ بھی تو اسکا ذکر خاص طور پر کرنے کے پیچھے دراصل ابہام کی گنجائش سرے سے ختم کرنا تھا ۔ جسکی وجہ سے خدا نے اسکی ممانعت کی اور استادِ محترم کے مطابق اسکا دل اپنے جسم میں شامل کروا لینا اسے کھانے سے مختلف نہیں۔ ۔اس ویڈیو کے آخر میں استادِ محترم سے جان بچانے کی صورت یعنی “اضطرار” کی حالت کا سوال ہوا تو اس پر انکا کہنا تھا کہ تمام شرائط کے لاگو ہونے کے بعد حالتِ اضطرار میں کوئی اعتراض نہیں۔ ۔اور یہ کہ جینیاتی تبدیلیوں کے بعد بھی یہ قابلِ قبول ہے ۔

طالبِ علم کے نقطہءِنظر میں استادِ محترم کی اس تفہیم سے بنیادی اختلاف تو یہ ہے کہ ٹرانسپلانٹیشن کا مطلب ہی حالتِ اضطرار ہے۔۔۔ یعنی یا دل کی تبدیلی یا موت۔ ۔تو جب صورت ہی زندگی کی بقا ہے تو پھر حرمت کیسی؟ ۔انسانی زندگی کو بچانے سے بڑی نہ حلت نہ ہی اسکو نہ بچانے سے بڑی کوئی حرمت۔ ۔

دوسری بات یہ کہ آپ اپنے مختلف لیکچرز میں یہ فلاسفی اپنے شاگردوں کو سمجھا چکے ہیں کہ انسان کا اصل وہ روح ہے وہ باطن ہے وہ جان ہے جو اس کی رگوں میں زندگی بن کر دوڑ رہی ہے جسے خدا نے پھونکا ہے۔اور بوقت مرگ وہی روح واپس لے لی جائے گی۔  میرے خیال میں دل ایک استعارتاً استعمال ہونے والا لفظ ہے ۔ اسکے معانی اصل میں ہمارا وہی باطن ہے ،وہی روح ہے، ورنہ سائنس ہمیں بتا چکی کہ دل چار خانوں والا ایک پمپ ہے،جو زندگی کی علامت گردشِ خون کو جسم کے تمام خلیوں تک پہنچاتا اور واپس لاتا ہے ۔اس ایک پمپ میں میری نگاہ میں ایسا کچھ نہیں جو انسانیت یا درندگی کا فیصلہ کرتا ہے۔  اصل میں تو انسان کی وہی باطنی شخصیت ہے جو اسکا فیصلہ کرتی ہے۔۔جب ہم کہتے ہیں کہ خدا دل میں بستا ہے تو وہ اس پمپ میں نہیں رہتا بلکہ ایک احساس بن کر ہماری روح اور باطنی شخصیت میں موجود ہوتا ہے ۔

غامدی صاحب نے آخر پہ فرمایا کہ ہاں اگر جینیاتی تبدیلیوں کے بعد سائنس یقین دلا دے کہ اب اسکے جینیاتی اثرات تبدیل ہو چکے ہیں تو پھر بھی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ ۔ بصد احترام یہ بات بھی ناقابلِ فہم ہے استادِمحترم کیونکہ سائنس ہمیں یہ کیسے یقین دلا سکتی ہے کہ سور کے دل میں جینیاتی تبدیلیوں کے بعد اب انسان میں درندگی نہیں آئے گی ۔؟

اسی موضوع سے جڑے اسکے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے چند نقاط بھی غور طلب ہیں۔۔ ۔ ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو آئے روز ہمیں درندگی کے وہ واقعات و سانحات ملتے ہیں کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔۔ان انسانیت سوز سانحات میں پائی جانے والی درندگی کیا کسی خوراک کا نتیجہ ہے۔؟ہمارے ہاں جو کچھ آئے روز ہوتا ہے،اس سے وہ معاشرے تو پناہ مانگتے ہونگے جن کی خوراک میں سور کا گوشت عام ہے۔

غامدی صاحب نے اس گفتگو میں سور کو نجسِ عین قرار دینے کی روایتی مذہبی طرزِ فکر کی مخالفت کی۔۔۔ بالکل بجا طور پر۔  روایتی طرزِ فکرنے ایک ابہام دور کرنے کی خاطر بالخصوص متذکرہ جانور کو نجسِ عین قرار دے کر اسے مولانا مرحوم کی گالی سے لے کر اس جانور پر شکار کے نام پر ظلم کرنے تک کی نوبت تک پہنچا دیا۔ اس روایتی مذہبی طرزِ فکر کے لیے عظیم خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تو یہ بھی ہے  کہ اشرف المخلوقات انسان کے دل ہی جیسا دل سور کے سینے میں دھڑکانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ۔ کم از کم میری عاجزانہ نظر میں سور کو یہ شرف عطا کرنے کا مقصد ہمیں اصلاحِ احوال کا عندیہ دینا ہی ہے  کہ سور کا گوشت کھانا مذہبی معاملہ ہے لیکن اسکا دل لگوانا خالصتاً  ایک طبی و سائنسی مسئلہ ہے۔

غامدی صاحب خدا آپ کو سلامت رکھے۔ آپکی وسعتِ تاثیر میں اضافہ فرمائے ۔ یہ آپ ہی کا خاصہ ہے کہ آپ نے اپنے شاگردوں کی اس طرح ذہن سازی کی ہے کہ علمیت کے اعلیٰ  درجے پر فائز ہو کر بھی اپنی رائے کو ایک طالب علم کی رائے کہا ہے ۔ خود سے سو فیصد اتفاق کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے اور اختلاف کو خوش آمدید کہا ہے ۔ یہ آپ ہی کی تربیت و تدریس کا اثر ہے کہ آپکا یہ ادنیٰ  سا شاگرد آپ سے “سور کے دل” کے متعلق اتفاق نہیں کرتا اور یہی چیز آپ کو روایتی مذہبی طرزِ فکر کے مقابل ممتاز کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ سلامت رہیں کہ آپ جیسا نادرِ روزگار ان خصائل کو لے کر خدا کے دین کے راستے میں دیکھتی آنکھوں کو اکیلا نظر آتا ہے ۔ سنتے کانوں کو تنہا سنائی دیتا ہے۔ آپ نے گفتگو کے دوران یہ کہا کہ اگر آپ کو فیصلہ کرنا پڑے تو آپ خدا کے حضور پیش ہونا پسند کریں گے ۔ خدا آپ کے منور دل کو اپنی پوری توانائیوں سے دھڑکتا رکھے۔۔ خدا کبھی نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن اگر خدا نخواستہ اللہ کبھی نہ کرے ایسا لمحہ آ جائے تو ایک دنیا آپ سے گڑگڑا کر التماس کرے گی کہ خدارا سائنس کو اس زندگی کی پراسیسنگ کرتے محترم پیکر کو بچانے دیجیے جو واقعی “احسن تقویم” ہے۔۔۔۔ سلامتی اور امان غامدی صاحب!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply