ایک دن جب عالم ِ ارواح میں بیٹھے ہوئے
ایون” کے شاعر ’شیکسپیئر‘ نے یہ پوچھا جارج برنارڈ شاء سے”
اے مسخرے ، کیا تو نے غالبؔ کو پڑھا ہے؟
مسکرایا جارج برنرڈ شا ۔۔۔ بولا
ہند کے اس شاعر ِ اردو کو پڑھ کر
میں تو اتنا ہی سمجھ پایا ہوں، ولیئم
فارسی میں کوئی تھیٹر کی روایت ہی نہیں تھی
اور اردو نے ، بزعم خود، پرانے ہندوی تھیٹر کو
ادنیٰ ، پست سمجھا
یہ روایت بھی اگر اردو کو ملتی، تو یقیناً
شاعر ِ اردو
“فقط تمثیل لکھتا
شیکسپیئر کچھ نہ کہہ پایا مگر اثبات میں چپکا رہا
یہ۔۔۔ مگر اس کے مقدر میں نہیں تھا
اس کو تو بس اک غزل کی صنف ورثے میں ملی تھی
اور اس پر قانع و شاکر رہا وہ
تنگیٔ داماں کا شکوہ بھی دبے لفظوں میں وہ کرتا رہا
لیکن اکیلا ہی چنا تھا، بھاڑ کیسے پھوڑتا وہ؟
مثنوی کے ساتھ تھیٹر کی روایت بھی
اگر اس کو وراثت میں ملی ہوتی، تو شاید
شاعر ِ ایون کو غالب دور پیچھے چھوڑ جاتا
ہائے غالب! وائے بے چاری غزل کی تنگ دامانی
کہ تیرے فن کا اردو سے تجاوز کر نہ سکنا
عالمی شعر و ادب کا ایک ایسا سانحہ ہے
جس سے اب کوئی مفر ممکن نہیں ہے !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں