(نامہ نگار/مترجم:نسرین غوری)عالمی ادارہ صحت نے منگل کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران استعمال شدہ سرنجیں، ٹیسٹ کٹس اور ویکسین کی خالی بوتلوں کے باعث لاکھوں ٹن طبی فضلہ جمع ہوگیا ہے جو انسانی صحت اور ماحول کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ کچرا طبی عملے میں جلنے، سوئی چھبنے کے باعث زخمی ہونے اور جراثیم سے بیماریاں پھیلنے کا باعث بن سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ٹیکنیکل آفیسر میگی منٹمگمری نے جینوا میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اندازے کے مطابق کوویڈ 19 کے باعث ہسپتالوں کا طبی فضلہ دس گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ آبادیوں میں سب سے بڑا خطرہ کچرہ جلائے جانے کے باعث فضائی آلودگی ہے۔ یہ کچرا کم درجہ حرارت پر جلایا جارہا ہے جس کے باعث اس کچرےسے ہوا میں کینسر پیدا کرنے والے ذرات شامل ہورہے ہیں ۔
رپورٹ میں اس مسئلے کے حل کے لیے اصلاحات اور سرمایہ کاری کے لیے درخواست کی گئی ہے جس میں پیکنگ میں کمی اور پلاسٹک استعمال کرنے پر زور دیا گیا ہے ساتھ ہی ادویات کے حفاظتی مقاصد کے لیے دوبارہ قابل استعمال مواد/اشیاء کا استعمال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق طبی عملے کے لیے ستاسی ہزار ٹن ذاتی حفاظتی سامان اقوام متحدہ کی پورٹل کے ذریعے نومبر 2021 تک آرڈر کیا گیا ہے جس کا وزن کئی ہزار نیلی وہیل کے برابر ہے اور یہ حفاظتی سامان بالآخر کچرے کا حصہ بن چکا ہے۔ رپورٹ میں پلاسٹک سے بنی ہوئی 140 ملین ٹیسٹ کٹس کا بھی ذکر ہے جو 2600 ٹن کچرا پیدا کریں گی اور جو اولمپک سوئمنگ پول کا ایک تہائی کیمیکل فضلے سے بھر نے کو کافی ہونگی۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ اب تک ویکسین کی 8 ارب خوراکیں پوری دنیا میں لگ چکی ہیں۔ جو شیشے کی بوتلوں، سرنجوں، سوئیوں اور ان کے حفاظتی ڈبوں پر مشتمل 144 ہزار ٹن کچرے کا باعث بنی ہیں۔
مادام منٹگمری نے کہا کہ سطح سے کوویڈ 19 انفیکشن پھیلنے کی شرح کے بارے میں غلط فہمی نے حفاظتی سامان خصوصاً دستانوں کا استعمال بہت زیادہ بڑھا دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب نے “خلائی لباس” میں طبی عملے کی تصاویر دیکھی ہیں، ہم نے دستانے پہن کر ویکسین لگاتے ہوئے تصاویر دیکھی ہیں، انہوں نے کہا کہ لوگ بہت زیادہ حفاظتی سامان پہن رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ سب سے زیادہ خراب صورت حال کہاں ہے لیکن ان مشکلات کا حوالہ دیا گیا ہے کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے محدود انتظامات/وسائل اور مڈغاسکر میں قرنطینہ کی سہولتوں سے بڑے پیمانے پر انسانی فضلے کا اخراج بھی ان مسائل میں شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق عالمی وباء کے پھیلاؤ سے پہلے بھی ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی ایک تہائی تعداد معمول کے طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کی سہولیات سے محروم تھی ۔ جبکہ غریب ممالک میں یہ شرح ساٹھ فیصد ہے۔
خلیج ٹائمز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں