کل کرناٹکا میں دو قومی نظریہ پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے لیکن خدا معلوم ایک مسلمان خاتون کو نعرہ تکبیر کی صدا بلند کرتے دیکھ کر ان کانگریسی پاکستانیوں کو بھی کچھ ہوش آئی ہے یا ابھی بھی ان کا بابا اوپر ہی ہے جو دو قومی نظریے کو ایک وقتی سیاسی نعرے کے سوا کچھ نہیں سمجھتے تھے؟
یہ ایک بھارتی مسلم سٹوڈنٹ تھی جو حجاب میں لپٹی جے شری رام کے راگ الاپتے، بپھرے ہجوم کے سامنے اللہ اکبر کی صدا بلند کر رہی تھی۔ جب کہ دوسری طرف آٹھ مارچ کی آمد آمد ہے اور پاکستانی مسلم سٹوڈنٹ جینز اور سکرٹ میں ملبوس ہتھ چھوٹ اور کھلے ہوئے مذہبی جتھے کے سامنے میرا جسم میری مرضی کا نعرۂ مستانہ بلند کرے گی۔ اب یہ خیال رکھیے گا کہ اس وقت آپ نے اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالنا ہے یا تو شدت پسندوں اور مذہبی بنیاد پرستوں کے پلڑے میں وزن رکھ دیجیے گا یا پھر ایک ایسی آواز کی ہاں میں ہاں ملا کر اس کا مان بڑھائیے گا جو اپنے حق کے لئے لڑ رہی ہے ۔ یہ تمام جدوجہد مذہبی نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے حقوق کی جنگ ہے۔ اور آخر کسی کو یہ حق کیونکر پہنچتا ہے کہ کسی کے لباس کا انتخاب جو کہ سراسر ایک انفرادی فیصلہ ہے جملہ ہجوم کے ہاتھ منتقل ہو۔ لوگوں کو یہ پڑھا دیا گیا ہے کہ حجاب خدا کا حکم ہے گو کہ ایسا نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر اس بات کو مان لیا جائے تب بھی ایسی کون سی الہامی کتاب ہے جس میں درج ہو کہ کسی خاتون کا لباس ایک مرد کی چوائس پر مشتمل ہوگا اور مرد بھی وہ جس بیچارے کو خود عقل ہی نہیں اور وہ مذہبی ناخداؤں کے اشاروں پر ناچ رہا ہے اور جسے اس وہم میں مبتلا کر دیا گیا ہے کہ اسے اپنے سوا دنیا کی تمام مسلمان عورتوں کی اصلاح کرنی ہے۔
کرناٹکا واقعہ کو اپنے سامنے رکھیے اور پھر اپنے ملک کی طرف نگاہ دوڑائیے فیصلہ کر لیجیے کہ آپ کو اپنی باری پر اپنے حق کے لئے نعرہ بلند کرتی ہوئی مسکان کے ساتھ کھڑے ہونا ہے جس نے کل کو پاکستان میں میرا جسم میری مرضی والے نعرے کے قالب میں ڈھلنا ہے یا پھر اس پرتشدد مذہبی ہجوم کی سمت ہونا ہے جو آج تو جے شری رام کے نعرے لگا رہا ہے جب کہ کل کو اسے پاکستان میں نام نہاد اسلامی نعرے لگانے ہیں۔ فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ عرض کروں گا مذہب ایک اچھی شے ہے لیکن مذہبی عصبیت اور پھر ایسی مذہبی عصبیت جس کا یہاں دور دورا ہے کچھ اچھی شے نہیں۔

اب آپ سے کیا پردہ، سچ کہوں تو آج کا کالم صرف اسی ایک شرمندگی کو آپ تک پہنچانے کے لئے لکھا ہے کہ اس لڑکی کے جذبے کو دیکھ کر اب اپنا آپ نامرد سا لگنے لگا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں