اب سانحہ سیالکوٹ جیسے سانحات، ڈیرہ اسماعیل خان جیسے اغوا برائے تاوان کے واقعات اور ملک بھر سے لاپتہ افراد کی بات تو ہم کرتے ہی نہیں۔ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فریڈم نیٹ ورک نامی ادارہ صحافی حضرات کے حقوق کے حوالے سے کام کرتا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ یہ ہے کہ پاکستان میں مئی 2020ء سے اپریل 2021ء کے درمیانی ایک سال کے عرصے میں پاکستان کے اندر اس دوران پانچ صحافی لاپتہ ہوئے، سات قتل ہوئے، پچیس کی گرفتاریاں ہوئیں، 15 کو اقرارالحسن کی طرح پھینٹی لگائی گئی، ستائیس پر مقدمے قائم کئے گئے۔ مجموعی طور پر اس ایک سال میں صحافی برادری پر 148 حملے ہوئے اور صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں گذشتہ کی نسبت چالیس فیصد اضافہ ہوا۔ یہ رپورٹ یہ ہوشربا انکشاف بھی کرتی ہے کہ صحافیوں کے خلاف ہونے والے ان 148 حملوں میں سے 51 حملے صرف اسلام آباد میں ہوئے ہیں۔ یعنی پاکستان کے اندر صحافیوں کیلئے سب سے غیر محفوظ علاقے کا نام اسلام آباد ہے۔

سوچنے بولنے اور لکھنے والوں کو رام کرنے کیلئے اُن کے عزیز و اقارب کے ساتھ جو کیا جاتا ہے، اس کی تفصیل اس سے ہٹ کر ہے، جیسے کہ ندیم گرگناری کے دونوں جواں بیٹوں کی ہلاکت وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح عزیز میمن کی مانند، جن کی موت کو خودکُشی کہہ دیا جاتا ہے، اب اُن کی فہرست کون بنائے۔ ان سارے واقعات و سانحات پر یہی ردّعمل سامنے آتا ہے کہ فلاں کو فوری برطرف، تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی، معطل کر دیا گیا، نوٹس لے لیا گیا اور ایکشن ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ برطرفیاں، نوٹس، ایکشن، تحقیقاتی کمیٹیاں اور بیانات سب کچھ پہلے سے لکھے گئے اسکرپٹ کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں کرناٹک کی مسکان نامی لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ کسی نے کہا کہ مجھے تو یہ اپنے ملک کی طرح ایک لکھا لکھایا اسکرپٹ ہی لگ رہا ہے۔ اسکرپٹ والے بھائی کی بات سے ہمیں بھی کوئی انکار نہیں، ممکن ہے اسکرپٹ ہی ہو، لیکن جو چیز ہمیں چونکا دینے کا باعث بنی، وہ یہ ہے کہ گویا وہاں سکرپٹ میں یہ ہدایات موجود ہوتی ہیں کہ خبردار لڑکی کو چھونا تک نہیں اور یہاں یہ حکم ہوتا ہے کہ نشانِ عبرت بنا دو۔
ہر دور میں جہاں بونوں کو اختیارات مل جاتے ہیں، وہاں بڑوں کو نشانِ عبرت بنا ہی دیا جاتا ہے۔ کوئی سانحہ سیالکوٹ و سانحہ تلمبہ اور کوئی لیاقت علی خان، مشال خان، قاری سعید چشتی، ابصار عالم، اسد طور، عزیز میمن، ڈاکٹر چشتی مجاہد، حسنین شاہ، ذیشان بٹ، حامد میر، مطیع اللہ جان اور اقرارالحسن و ذہنی معذور صلاح الدین کی طرح کی طرح نشانِ عبرت بن جاتا ہے۔ آپ انسان کُشی کے مرض میں مبتلا اداروں اور لوگوں کو طالبانائزیشن، مافیاز، شدت پسند اور قانون کے مجرم وغیرہ وغیرہ جو بھی الزام دیں، لیکن ہر نشانِ عبرت بننے والا اپنے پیچھے ہماری اجتماعی اور پیشہ وارانہ تربیت پر کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے۔ سانحہ سیالکوٹ ہو یا سانحہ تلمبہ، ذہنی مریض صلاح الدّین ہو یا اینکر پرسن اقرارالحسن، مضروبین کی حالت دیکھ کر یہ سوال خود بخود اٹھنے لگتا ہے کہ آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے۔؟ زخموں کے نشاں بتاتے ہیں، درندگی کے اسالیب بیان کرتے ہی، سفاکیّت خود چیختی ہے، لاقانونیت اعلان کرتی ہے اور تشدد کے مناظر چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ بونے مختلف ہوتے ہیں، لیکن بڑوں کے مدِّمقابل ایک ہوتے ہیں۔ جہاں بونوں کا سماج ہو، وہاں بڑوں سے جینے کا اختیار چھین لیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] https://urdu.geo.tv/latest/164259
[2] https://www.dawnnews.tv/news/1113104/
[3] https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55560517
[4] https://www.dawnnews.tv/news/1113167
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں