بہر حال تعزیری احکام و قوانین کی یہ تعبیر ان لوگوں کے لیے جو اسلام کے نظام شرع سے واقفیت نہیں رکھتے‘ سخت غلط فہمی کا باعث ہو جاتی ہے۔ وہ نہیں سمجھ سکتے کہ ان کے اسلامی قانون ہو نے کے معانی کیا ہیں اور ان کی نوعیت عقائد و عبادات کے شرعی احکام سے کس درجہ مختلف ہے؟ بلا شبہ تعزیر و سیاست کے بے شمار احکام ہیں جو فقہاء اسلام نے یعنی مسلمان قانون سازوں نے وقتاََ فوقتاََ وضع کیے اور مختلف عہدوں میں ان وقتوں کے احوال کے مطابق ان کا اجراء و نفاذ ہوتا رہا۔ یہ تمام قوانین آج بھی قانون اسلام کی کتابوں میں موجود ہیں اور انہیں اسلامی قانون ہی کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ اسلام کے اصولی اور اجمالی مبادیات ہی سے نکالے گئے ہیں لیکن ان کے ”اسلامی قانون“ ہونے کی نوعیت وہ نہیں ہے جس نوعیت کے قوانین عقائد و عبادات کے ہیں۔ دونوں کا فرق کئی حیثیتوں سے واضح ہے:
اولاََ: تعزیر و سیاست کے تفصیلی قوانین کا بڑا حصہ براہ راست شریعت کا ٹھہرایا ہوانہیں ہے بلکہ قانون سازی کے طریقوں پر شرعی اصول و مبادیات سے استنباط کیا ہوا ہے۔ اس بارے میں اسلام نے جو نظام تشریع اختیار کیا تھا‘ وہ یہ نہیں تھا کہ نپولین کے فرانسیسی مجموعہ قوانین یا تعزیرات ہند کی طرح اس نے تمام تفصیلی اور جزئی قوانین کا یک مجموعہ بنا کر نفاذ کر دیا ہو ،اگر وہ ایسا کرتا تو دنیا کا عالمگیر مذہب نہ ہوتا۔ محض کسی ایک قوم اور عہد ہی کا مذہب ہو سکتا تھا۔ پس اس نے جو طریقہ اختیار کیا وہ یہ تھا کہ تفصیلات و جزئیات سے قطع نظر کر لی گئی اور صرف ایسے اصولی اور اجمالی مبادیات وضع کر دیئے گئے جن سے حسبِ ضرورت ہر طرح کے تفصیلی قوانین کا استخراج کیا جا سکتا ہے۔ اصل شرع اس بارے میں یہ تھی کہ جمعیت بشری کی استعداد ضرورت کے مطابق عدل و سعادت کا نظام قائم رہے اور مفاسد کے روک تھام اور مصالح کے حصول کے لیے جن جن وسائل کی ضرورت ہو وہ صحیح طریقہ پر کام میں لائے جا سکیں۔ اسلامی حکومت کی ابتداء ایک محدود رقبہ اور محدود احوال و ظروف میں ہوئی تھی۔ اس لیے تعزیر و سیاست کی تفصیلات میں بھی زیادہ پھیلاؤ نہیں ہوا تھا پھر جوں جوں دائرہ اقتدار وسیع ہوتا گیا اور تعزیر و سیاست کی نئی نئی ضرورتیں پیش آتی گئیں‘ مقنین اسلام تفصیلی قوانین کا استنباط بھی کرتے گئے۔ یہاں تک کہ ہر طرح کے تعزیری قوانین کا ایک مکمل ذخیرہ مدون ہو گیا۔ پس اگرچہ یہ تمام تفصیلی قوانین بھی اپنی اصل کی بنا پر شرعی قوانین ہیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ اسلام کے براہ راست احکام نہیں ہیں اور قانون سازوں کے استنباط کیے ہوئے احکام میں جو بنیادی فرق ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام کی طرف دونوں کی نسبت‘ ایک طرح کی نسبت نہیں ہو سکتی‘ پہلی قسم کے احکام اس کے براہ راست ٹھہرائے ہوئے ہیں۔ دوسری قسم کے قوانین مقنین کے استنباط کیے ہوئے ہیں اور بسا اوقات ان میں اور اسلامی اصول و مبادیات میں بے شمار کڑیاں نظر و تفریع اور قیاس اور استخراج کی واقع ہو گئی ہیں۔
ثانیاََ: یہ بات بالکل کھلی ہوئی ہے کہ یہ قوانین تعزیر و سیاست کے قوانین تھے اور تعزیر و سیاست کے قوانین سلطنت کے لیے ہوتے ہیں‘ عام افراد امت کے لیے نہیں ہوتے یعنی نماز روزہ کے احکام کی طرح ان کا خطاب افراد سے نہیں تھا‘ اسلامی سلطنت سے تھا۔ نماز روزہ کے احکام واجبات و فرائض ہیں‘ اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ادا کرے لیکن یہ احکام تعزیر و سیاست کے قوانین ہیں واجبات و فرائض نہیں ہیں۔ اس لیے صرف اسی حالت میں قابل عمل ہو سکتے ہیں جبکہ کوئی اسلامی حکومت موجود ہو اور وہ اپنی عدالتوں میں انہیں نافذ کرے۔ اسلام نے احکام قضاء پر (جسے آج کل کے دور کے حساب سے عدالتی کارروائی کہنا چاہیے) اس قدر زور دیا ہے کہ شاید ہی اس عہد میں دنیا کی کسی قانونی حکومت نے اس قدر زور دیا ہو۔ اسلام کا نظم سیاست یہ ہے کہ ”جرم“ اور ”تعزیر“ ایک ایسی چیز ہے جس کی تشخیص اور حکم ہر حال میں صرف عدالت ہی کے ہاتھ میں ہے۔ عدالت کے سوا کوئی نہیں جسے کسی انسان کو ”مجرم“ قرار دینے اور ”سزا“ دینے کا اختیار ہو۔ عدالت سے بھی مقصود محض کوئی خاص عدالتی منصب نہیں ہے بلکہ سماعت‘ شہادت اور تحقیق و حکم کے وہ تمام مراتب ہیں جن کے مطابق حاکم عدالت کو کارروائی کرنی چاہیے اگرکسی معاملہ میں یہ تمام عدالتی کارروائی نہیں ہوئی ہے تو خلیفہ وقت کو بھی اختیار نہیں ہے کہ اپنے علم اور مشاہدہ کی بنا پر کسی مجرم کو سزا دے دے اگر خلیفہ وقت کے ذاتی علم و مشاہدہ میں کسی شخص کا کوئی جرم آ گیا ہو تو اس کی حیثیت محض ایک مدعی یا گواہ کی ہو گی۔ اسی حیثیت سے اسے عدالت کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔ یہ عدالت کا کام ہے کہ اس کے دعوٰی یا گواہی کی نسبت رائے قائم کرے۔
موجودہ زمانے کی قانونی اصلاحات میں بہت زیادہ زور اس اصل پر دیا جاتا ہے کہ عدالتی اختیارات انتظامی اختیارات سے علیٰحدہ کر دیئے گئے ہیں۔ یعنی جو قوت ”سزا“ کے نافذ کرنے کا اقتدار رکھتی ہے اسے ”مجرم“ قرار دینے کا اختیار نہیں ہے اور اس میں ایک بنیادی اصلاح نے حاکمانہ اور شخصی ناانصافیوں کی بے شمار راہیں بند کر دی ہیں۔ بلا شبہ یہ ایک عظیم اصلاح ہے لیکن دنیا کو معلوم نہیں کہ ساتویں صدی عیسوی جبکہ دنیا کے سب سے بڑے متمدن ملک روم کے قوانین کا یہ حال تھا کہ ایک ہی شخص بہ حیثیت مجسٹریٹ کے ملزم پر الزام بھی عائد کرتا تھا اور بحیثیت جج کے اسے سزا بھی دے دیتا تھا‘ اسلامی حکومت میں نہ صرف عدالت کے اختیارات انتظامی مناصب سے الگ تھے بلکہ اسلامی عدالتوں کو وقت کے حاکموں‘ گورنروں اور خود پادشاہوں پر بھی حکم دینے اور بلا رو و رعایت سزا تجویز کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ ویسا ہی اختیار جیسا اختیار وہ ایک عام باشندہ ملک کے لیے سزا تجویز کرنے کا رکھتے تھے۔

اسلام نے تعزیر و سیاست کے باب میں عدالت کے نظام کو جس قدر اہمیت دی ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے کر لیا جاسکتا ہے کہ مسلمان قانون سازوں میں ایک بڑی جماعت اس طرف گئی ہے کہ کوئی آقا اپنے نوکر اور غلام کو بھی بطور خود سزا نہیں دے سکتا اگرچہ قصور کتنا ہی بڑا اور سزا کتنی ہی ہلکی ہو‘ اسے چاہیے کہ باقاعدہ عدالتی چارہ جوئی کرے۔(ختم شد)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں