روس اور یوکرین کے درمیان سرد جنگ گرم جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے روس نے یوکرین پر قبضے کے لیے فوجی کارروائی شروع کر دی ہے بدقسمتی یہ کہ جس وقت روس نے یوکرین پر حملہ کیاہمارے وزیراعظم عمران خان روس میں موجود تھے۔
پاکستان کے روس اور یوکرین دونوں کےساتھ تعلقات حالیہ ادوار میں تقریبا ً مثبت رہے ہیں گوکہ روس اور پاکستان کے تعلقات گذشتہ چند دہائیوں میں خراب بہی رہے ہیں مگر حالیہ دور میں روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ روس کے ساتھ بڑھتی قرابت داری کو مستحکم کرنے کی غرض سے وزیراعظم عمران خان نے روس کا دورہ بھی کیا۔
یہ دورہ پاکستان اور روس کے باہمی تعلقات میں ایک اہم پیش رفت ضرور ہے مگر اس دورے کے وقت کا انتخاب شاید اس دورے سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کی راہ میں آڑے آ جائے،کیونکہ اس وقت عالمی دنیا کی نظریں روس پر اس کے یوکرین کے خلاف جارحانہ اقدامات پر مرکوز ہیں جس کی وجہ سے عالمی امن ایک خطرناک صورت حال سے دوچار ہورہاہے۔اس جنگ سے پاکستان کو کیانقصان ہوگا ذیل میں اسکا عوامی انداز میں جائزہ پیش خدمت ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان تصادم نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔جب جنگ کی خبریں گردش میں تھیں اسوقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیِں فی بیرل 95 ڈالر تک پہنچ چکی تھیں مگر اب تو جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے صورتحال اگر اسی طرح رہی تو پٹرول کی فی بیرل قیمت میں اضافہ مزید ہوتا جائیگا جس کا مطلب ہے پاکستان میں پٹرول کی قیمت میں ممکنہ طور پر 100 روپے سے زائد تک کا اضافہ ہوگا۔پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گندم کی درآمدگی بھی شدید متاثر ہوگی۔پاکستان کا گندم کی درآمدگی کا زیادہ تر انحصار روس اور یوکرین پر ہے۔
روس اور یوکرین دنیا میں گندم پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہیں دنیا میں گندم کی مجموعی تجارت میں دونوں ممالک کا لگ بھگ دو تہائی حصہ ہے۔ روس دنیا میں گندم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے تو یوکرین چوتھا بڑا ملک ہے۔پاکستان اپنی گندم کی ضروریات جہاں اس کی مقامی پیداوار سے کرتا ہے تو اس کے ساتھ اسے بیرون ملک سے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔پاکستان نے گذشتہ مالی سال کے دوران جو گندم درآمد کی اس کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ روس اور یوکرین سے آیا تھا۔پاکستان نے 2 سالوں میں یوکرین سے 13 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی جو پچھلے سال کی کل درآمدات کا 40 فیصد ہے۔
جنگ کی یہی صورتحال رہی تو گندم کی درآمدگی مکمل طور پر مفقود ہوجائیگی جس کے باعث دیگر ممالک سے مہنگی گندم درآمدگی مجبوری بن جائیگی اور اس مہنگائی کا براہ راست متاثر عام پاکستانی ہوگا۔
پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کے سیمی کنڈکٹر کا زیادہ طور پر انحصار یوکرائن سے درآمد شدہ مال پر ہوتا ہے روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ کی صورت میں سیمی کنڈکٹر کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے جس سے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچے گا اور اسکی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ اور سپلائی میں تاخیر بھی ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مقامی کئی صنعتوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔
پاکستان میں یوکرین سے سٹیل درآمد کیا جاتا ہے جو معیار کے اعتبار سے اچھا اور قیمت کے حساب دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے اس صورتحال میں اب اسٹیل جو کہ تعمیراتی صنعت کا اہم جزو ہے اسکی درآمدگی بھی مفقود ہوگی اور دوسرے ممالک سے اسکی درآمدگی مہنگی ہوگی تو اس کا اثر بھی عام پاکستانی پر براہ راست پڑے گا۔
اسی طرح پاکستان اور یوکرین کے درمیان کاٹن، ٹیکسٹائل آئٹمز، فارما، آئرن، پلاسٹک، بیج، کھاد، ربڑ، گلاس، کارپیٹ، مشینری، پتھر، چائے، کافی اور کاغذ سمیت دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔اب اگر یوکرین کے بجائے کسی اور ملک سے ان اشیاء کا خام مال درآمد کیا جائیگا تو لامحالہ مہنگے داموں لینا پڑیں گی تو ظاہر ہے کہ اس سے تیار سامان کی پیدارواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا جس سے براہ راست عام پاکستانی متاثر ہوگا۔
پاکستان میں حالیہ کمرتوڑ مہنگائی نے پہلے ہی عام پاکستانی کو بے حال کیا ہوا ہے ایسے میں روس اور یوکرین جنگ مزید ملکی معیشت پر براہ راست اثر انداز ہوگی اور براہ راست اثر انداز ہونے کا مطلب عام پاکستانی ایک بار پھر مہنگائی کی چکی میں کچلا جائیگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں