• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • روسی حملہ بحرانوں کا آغاز ہے کیا؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

روسی حملہ بحرانوں کا آغاز ہے کیا؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

مغرب نے جنگ و جدال اور لڑائی جھگڑے کا رخ مشرقی دنیا کی طرف موڑ دیا تھا اور بڑی واردات کرتے ہوئے اسلحہ کی تجارت اپنے ہاتھوں رکھی تھی۔ دنیا میں اسلحہ کی تجارت پر قابض دس بڑے ممالک کا نام لیا جائے تو اسلحہ کی مارکیٹ پر نظر رکھنے والی مشہور ویب سائٹ www.statista.com کے مطابق سب سے پہلے نمبر امریکہ ہے، یہ کل فروخت ہونے والے اسلحہ کا 37 فیصد بیچتا ہے۔ اس کے بعد روس ہے، یہ بیس فیصد اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ فرانس آٹھ اعشاریہ دو فیصد اسلحہ کی تجارت پر قابض ہے۔ جرمنی پانچ اعشاریہ پانچ، چائینہ پانچ اعشاریہ دو، برطانیہ تین اعشاریہ تین، سپین تین اعشاریہ دو ، اسرائیل تین، جنوبی کوریا دو اعشاریہ سات، اٹلی دو اعشاریہ سات، نیدرلینڈ ایک اعشاریہ سات، یوکرین صفر اعشاریہ نو، ترکی صفر اعشاریہ سات اور سوئٹزرلینڈ صفر اعشاریہ سات فیصد دنیا کی اسلحہ کی تجارت پر قابض ہیں۔ امریکی ہتھیاروں کی برآمدات کا تقریباً نصف (47 فیصد) مشرق وسطیٰ کے ممالک کو کیا گیا، جبکہ صرف سعودی عرب نے امریکی اسلحے کی کل برآمدات کا 24 فیصد اسلحہ خریدا۔

اب ذرا ان ممالک کو بھی دیکھ لیا جائے، جو دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدتے ہیں و یہ ترتیب وار یہ ہیں: بھارت، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، چین، آسٹریلیا، الجیریا، عراق، پاکستان اور انڈونیشیا دسویں نمبر ہے۔ یہ اعداد و شمار کافی حیران کن ہیں، یہ دنیا میں تنازعات کی سرخ لکیروں کا بھی تعین کرتے ہیں اور ان تنازعات کو ہوا دینے والے عناصر کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ تنازعات کی تجارت ایک بڑا کاروبار ہے، اس میں انسان کے قتل عام سے ممالک اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ ان کی غالب اکثریت مغربی ہے اور جو مغرب میں نہیں ہیں، وہ فکر میں مغربی ہیں، جیسے کوریا اور اسرائیل وغیرہ۔ ایک چین ہی مشرقی ملک بچ جاتا یے، جو اس میدان میں آگے بڑھ رہا ہے۔

پچھلے کچھ عرصے میں دنیا میں ٹھہراو سا آگیا تھا، تنازعات گنے چنے رہ گئے تھے اور لگ یوں رہا تھا کہ انسان انہی تنازعات میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے سے ایک زلزلہ سا آگیا ہے۔ بھوکے پیاسے میڈیا کی بھوک پیاس مٹی ہے اور اب وہ اس تنازعہ کو مزید ہوا دے رہا ہے۔ اب تنازعات کو طاقت کے زور پر حل نکالنے کا رجحان مزید زور پکڑے گا۔ دنیا ہر چیز مذاکرات کی میز پر حل کرنے پر زور دیتی تھی اور دنیا میں اسلحے کے بڑے تاجر پس پردہ ان تنازعات کو الجھاتے ہیں کہ ان کے اسلحہ کی تجارت جاری رہے۔

روس اور یوکرین میں تنازع تھا، ان کے درمیان سفارتکاری کے بڑے موثر چینلز موجود تھے، مگر انہیں استعمال میں نہیں لایا گیا یا ان کی ناکامی کے بعد روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا ہے اور اگرچہ ذرا سست رفتار سے ہی سہی وہ مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔ اگر یوکرین کی عوام مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور یورپ پوری طرح سے انہیں اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کر دیتا ہے، جس کا قوی امکان موجود ہے تو یہ جنگ کافی طویل ہو جائے گی۔ فرانس کے صدر نے اسی خدشے کا اظہار کیا کہ یہ جنگ بہت طویل ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور روس یوکرین پر قبضہ کرکے من پسند افراد کی حکومت بنوا دیتا ہے تو اس سے دنیا میں طاقت کے ذریعے قبضے کا نیا رجحان جنم لے گا۔

اس کی ایک مثال کچھ عرصہ پہلے آذربائیجان کا طاقت سے آرمینیا سے اپنے علاقوں کا واپس لینا ہے۔ ایک لمبا عرصہ آذربائیجان نے مذاکرات میں گزارا، مگر اسے کچھ نہیں ملا۔ اس نے طاقت کا استعمال کیا اور ایک بڑا علاقہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ فلسطینی سات دہائیوں سے اقوام متحدہ اور مذاکرات کے ذریعے اپنا بنیادی حق لینا چاہتے ہیں، مگر نتیجہ کیا نکلا ہے؟ وہ دن بدن اپنے گھروں اور جائیدادوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، بات صرف طاقت کی مانی اور سنی جا رہی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان نے انیس سو اڑتالیس میں کشمیر کا جو حصہ طاقت کے زور پر حاصل کر لیا تھا، وہ آج بھی اسی کے پاس ہے اور جو حصہ مذاکرات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، وہ آج بھی انڈیا کے قبضے میں ہے اور انڈیا کا یہ قبضہ دن بدن مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔

روس کا یہ اقدام چائینہ کو بھی شہہ دے سکتا ہے کہ وہ تائیوان پر طاقت کے ذریعے قبضہ کرے اور چائینہ کے جنگی طیارے پچھلے کچھ عرصے سے تائیوان میں داخل ہو کر اپنی طاقت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ تنازعات کے حل کا روس کا طریقہ کار ویسے یہی رہا ہے۔ چیچنیا ایک آزاد مسلم ریاست تھی، وہاں فوجی کارروائی کے ذریعے قبضہ کیا گیا اور روس کو نہیں روکا گیا۔ دنیا بالخصوص مغرب نے کوئی مثبت کردار ادا نہ کیا اور یہ ملک روس کے لیے ترنوالہ بن گیا۔ اگر مغرب نے اس وقت روس کو روکا ہوتا تو آج یوکرین کی یہ صورتحال نہ ہوتی۔ کچھ لوگوں کو یوکرین پر روسی حملے پر مسلمانوں کے ردعمل سے حیرانی ہوئی ہے، بالکل اسی طرح کی حیرانی مسلمانوں کو چیچنیا پر روسی حملے کے وقت مغرب سے ہوئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

روس کا یہ حملہ دنیا میں کئی سوئے بحرانون کو جگانے کا باعث بنے گا، دنیا میں طاقت کی زبان میں بات کرنے کا رجحان جنم لے گا، بہت سے لوگ جو سفارتکاری کی طاقت سے مسائل کو حل کرنا چاہتے تھے، انہیں اپنے نظریہ پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ یورپ کو جنگ کی حرارت اپنے دروازے پر محسوس ہوئی ہے۔ لاکھوں مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے جو مسلم ممالک کے تنازعات کا خاصہ بن چکے تھے، وہ اسی طرح سے اب یورپ میں دیکھے جا رہے ہیں۔ جنگ بری چیز ہے، یہ مشرق میں کسی کا خون بہائے یا مغرب میں، یہ قابل افسوس ہے۔ اسی طرح یہ مشرق کے انسان کو بے گھر کرے یا مغرب کے انسان کو، بطور انسان تکلیف ایک جیسی ہوتی ہے۔ بہرحال روس کا یہ حملہ دنیا کی فکر میں کئی بنیادی تبدیلیاں کر دے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply