گونگا( دوم،آخری حصّہ)۔۔افتخار بلوچ

گونگا( دوم،آخری حصّہ)۔۔افتخار بلوچ/“زندگی کی رعنائیاں تو کبھی ختم نہیں ہوتیں! اگر باہر کچھ نہیں ہے تو جناب یہاں کیا ہے۔ یہ تیل،  پانی کے بد نما دھبے اور مسلسل گُھر گُھر! اس خرابے میں تو زندگی کا حُسن ڈھونڈنے کے لیے انتہائی اعلیٰ ظرف ہونا پڑے گا اتنا اعلیٰ ظرف تو شاید کوئی نہ گزرا ہو۔ باقی جہاں تک زاہد کا تعلق ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ موٹر اور یہ جگہ اس کے لیے فرار ہے! باہر کی وسعت میں اس کی ذات قدیم محرومی کے باعث ترک کردی گئی ہے اُس کے پاس اپنی ذات کو ثابت کرنے لیے خاموش وجود کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وجود تو جناب بولتا ہوا بھی ہو تو نہیں سنا جاتا آج کل پھر خاموش وجود کو کون سنے وہ تو ایسے سمجھیں جیسے ہے ہی نہیں! اور یہ جگہ یہاں کم از کم اُس کا ایک رعب قائم ہے اور آپ اسی رعب کے باعث تو ڈرے تھے اور وہ بھی ایسے کہ اب تک تجسس اور حیرانی نہیں گئی ۔ مگر مجھے یقین ہے یہ رعب انتہا درجے کی بیزاری کی وجہ سے ہے۔ زاہد اس جگہ سے اتنا بیزار ہے کہ اب ایک برتری اُسے حاصل ہوچکی ہے۔  وہ بغاوت کے ذریعے کام کا ماہر بنا ہے اور ایسا اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ بغاوت اس کے اندر ہی پھیلتی پھولتی رہی ہے جسے کبھی باہر آنے کا دروازہ نہیں ملا کیونکہ دروازہ ہے ہی نہیں! اس کے اندر یہ موٹر اپنے شور اور اپنی تمام تر غلاظت کے ساتھ قید ہے جس کی ہر خرابی کو وہ ایسے دیکھتا ہے جیسے اور کوئی دیکھنے والا نہ ہو ۔اسی وجہ سے تو ہماری بے عزتی ہوتی ہے اور زاہد خود بھی اس مشین میں قید ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے اپنی بیزاری کی مان کر اس قید سے چھٹکارا حاصل کر بھی لیا تو باہر ویرانی اور قاتل قسم کی اجنبیت کے ہاتھوں مر جائے گا۔ وہ جینا چاہتا ہے مگر اُسے احساس ہے جینے کے لیے آواز درکار ہے خاموشی صرف فطرت کی اچھی لگتی ہے! ایسا میں نے اس کی سرخ آنکھوں میں دیکھا اور ٹوٹی ہوئی آوازوں میں سنا جو بہت کم اس کے لبوں سے نکلتی ہیں اور ایسے نکلتی ہیں جیسے تاریخ کے تمام بے گناہ مقتول اپنے انتقام کا تقاضا کر رہے ہوں اور ان تقاضا کرنے والوں میں قابیل سرِ فہرست ہو! ” آخر کار اس سائنٹفک فلسفی نے سرد آہ بھری اور کہا
“بھلا سوچو تو گونگے کا نام رکھنے کی بھی کیا ضرورت ہے بتا تو وہ سکتا نہیں اور لوگوں کے لیے تو اُس کی بس اتنی شناخت ہی کافی ہے کہ وہ گونگا ہے”۔
پھر خاموشی چھا گئی کئی دنوں تک میکانکی عملے کے دفتر میں زاہد سے متعلق کوئی بات نہ ہوئی یہ سائنٹیفک فلسفی بھی اپنی دنیا میں گم ہوگیا۔ اسے تو گم ہونا ہی تھا اس کے پاس کون سے جواب تھے اس کے پاس تو توجیہات تھیں اور وہ بھلا جواب کیسے ہو سکتی ہیں!

اگلی صبح مشین کا یہ تین گھنٹے کا رک جانا سیٹھ کی پریشانی بن گیا اور سیٹھ صاحب کی پریشانی افسران اعلی کا دردِ سر بن گئی مگر زاہد تک کوئی اثر نہ گیا وہ اسی گُھر گُھر میں قید رہا!
ایک زوردار قسم کی میٹنگ ہوئی جس میں تجاویز سے ذیادہ غصہ تھا اور حل ڈھونڈنے سے زیادہ وہ باتیں تھیں کہ جن سے بذات خود حل ڈھونڈنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے!  بلآخر فیصلہ ہوا کہ فیکٹری میں ایسے ماہر انجینئر صاحبان کو بھرتی کیا جائے جو ایسی مشینوں کے معاملات سے انتہائی واقف ہوں۔ جنہیں علم ہو کہ کیسے امتناعی محافظت کے اصول و ضوابط کو ایسی مشینوں پر لاگو کیا جاتا ہے جو کسی بھی وقت دغا دے سکتی ہیں۔  سیٹھ صاحب نے اس بات پر خصوصی توجہ دی کہ نئے بھرتی ہونے والے انجینئر صاحبان ایسے ہوں جن کے پاس میکانکی، برقی، آلاتی غرض یہ کہ ہر قسم کا علم و ہنر موجود ہو۔ مزید یہ کہ ایسے انجینئر صاحبان کے لیے ذیادہ مراعات اور بہتر تنخواہوں کا اعادہ بھی کیا گیا۔ چند دن بعد معیار پر پورے اترنے والے پانچ انجینئر صاحبان کو بھرتی کر لیا گیا۔ نئے بھرتی ہونے والے افسران واقعتاً انتہائی قابل ثابت ہوئے۔ اُن کی محنت کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصے میں فیکٹری کی تقریباً تمام مشینوں میں نمایاں تبدیلی نظر آنے لگی مگر زاہد کی مشین کی گُھر گُھر اور زاہد بذاتِ خود جوں کے توں رہے۔ اس مشین نے اُن تمام انجینئر صاحبان کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر لی تھی۔ ان نئے افسران کی مزید کچھ عرصے میں باقی لوگوں سے واقفیت بڑھ گئی اور ایک بے تکلفی سی پیدا ہو گئی۔ یہی معاشرتی زندگی کا اصول ہے کہ قیام اگر پرانا ہو جائے تو واقفیت بڑھتی ہے اور واقفیت کے امتیازی دائرے اگر مٹ جائیں تو بے تکلفی پیدا ہو جاتی ہے!
ایک دن معمول کے مطابق کام ہو رہا تھا کہ میکانکی عملے کے مینیجر اظہر علی ڈاہری نے ایک انجینئر عمر ارشد کو بلایا۔ عمر ارشد کی حسِ مزاح اور قابلیت دونوں ہی دیدنی تھیں۔ اظہر علی ڈاہری اپنی کرسی میں جیسے دفن ہو چکا ہو جب عمر ارشد اُس کے دفتر آیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد دونوں مشین کے معائنے کے لیے چلے گئے جہاں زاہد آنکھیں پھاڑ کر مشین کے پرزوں اور پائپوں کو دیکھ رہا تھا۔ اظہر علی ڈاہری نے سنجیدہ لہجے میں عمر ارشد سے پوچھا کہ
” تمہیں اندازہ ہے کہ یہ مشین کیا کام کرتی ہے؟”
“یہ گرم تیل کو پریشر سے دھکیلتی ہے جو مختلف پائپوں سے ہوتا ہوا فیکٹری کی باقی مشینوں تک پہنچتا ہے سر!” عمر ارشد نے سنجیدہ خود اعتمادی سے جواب دیا۔
“بالکل ٹھیک کہا! مگر اس کا ارتعاش، شور اور اس کی خرابی تمہاری سمجھ سے کیوں دور ہے؟” اظہر علی ڈاہری نے بھرپور متانت سے  سوال کیا۔
“سر! ہم اس پر کام کر رہے ہیں مگر ایک تجویز ہے!” عمر ارشد نے لبوں پر پھیلتی ہوئی مسکراہٹ سے کہا۔
“ہاں ہاں بولو! دیکھو جو بات اچھی ہو وہ ضرور بتانی چاہیے!” اظہر علی ڈاہری کی متانت شفقت میں بدل گئی جس سے عمر ارشد کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔
“سر! مشین کا مسئلہ اس کی موٹر کی وجہ سے ہے اور موٹر رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے اس کی جگہ ایک نلکا لگا دیتے ہیں جسے یہ زاہد  چلاتا رہے گا!”
یہ فقرے جیسے ہی مکمل ہوئے عمر ارشد کی مسکراہٹ ایک قہقہہ بن کر لبوں کے افق سے برس پڑی۔
“عمر! یہ مذاق ہے؟ یہ مذاق کا وقت ہے؟ سنجیدہ رہو!” اظہر علی ڈاہری نے تیوری بدلتے ہوئے کہا۔
اچانک عمر ارشد کی آنکھیں سپاٹ ہوئیں اور ہنسی ختم ہو گئی۔ اُس نے کہا کہ
” سر! کیا پچھلے وقتوں میں غلاموں نے دیوہیکل جہازوں کے چپو نہیں چلائے! امریکا کی نو آبادیت اسی طرح تو ہوئی تھی۔!”
اظہر علی ڈاہری نے پھر شعلہ نگاہوں سے عمر ارشد کو دیکھا اور دونوں چلتے بنے۔
زاہد نے دونوں کو جاتے دیکھ کر ایک بیزار اشارہ کیا وہ اس تمام وقت میں دونوں کو دیکھنے میں مشغول رہا تھا۔ اُس کے ماتھے پر پسینہ چمک رہا تھا اور آنکھیں سرخ تھیں۔
جب بھی کوئی افسر مشین کے نزدیک آتا زاہد کو حقارت محسوس ہونے لگتی تھی۔ وہ ایسی نگاہوں سے دیکھتا جیسے پوچھ رہا ہو کہ اُن کا زاہد کی حکومت میں کیا کام ہے آخر جو ہر تھوڑی دیر بعد وہ آ جاتے ہیں! وہ بڑبڑانے کی کوشش کرتا وحشیانہ اشارے کرتا مگر بے سود اشارے! جب لوگ چلے جاتے تو وہ پھر مشین کی طرف متوجہ ہوتا جیسے کہہ رہا ہو
“دیکھو! آخر میں نے جنوں کی سرحد کے پار اپنے لڑکھڑاتے ہوئے قدم اتار ہی دیے! دیکھو! مجھ میں تہذیب ابھر چکی! دیکھو! خاموشی کی تہذیب، نارسائی کی تہذیب! دیکھو تہذیبوں کا ملاپ دیکھو کہ میں جس میں کھو چکا ہوں آخر انسان بھی تو کھو گیا ہے!”

چند دن اور گزرے کہ اظہر علی ڈاہری کے شاطرانہ دماغ میں ایک تجربہ کرنے کی سوچ ابھری۔ کچھ وقت تک تو وہ اپنے خیال کے عمیق ریگزاروں میں قیس بنا پھرتا رہا مگر پھر اُس نے میٹنگ منعقد کروا لی۔ حسبِ توقع اظہر علی ڈاہری کو تجربے کی اجازت مل گئی۔
اگلی صبح ہی وہ انجینئر صاحبان کی ایک ٹیم کو لے کر مشین سے کھیلنے لگا۔ سب سے پہلے مشین کے درجہ حرارت کو ذیادہ کیا گیا پھر کم کر دیا گیا۔ جب سوئچ پر ایک انجینئر کی انگلیاں مشین کے درجہ حرارت سے شرارت کرنے لگیں تو زاہد بھاگا اور اُس نے اپنے دونوں ہاتھ سر سے اوپر بلند کیے پھر چھوڑ دے۔ منہ ایک طرف کو موڑنے کے بعد اُس نے
” ہا ہے ہی ہو آں ای آ”
کیا اور خاموش ہو گیا۔ اسی اثنا میں مصروف عملے کے لوگوں نے ایک مرتبہ زاہد کو دیکھا اور پھر غیر متوجہ ہو گئے۔
درجہ حرارت کے بعد موٹر کی رفتار کی طرف توجہ مبذول کی گئی مگر اب کی بار زاہد کے چہرے پر کوئی تاثر نہ پیدا ہوا نہ حیرانی نہ حقارت نہ وحشت نہ تہذیب! شاید وہ قبول کر چکا تھا کہ اُس کی حکومت میں رخنہ ڈال دیا گیا ہے!
کچھ دیر موٹر کو تبدیل شدہ رفتار پر چلتے ہوئے گہرے مشاہدے اور علمی و عملی تجزیے سے پرکھا گیا۔ مشین کے ارتعاش اور شور میں ایک کمی سی محسوس ہو رہی تھی اور اظہر علی ڈاہری کے چہرے پر بھی ایک اطمینان کی لکیر عیاں ہو رہی تھی۔ مگر زاہد ایک طرف ہاتھ پیچھے باندھے خاموش کھڑا فرش گھورنے میں محو تھا جیسے ہر طرف سے گھیرے میں آیا ہوا سپہ سالار آخری دفعہ میدان جنگ کو دیکھ کر دل ہی دل میں ہار قبول کر لیتا ہے مگر پھر بھی ایک زوردار نعرے سے اپنے آخری سپاہیوں کو جنگ میں دھکیل دیتا ہے!
زاہد کی آنکھیں بھی یہی بتا رہی تھیں کہ
” چلو خیر! ہم نہ سہی تو تم سہی!”

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ دیر رکنے کے بعد ماہرین دفاتر کی جانب چلے گئے مگر زاہد وہیں رہا۔ تبدیلی کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہ آئی تھی۔ اُس نے گریزاں ہاتھ سے ایک پائپ کو چھوا اور پھر اِس انداز سے پائپ پر ہاتھ مارا جیسے کوئی باپ پہلی دفعہ اکھاڑے میں اترنے والے اپنے پہلوان بیٹے کو تھپکی دیتا ہے۔
سارا دن مشین چلتی رہی اور زاہد گھورتا رہا۔ اگلا آدھا دن بھی مشین بالکل ٹھیک چلی مگر پھر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔
جب لوگ پہنچے تو دیکھا کہ مشین کی موٹر پھٹ چکی تھی لوہے کے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھر چکے تھے۔ ایک ٹکڑا زاہد کے پیٹ میں گُھس چکا تھا۔ زاہد کے منہ سے نکلنے والا خون فرش پر ایسے پھیل رہا تھا جیسے اُس میں خاموش شکوہ ہو بہت ہی خاموش اور گہری شکایت ہو کوئی بہت ہی محروم بددعا ہو!
جیسے ایک خاموش چیخ ہو جو اپنی موت کی وجہ رفتار کو ٹھہرا رہی ہو۔ رفتار شاید زمانے کی ہو یا مشین کی یا پھر اپنی بے بسی کی رفتار ہو جس کی تاب وہ لہو نہ لا سکتا ہو۔ مگر جو بھی تھا زاہد اب خاموشی کے اس مقام پر تھا جہاں سے کلام ناممکن ہے۔
“آ اے ای ہا ہے ہو آں ”
بھی ناممکن ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply