اصل حریف (آٹھ مارچ پر خصوصی تحریر)۔۔محموداصغرچود ھری/ پرو فیسر جولیانو وینس یونیورسٹی میں سنسکرت پڑھاتے تھے ۔ میری ان سے ملاقات پولی کلینک مودنہ میں ہوئی ۔انڈین پاکستانی ثقافت پر سیمینار تھا۔ہم دونوں اس میں مدعو تھے۔ سیمینار میڈیکل اسٹوڈنٹس ، ڈاکٹرز اور نرسز کےلئے تھا ۔ پروفیسر صاحب علم کا سمندرتھے ۔ ہندو ذات پات اور آواگان کے تصور پران کا لیکچر مسحور کُن تھا۔
ایک ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا ،انڈیا پاکستان میں خواتین کی حالت بڑی قابل رحم ہے۔ان کے کوئی حقوق نہیں اور انہیں ایک ادنی ٰ مخلوق سمجھا جاتا ہے ۔ شادی کے لئےجہیز طلب کیا جاتا ہے ۔اس کے بارے آپ کیا کہیں گے؟
پروفیسر صاحب مسکرانا شروع ہوگئے، کہنے لگے یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے ،جو یورپی معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی ثقافت میں عورت گھر میں ایک حاکم کا درجہ رکھتی ہے ۔بیٹے کو پیدا ہوتے ہی ماں کی غلامی کا ایسا سبق پڑھایا جاتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ گھر میں اس کا ایک باپ بھی موجود ہے جس کی عزت کرنی چاہیے ۔ ہرمرد کے ذہن میں تصور بٹھا دیا جاتا ہے کہ اسے بہنوں کی حفاظت کرنی ہے۔ مرد خود شادی کی عمر کو بھی پہنچ چکا ہو، لیکن نہیں پہلے اسے بہنوں کی شادی کرنی ہے ۔شادی دھوم دھام سے کرانے کے لئے قرض لینا ہے تاکہ برادری میں ناک سلامت رہے ۔وہ مردجس نے بہن کی شادی کےلئے قرض لیاتھا وہ ابھی پچھلا قرض اتار نہیں پاتا کہ اسے اپنی بیٹی کی شادی کی فکرپڑجاتی ہے ۔ میاں بیوی کی لڑائی میں قصوروار مرد کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ عورت کونہ تو کوئی جاب کرنا پڑتی ہے اور نہ ہی اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔امیر خاندانوں کی لڑکیاں میڈیکل جیسی پروفیشنل تعلیم بھی بطور فیشن حاصل کرتی ہیں اور بعد میں جاب نہیں کرتیں۔
میں نے کہا پروفیسر صاحب اب یہ تو آپ ایک طرفہ تصویر دکھا رہے ہیں ۔ کہنے لگے نہیں یہ یک طرفہ تصویر نہیں ہے میں تمہیں ثابت کر سکتا ہوں کہ پاکستانی معاشرے میں عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہے ۔وہاں ایک عورت ہی ہے جو دوسری عورت کےحقوق غصب کر رہی ہے جو اس پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
انہوں نے میری طرف دیکھا اور پوچھنے لگے محمودبتاؤ کہ پاکستان میں جس لڑکی کی شادی ہونے والی ہوتی ہے ا س کا سب سے بڑا ڈراؤنا خواب کیا ہوتا ہے ۔ میں نے کندھےاچکا دئیے ۔ پروفیسر صاحب بولے ۔۔۔ ساس۔۔۔میں سر کوہاں میں ہلاتے ہوئے ہنسناشروع ہوگیا جبکہ دیگر ڈاکٹرز اور نرسز متعجب ہوکر ہمیں دیکھنا شروع ہوگئے۔
پروفیسر صاحب بولے ان کے ملک میں دلہن کو خاوند کا یا سسر کے ظلم کا کوئی خوف نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے اصل ڈرنے کی وجہ ایک عورت ہوتی ہے ۔ان کے معاشرے میں ساس کو آپ ہٹلر کہہ سکتے ہیں ۔ساس سے اسکا بیٹا ، اس کی بہو حتی کہ اس کا شوہر بھی ڈرتا ہے۔یاد رکھیں جہیز کی خواہش شاید ہی کسی مرد کی ہوتی ہو، یہ ساس ہی ہے جسےسارے محلے کو بہوکا جہیز دکھانے کا شوق ہوتا ہے ۔ سسرال میں عورت پرظلم گھر کے مردنہیں کرتے ۔ اسے اٹھتے بیٹھتے طعنے اس کی نندیں دیتی ہیں ۔ یا پھر اس کی دیورانیاں جیٹھانیاں ۔ اسے نفسیاتی طور پر اتنا ٹارچر کرتی ہیں کہ وہ اس زندگی سے موت کو ترجیح دینا شروع ہوجاتی ہے ۔ ان کے اخبارات میں چولہا پھٹ جانے سے بہوکے جل جانےکی خبریں چھپتی ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ گھر کے مرد کچن میں جا کر چولہا خراب کرتےہوں گے ؟کسی عورت کے بچہ نہ ہوتو اس کی زندگی عذاب ،شوہر سے زیادہ اس کی سسرال کی عورتیں بناتی ہیں ۔ جہیز قیمتی نہ ہو تو گھر کے مر دکو ئی بات نہیں کرتے ،البتہ نندیں ساری زندگی اپنی بھابھی کی زندگی اجیرن کر کے رکھتی ہیں ۔ اسی طرح دوسری جانب بہو جوہے چونکہ اس کے ذہن میں اس کی ماں نے یہ بات ڈال دی ہوتی ہے کہ تمہاری سب سے بڑی دشمن تمہاری سسرال کی عورتیں ہیں، اس لئے وہ بھی ان کے خلاف چالیں چلتےاور ان کو نیچے دکھانے میں عمر گزاردیتی ہے۔
پروفیسر صاحب تھوڑی دیر رکے پھر بولے میں نے آپ کو صبح آواگان یعنی لائف کا سرکل سمجھایا ہے نا ۔سب نے کہا ہاں ۔ کہنے لگے ساس کو آپ ایک ظلم کا سرکل سمجھ لیں جس میں ایک عورت اپنے حصے کی تکلیفیں برداشت کر کے جب اس عہدے پر پہنچتی ہے تو وہ وہی کرتی ہے جو اس کے ساتھ ہوا ہوتا ہے ،اور یہ سلسلہ اسی طرح صدیو ں سے چل رہا ہے ۔
میرا خیال ہے کہ اگر پاکستانی یا انڈین معاشرے میں عورتو ں کے حقوق کی کوئی تحریک چلی اگر انہوں نے کبھی آٹھ مارچ منانے کی کوئی جدوجہد کی تو ان کو اپنے اصلی دشمن کوپہنچاننا ہوگا ۔ ان کی تحریک کا اصل ہدف مرد نہیں بلکہ عورت ہی ہونی چاہیے ۔ عورت کو عورت کے ظلم سے بچالیں ۔ مستقبل کا نقشہ خود بخور سنور جائے گا۔
کافی کا وقفہ ہوا توہم سب غیر رسمی گپ لگارہے تھے کہ ایک ڈاکٹر میرے پاس آئی کہنےلگی سنوبیلو ۔۔میں توپاکستانی مردوں کی وجاہت کو بہت پسند کرتی ہوں۔ لیکن یہ ساس کاتصور سن کر اب ارادہ کیا ہے کہ کسی پاکستانی سے شادی نہیں کروں گی۔ میں نے کہانہیں میری امی ایسی نہیں ہیں، ویسے بھی انہیں تمہاری زبان نہیں آتی تو طعنے کیسے دیں گی ۔۔ پروفیسر صاحب نے قہقہہ لگایا۔ کہنے لگے اس کی باتوں میں نہ آنا ۔ پاکستانی ماؤں کاکوئی بیٹا یورپ میں شادی کر بھی لے تو وہ اپنے بیٹے کو کہتی ہے کہ ایک شادی تم نے اپنی مرضی سے یورپ میں کر لی اب ایک شادی میری مرضی سے کسی پاکستانی لڑکی سے کر لوتاکہ میں اپنا ساس کا فرض بخوبی انجام دے سکوں ۔
تمام پاکستانی خواتین کو آٹھ مارچ یوم خواتین مبارک ۔البتہ بلھے شاہ کی زبان میں انہیں یہی کہوں گا
بلھے شاہ آسمانی اڈدیاں پھڑنا ایں

جیہڑی گھر بیٹھی اونہوں پھڑیا ای نہیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں