عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد ایشو اس وقت ہاٹ ایشو بنا ہوا ہے
عمران خان کی حکومت اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے
اپوزیشن کے تندوتیز بیانات اور حکومت کے جارحانہ اقدامات ، آئے روز اپوزىشن جماعتوں کے سربراهان کى ملاقاتوں اور جهانگىر ترىن گروپ مىں علیم خان کی شمولىت نے ہوا ایسی تخلیق کی ہوئی ہے کہ لگ ایسا رہاہے کہ حکومت کا جانا ٹھہر گیاہے
اپوزیشن کے طرز سیاست سے لاکھ اختلاف صحیح مگر میں کم از کم اپوزیشن کو اس بات کی داد ضرور دیتاہوں کہ اپوزیشن نےحکومت کو اتنا ٹف ٹائم ضرور دیاہے کہ عوامی سطح پر حکومت کے عدم استحکام کے چرچے موجود رهے هىں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکومت کو کارکردگی کےدکھانے کے لئے جتنا آزاد ماحول ملا ہے وہ اس سے پہلے شائد کسی حکومت کو میسر نہیں ہوا گوکه کورونا کى وباء نے نظام زندگى معطل کردىاتھا لىکن اسکے باوجود موجوده حکومت کو کارکردگى دکھلانے مىں کهىں مزاحمت کا سامنا نهىں رها۔
بالخصوص جمہوری حکومت میں عسکری اداروں کا حکومتی معاملات میں ایک پیج پر ہونا عمران خان کى حکومت کا امتىاز رهاهے مگر اسکے باوجود عوامی سطح پر حکومت کے ٹھہرے رہنے کی غیر یقینی صورتحال اپوزیشن کے کردار کے باعث موجود رہی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کی ملاقاتیں جاری ہیں۔
حکومت کے وہ اراکین جو حکومتی پالیسیوں سے شدید نالاں ہیں جن میں سے چند ایک تو کھل کر اظہار بھی کررہے ہیں اور چند ایک نجی محافل میں اسکا اظہار کررہے ہیں تحریک عدم اعتماد کی صورت میں انکا کیا کردار ہوگا اپوزیشن کے ارکان ان ناراض حکومتی ارکان سے بھی مذاکرات کرکے ان کو تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے لئے قائل کررہے ہیں۔
اپوزیشن نے اپنا ہوم ورک اس حوالے سے مکمل کیا ہوا ہے
مگر حکومت ابہی تک کشمکش کی کیفیت میں ہے کہ اس تحریک سے ٹیکنکلی کس طرح وقت پر وقت حاصل کیاجائے۔
اپوزیشن کی خواہش یہ ہے کہ حکومت کے اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملایاجائے اور پہر انکے ذریعے ہی تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروایا جائے
اسکے ساتھ ساتھ وہ پرندے جو پرواز کرنا چاہتے ہیں انکو بھی استعمال کیاجائے تاکہ 62 A کے ذریعے انہیں ڈی سیٹ کرواکر عمران خان کی اکثریت کو توڑا جائے
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں پی ٹی آئی کے لیے اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
تاہم اگر یہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ہے تب بھی پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات ختم نہیں ہوں گی۔
اس تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ان کی سیاسی قوت بہت زیادہ بکھر چکی ہو گی۔ ان کی حکومت اس وقت بھی اور تحریک عدم اعتماد کے بعد مزید عملی طور پر مفلوج ہو گی۔
تاہم اگر یہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجاتی ہے تو اسکی ناکامی کے بعد اپوزیشن کے لئے عوامی ہمدردیاں مزید مستحکم ہونگی۔
کیونکہ وطن عزیز کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد حکومتی پالیسیوں سے شدید نالاں ہیں بالخصوص محلہ کی کریانہ کی دکان کے مالک سے لیکر صنعت کار تک ہر فرد زبوں حالی کا شکار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پاکستان کی اکثر عوام کی خواہش ہے اور وہ اپوزیشن کے کردار کو مانیٹر کررہے ہیں بالفرض یہ تحریک اگر ناکام ہوبھی جاتی ہے تو اسکے ناکامی کے فوائد سے بھی اپوزیشن مستفید ہوگی جبکہ حکومت سیاسی بلیک میلروں کے نرغے میں مکمل طور پر پھنس کر رہ جائیگی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں