• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آئینی بحران یا آئین کی عزت کا بحران ۔۔علی انوار بنگڑ

آئینی بحران یا آئین کی عزت کا بحران ۔۔علی انوار بنگڑ

1956کا آئین لپیٹا گیا ہم خوش ہوۓ۔
ایوب خان چور راستے سے اقتدار پر قابض ہوۓ۔ جمہوری عمل میں ہیر پھیر کی، ہم خوش ہوۓ۔ ایوب خان ناکام ہونے لگے، ناکامی کے ڈر سے جنگ چھیڑ دی۔ جنگ کی آگ میں ملک جلتا دیکھ کر ہم خوش ہوۓ۔ ایوب نے دیکھا کہ ہم جنگ لمبے عرصے تک نہیں لڑسکتے، ٹیبل ٹالک پر چلے گئے۔ ہم ذرا سے افسردہ ہوۓ۔ ایوب خان اگلے جرنیل سے ڈیل کرکے اتر گئے کہ وہ پوری ایمان داری سے انتخابات کرائے گے اور اقتدار کی کرسی جیتنے والے سویلین کو سونپی جائے گی۔ انتخابات ہوۓ اور انتخابات کے نتائج یحییٰ خان کی مرضی کے خلاف تھے۔ یحییٰ خان نے اقتدار سونپنے کی بجائے بہانوں سے کام لینا شروع کیا۔ جس کے نتیجے میں بنگالیوں نے (جو پہلے سے ہی ہمارے معتبر راہنماؤں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے بھرے پڑے تھے) احتجاج شروع کردیا۔ احتجاج کا سیاسی حل نکالنے کی بجائے ہم نے بذریعہ طاقت روکنا زیادہ اچھا سمجھا۔ بدلے میں مکتی باہنی بنے۔ بنگال میں فوجی آپریشن شروع کروادیا اور شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرلیا۔ حالات زیادہ بگڑے اور ملک دولخت ہوا۔ ہم پھر سے خوش ہوۓ لو جی ہماری ننھی جان سے بوجھ ہلکا ہوا۔ بنگال میں پیدا ہی کیا ہوتا ہے اور ہر وقت تو سیلاب میں ڈوبا رہتا ہے۔ ویسے بھی وہ ہم سے جسمانی طور پر کمزور ہیں۔ ایسی تسلیاں دی اور بقیہ ماندہ ملک کا اقتدار بھٹو صاحب کے حوالے کر دیا گیا۔

حمود الرحمن کمیشن تشکیل دیا گیا جن کے ذمے لگایا کہ وہ سانحہ بنگال کے وجوہات تلاش کریں۔ رپورٹ بنی اور خاکی کے کہنے پر چھپا دی گئی۔ ہم پھر خوش ہوۓ۔ ستر کی دہائی میں ٹوٹا پھوٹا آئین بنا۔ عوام اور مذہبی جماعتوں کے جلسے جلوسوں کے پریشر کے نتیجے میں پارلیمنٹ کی مدد اور بھٹو صاحب کی کرم نوازی سے آئین میں مذہبی پنکچر لگنے شروع ہوۓ۔ ہم بہت خوش ہوۓ۔ جیسے اس خطے کو حاصل کرنے کا مقصد پالیا ہو۔ بھٹو صاحب نے سوشلزم کو آئین کا حصہ بنانے کے چکر میں صنعت کو کھڈے لائن لگادیا۔ باغیوں کو سبق دینے کے لیے بلوچستان آپریشن کا آغاز پھر سے کیا۔ ہم پھر خوش ہوۓ کہ غدار ٹھکانے لگیں گے۔ گرتے پڑتے انیس سو اناسی آیا۔ ملک میں بگڑتی صورت حال کو قابو کرنے کے بہانے ضیاء الحق آئین کو جوتے مارتے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ ہم پھر خوش ہوۓ۔ بھٹو کو نظریہ ضرورت کے تحت پھانسی لگا دیا گیا۔ اب تھوڑا سا عجیب لگا۔

افغانستان میں جنگ چل پڑی۔ سعودی ریال اور امریکی ڈالر کے سہارے ہم اس جنگ میں کود پڑے۔ عوام کو کہا گیا یہ ایک اسلامی جنگ ہے۔ لفظ اسلام آتے ہم ویسے ہی عقل کے دریچے بند کردیتے ہیں۔ تو ہم پھر سے بہت خوش ہوۓ۔ اشرافیہ جہاد کے نام پر دولت لوٹنے لگ گئی اور عوام جہاد کے نام پر ثواب سمیٹنے لگ گئی۔ آئین میں مذہبی پنکچر لگانے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ پھر ایک جہاز پھٹتا ہے۔ ضیاء الحق چلے جاتے ہیں، ہم پھر خوش ہوۓ۔ الیکشن ہوتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو الیکشن جیت جاتی ہیں، لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہ منظور نہیں ہوتا تو کافی چیزوں پر سمجھوتہ طے کر کے بے نظیر بھٹو کو اقتدار دیا جاتا ہے لیکن جلد ہی ان کے اقتدار کا سورج گل کر دیا جاتا ہے۔ پھر بے نظیر اور نواز شریف کے بیچ اقتدار کی نورا کشی چلتی ہے۔ جس کے اصل ماسٹر مائنڈ خاکی والے ہوتے ہیں۔ کبھی ادھر ڈیل کرتے تو کبھی اُدھر۔ ہر دو سے تین سال بعد آئین میں موجود چور راستوں کا فائدہ اٹھایا جاتا اور ایک دوسرے کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔ کفر کے اور غداری کارڈ کھیلیں جاتے ہیں۔ ہم ہر بار خوش ہوتے ہیں۔

اسی اثناء میں نواز شریف اور جرنیل پرویز مشرف کے درمیان معاملات کشیدگی اختیار کرجاتے ہیں۔ نواز شریف مشرف کو اپنا ماتحت آفیسر سمجھتے ہوۓ نوکری سے برخاست کردیتا ہے، یہ بات مانی نہیں جاتی لیکن دوسری طرف مشرف نواز شریف کو اپنا ماتحت وزیراعظم سمجھتے ہوۓ وزیراعظم کی نوکری سے برخاست کردیتا ہے۔ اور یہ بات مانی بھی جاتی ہے۔ یوں مارشل لاء کا ایک نیا دور آجاتا ہے اور ہمارے خوش ہونے کا بھی۔ نائن الیون ہوتا ہے، امریکہ افغانستان میں گھس آتا ہے۔ اب کی بار ہمیں طالبان کی مخالفت کے ڈالرز ملتے ہیں۔ بدلے میں پورے ملک میں پراکسی وار چل پڑتی ہے۔ بم دھماکوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ لیکن ڈالر دیکھ کر ہم خوش ہوتے رہتے ہیں۔ پھر بے نظیر اور نواز شریف واپس آجاتےہیں۔ بے نظیر بھٹو قتل ہوجاتی ہیں۔ اب ہم تھوڑے سے زیادہ افسردہ ہوۓ اور ملک گیر جلاؤ گھیراؤ کرتے ہیں۔ پاکستان کھپے کا نعرہ لگتا ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں۔ اور نتیجے میں مشرف کو جانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد لولی لنگڑی جمہوری حکومتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جسے ہائبرڈ جمہوریت کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ جن کا اسٹیبلشمنٹ کے بغیر چلنا محال ثابت ہوتا ہے۔ جو اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر ہوتا اسے اقتدار ملتا اور جس سے سر ناراض ہوتے اسے کیسز کا پنڈورا اور کفر و غداری کے فتوے ساتھ مفت ملتے ہیں۔

اب ایک بار پھر آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے۔ جو سیاسی قوتوں ماضی میں خود کھلم کھلا یا پس پردہ جمہوری اقدار پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں، آج اس آئین کی پامالی پر سراپا احتجاج ہیں اور جس جماعت نے کیا ہے وہ اسے عین جمہوری عمل قرار دے رہی ہے۔ معاملہ کورٹ میں جاتا ہے اور وہ رولنگ کو ریجیکٹ کردیتی ہے۔ آئین پر حملہ آور ہونے کا کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن ہم اس آئین شکنی پر خوش ہی ہوتے رہے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ جو ہے وہ آئین کی پامالی پر ہمارا خوش ہونا ہے ہمارا دیہاتی طبقہ ہے یا شہری، ہمارا پڑھا لکھا طبقہ ہے یا ان پڑھ اکثریت اس آئین شکنی پر خوش ہیں۔ ان کا خوش ہونا بنتا ہی ہے کیوں کہ انہوں نے قیام پاکستان سے اب تک اپنے آباؤ اجداد کو ان غیر آئینی اقدامات پر ہمیشہ خوش ہوتے ہی دیکھا ہے۔ جب بھی مارشل لاء لگا ہم میں سے اکثریت نے مٹھائیاں ہی بانٹی ہیں۔ اب بھی کسی بھی جماعت کے کارکن سے پوچھ لیں کہ آپ کس کو حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو پہلا جواب یہ ہی ہوگا کہ ان کی پسندیدہ جماعت کو اقتدار ملیں۔ اگر کہیں یہ ممکن نہیں ہے تو آپ کا دوسرا انتخاب کیا ہوگا تو زیادہ تر کا جواب مارشل لاء ہی ہوگا۔

اور سارا مسئلہ ہی یہ ہے ہماری یہ خوشی ہی غیر جمہوری قوتوں کو شہ دیتی ہے جو جب مرضی ہمارے لولے لنگڑے آئین کو روند دیتے ہیں۔ ہم نے کبھی جمہوری اقدار کو پنپتے دیکھا ہی نہیں، اس لیے دہائیوں سے چلا آرہا یہ کٹھ پتلی تماشہ ہمیں جمہوریت سے منحرف کرتا چلا آرہا ہے۔ جب بھی آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوا ہے۔ ہم خوش ہوۓ ہیں۔ کیوں کہ اس آئین کی عزت ہوتے ہم نے کبھی دیکھی ہی نہیں ہے۔ کبھی اس پر شب خون مارا گیا تو کبھی نظریہ ضرورت کے تحت عدالتوں کے ذریعے اس کی بے توقیری کی گئی۔ اسی وجہ سے لوگ آمرانہ قوتوں کے سحر میں مبتلا ہیں۔ جس پارلیمنٹ نے عوام کو ان کے آئینی حقوق حوالے سے شعور دینا تھا۔ وہ آمروں کو تحفظ دیتی رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کاش وہ دن آۓ جب جمہوریت صیح معنوں میں بحال ہو۔ جب غیر جمہوری مزاج کی پسپائی ہوں۔ کاش وہ دن آۓ، جب لوگ اپنی سیاسی، شخصی اور مذہبی وابستگیوں اور اداروں کی محبت سے بالا تر ہوکر اس ملک کے آئین کی سر بلندی کے لیے کام کریں۔ کسی میں اس پر شب خون مارنے کی ہمت نہ ہو۔ اور یہ آئین صیح معنوں میں عام عوام کے حقوق کا محافظ بنے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply