ملکہ نے دل پر پتھر رکھ کر بادشاہ کے اس فیصلے کو قبول تو کر لیا لیکن کچھ عرصہ بعد پرندوں و جانوروں کی بدولت اپنے پسندیدہ باغ کو پہنچنے والے معمولی نقصان سے دوبارہ دلبرداشتہ ہو گئی اور بادشاہ کے سامنے دکھی لہجے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ باغ اسے بہت عزیز ہے اور وہ اس کی بربادی نہیں دیکھ سکتی۔ حالانکہ پرندوں کی وجہ سے ہی تو باغ میں رونق تھی جو اس میں اپنے سر بکھیرتے تھے اور مزید خوبصورتی کا باعث تھے‘ باغ میں چہچہاتے پرندے کسی اچھے نہیں لگتے لیکن پتہ نہیں ملکہ کو ان سے کیا چڑ تھی‘ جھوٹی انا‘ نام نہاد ضد‘ عدم برداشت‘ خود پرستی اور مقدمہ ہارنے کا دکھ بھی ایک وجہ ہو سکتی تھی‘ پرندوں کے بغیر تو باغ صرف شہر خاموشاں کا منظر ہی پیش کر سکتا ہے‘ پرندے فطرت کا حسن ہیں‘ شام سے ذرا پہلے کوؤں کی جھنڈ کی شکل میں اپنے مسکن کو جاتے ہوئے پرواز کس کو نہیں بھاتی؟ہم انسان یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ دنیا صرف میرے لیے ہی تخلیق کی گئی ہے‘ میں اکیلا ہی اس کا مالک بنوں‘ ہر کوئی میری ہاں میں ہاں ملائے‘ کوئی مجھ سے اختلاف کرنے کی جرأت نہ کرے‘ صرف میری چودھراہٹ کا بول بالا ہو اور دوسرے میرے مطیع و غلام بن کر رہیں‘ میں اپنی گلی میں سے کسی کو گزرنے نہ دوں‘ گاڑی پارک نہ کرنے دوں‘ کوئی دوسرا کیسے مجھ سے بڑا و خوبصورت گھر بنا لے وغیرہ وغیرہ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا جتنی میری ہے‘ اتنی ہی دوسرے کی بھی ہے‘ میں اکیلا پیدا کیا گیا ہوں نہ اکیلا یہاں بھیجا گیا ہوں اور نہ اکیلا زندگی گزار سکتا ہوں‘ کسی نے کیا خوب فرمایا ہے‘
؎ نہ کر بندیا میری میری تو اے خاک دی ڈھیری
کوٹھیاں بنگلے سب ٹر جانے جدوں لیکھاں نے اکھ پھیری
؎مقام شکر ہے صوفی کہ خدا کے ہاتھ ہے روزی
اگر یہ حق بھی انساں کو دیا ہوتا تو کیا ہوتا
خیر بادشاہ نے مجبور ہو کر باغ کو نقصان پہنچانے والے جانوروں و پرندوں کی گرفتاری کا حکم صادر فرما دیا اور مسئلے کے مستقل حل کے لیے وزراء و مشیران کا اجلاس بلا لیا‘ ساتھ ہی قید شدگان کی برادری کو اپنے نمائندے کے ذریعے فلاں دن و وقت کھلی کچہری میں پہنچنے کی ہدایت کر دی۔
پرندوں و جانوروں نے دوبارہ چڑے سے اپنا نمائندہ بننے کی درخواست کی جو اس نے ان کے بے حد اصرار پر قبول کر لی اور اپنی برادری کی مدد کے لیے سوچ و بچار شروع کر دیا۔ فیصلے والے دن ماضی کی کوئی غلطی نہیں دہرائی گئی‘ سرخ قالین بچھا اور پھول رکھ دیئے گئے۔ بادشاہ و وزراء و دوسرے درباری قیمتی لباس زیب تن کر کے مقررہ وقت پر تشریف لے آئے‘ مدح سراح بادشاہ کی مدح سراحی میں مصروف ہو گئے لیکن ماضی کی طرح چدّہ اس دفعہ بھی وقت پر نہ پہنچ سکا۔ چدّے کی برادری کے سردار آپس میں چہ مگوئیاں کر رہے تھے کہ اس نے آج بھی ہماری عزت خاک میں ملا دی ہے‘ لوگ کیا سوچیں گے کہ یہ کیسی قوم ہے جو وقت کی قدر کرنا نہیں جانتی؟
کچھ دیر بعد چڑا پھدکتا ہوا دربار میں حاضر ہو گیا‘ آداب درباربجا لایا‘ بادشاہ و حاضرین کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے تو نہایت ادب سے معافی کا خاستگار ہوا اور اپنے دیر سے پہنچنے کی وجہ کچھ یوں بیان فرمائی کہ بادشاہ سلامت!خادم و عاجز و خاکسار مقررہ وقت سے بہت پہلے یہاں پہنچ جاتا لیکن راستے میں دو لوگ کسی بات پر جھگڑ رہے تھے‘ اردگرد بہت سے لوگ جمع تھے لیکن تماشائی‘ میں نے ان دونوں کو جھگڑا نہ کرنے کی درخواست کی اور سمجھایا کہ مکالمہ اور ایکدوسرے کی رائے کا احترام ہی اچھی بات ہے‘ جنگ و جدل و لڑائی جھگڑے سے کبھی معاملات حل نہیں ہوتے بلکہ مذاکرات ہی تمام مسائل کا واحد حل ہے‘ اس معاملے کی وجہ سے مجھے دیر ہو گئی جس کے لیے وہ دوبارہ تمام حاضرین مجلس سے معذرت خواہ ہے۔
بادشاہ نے تجسس سے پوچھا کہ وہ کس بات پر جھگڑ رہے تھے؟ چدے یا چڑے نے جواب دیا کہ عالی جان! وہ اس بات پر دست و گریبان تھے کہ دنیا میں منہ زیادہ ہیں یا ناک؟ ایک کہہ رہا تھا کہ منہ اور دوسرا ناک۔ بادشاہ و تمام حاضرین مجلس حیران ہوئے کہ یہ بھی کوئی بحث کرنے والی بات ہے‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جتنے منہ اتنے ہی ناک۔ بادشاہ نے پوچھا کہ پھر کیا فیصلہ ہوا؟ چدے نے کہا کہ ظل الٰہی! میں نے ان کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش کیا جس سے دونوں نے اتفاق کیا اور یوں ایک نہ ختم ہونے والی بحث کا خاتمہ ہوا‘ میں نے کہا کہ ناک جو ہیں وہ تو ہیں ہی ہیں لیکن جو منہ‘ اپنی کہی ہوئی باتوں سے مکر جائیں‘ جو سب کے سامنے کوڑ ماریں‘ کسی برتن کا ڈھکن نہ ہوں‘ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے کے لیے عوام سے جھوٹے وعدے کریں اور بعد میں بھول جائیں‘ جن کے قول و فعل میں تضاد روز روشن کی طرح عیاں ہو‘ صرف اور صرف گفتار کے غازی ہوں‘ کان کے کچے ہوں‘ جس نے کان میں کچھ کہہ دیا‘ اس کو سچ جان کر آگے پہنچا دیا‘ جو بولتے زیادہ اور کام کم کرتے ہوں‘ زمیں جنبش نہ جنبش گل محمد‘ جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم‘ جیسے محاوروں سے کوسوں دور ہوں تو ایسے منہ پھر منہ کہلانے کے حقدار نہیں بلکہ ناک (ایسا عضو جس سے رطوبت و فاصد مادے خارج ہوتے ہیں) ہی ہوئے ناں‘ لہٰذا دنیا میں ناک زیادہ ہیں۔ بادشاہ نے یہ بات سنی تو فوراََ سمجھ گیا کہ چِدّے نے یہ بات اس پر فٹ کرنے کے لیے تخلیق کی ہے‘ اس نے فوراََ گرفتار شدگان کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا اور آئندہ باغ کو نقصان نہ پہنچانے کی تلقین کی۔ پرندوں و جانوروں نے چڑے کو کاندھوں پر بٹھا لیا‘ نعرے لگائے اور چڑے کی ذہانت کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں