ملکی سیاست کا ہر باب مولانا کے ذکر کے بغیر ادھورا رہتا ہے ۔ حضرت جی کی معاملہ فہمی، سیاسی بصیرت اور جرات کا ایک زمانہ معترف ہے۔بات کرنے کو لب کھولتے ہیں تو علم و فضل کے موتی جھڑنے لگتے ہیں لگی لپٹی رکھے بغیر بڑی سے بڑی بات اس آسانی سے کہہ جاتے ہیں کہ مخاطب مارے حیرت کے انگلیاں دانتوں تلے دبانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔مستقل مزاجی مزاحمت اور جہد مسلسل دیکھیے، 2018 میں جب سے یہ حکومت بنی اسے گرانے کے لئے کمر بستہ ہو گئے ان کے ولولے اور جوش کو دیکھتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے انہیں اپنا سیاسی امام مقرر کر دیا اور بالآخر یہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے۔
کئی عشروں پہ مشتمل اقتدار ان کی جھولی میں پڑا رہا اور پہلی بار ایسا ہوا جب یہ کسی بھی ایوان کا حصہ نہ تھے،لیکن یہ عرصہ انگاروں پہ لوٹتے گزرا۔۔عمران خان کے خوب لتے لئے، اسے یہودی ایجنٹ کا لقب دیا اور اس کی حکومت کو ناجائز قرار دے دیا۔اس سارے عرصہ میں مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی خوب سنائیں۔
ایک جلسہ میں فوج کو مخاطب کر کے اس قدر دلکش اسلوب میں اسے حدود و قیود اور اوقات یاد دلائی کہ مخاطب جھوم اٹھے۔” آپ کی حیثیت ہمارے لئے ایسے ہی ہے جیسے آنکھ کی حفاظت پہ مامور پلکیں۔۔لیکن جب آنکھوں کی حفاظت پہ مامور پلکوں کا کوئی بال ٹوٹ کر آنکھ میں چلا جائے تو اسے نکال پھینکنا ہی نجات کا راستہ ہوتا ہے۔ ”
تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو مولانا فضل الرحمان ایک لمحے کو بھی اپنے فرض سے غافل نہ ہوئے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو واضح پیغام پہنچا دیا کہ اگر ہماری منشا کے مطابق فیصلہ نہ ہوا تو دم مست قلندر ہو گا۔
عاصمہ شیرازی کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ وہ فوج کے بارے میں کھل کر بات کریں گے۔اسی طرح ایک موقع پر حضرت جی نے اسٹیبلشمنٹ کو ان الفاظ میں جھنجھوڑا۔۔
” ہم اسٹیبلشمنٹ سے کہتے ہیں کہ وہ اس گندے کیڑے کے پیچھے سے نکل جائے ورنہ جو پتھر اسے ماریں گے وہ آپ کے سینے پر لگیں گے ۔”
لگتا ہے یہ قبولیت کی گھڑی تھی
دھمکی کار گر ثابت ہوئی
اسٹیبلشمنٹ نہ صرف عمران خان کی حمایت سے دستبردار ہوئی ، بلکہ اس کی مشکیں کس کر اکھاڑے سے ہی باہر پھینک دیا۔

ثابت ہوا کہ اب کی بار متحدہ اپوزیشن کو جو کامیابی ملی ہے اس کے پیچھے مولانا کا ہاتھ ہے۔اقتدار کی بھینس کو مولانا ہی اپنی لاٹھی سے ہانک کر وزارت عظمی کی کھرلی تک لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔مولانا کا اسلوب اس قدر دلکش لہجہ ایسا اٹل اور پیغام اتنا واضح ہوتا ہے کہ
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بھی بد مزہ نہ ہوا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں