ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان-تبدیلی؟۔۔سلیم مرزا

 ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان-تبدیلی؟۔۔سلیم مرزا/مشہور صحافی صداقت علی ناز اور میں موٹر سائیکل پہ جارہے تھے ۔ناکے پہ پولیس نے روک لیا ۔۔اس سے پہلے پولیس والا کچھ کہتا شیخ صاحب نے پوچھا
“اتنا ٹائٹ ناکہ کس لئے لگایا ہوا ہے کہ ہم صحافیوں کو بھی روک لیا “؟
پولیس والا کہنے لگا
“جناب اتوں آرڈر اے “اور ہمیں گذرنے کا راستہ دیدیا
میں نے کہا شیخ جی ۔آپ کے پاس تو آجکل کسی اخبار کا کارڈ نہیں ہے ۔اگر وہ آپ سے اخبار کا کارڈ مانگ لیتا۔؟
شیخ صاحب کہنے لگے “وہ بھی کوئی صحافی ہوتا ہے جسے کارڈ دکھا کر بتانا پڑے کہ میں صحافی ہوں ”

مجھے اپنا بچپن یاد آگیا ۔
جب ملک میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ بھی ہوتی تھی ۔اس زمانے میں بس کا سفر اتنی ہی خوشی دیتا تھا جتنی خوشی نیازی کے جلسے میں یوتھیوں کو ہوتی ہے ۔
میں اس کے سرکاری جلسوں کی بات نہیں کررہا ۔نیازی کے سرکاری جلسوں کا انتظام پٹواریوں نے کیا تھا ۔ان میں وہ بیساختگی اور “خوبصورتی “کہاں تھی, جو اسپانسرڈجلسوں میں ہوتی ہے ۔
بس میں فری سفر کا کارڈ بھٹو کی دین تھا ۔چنانچہ ہر طالب علم جسے وہ کارڈ مل جاتا وہ ایسے اکڑ کر سفر کرتا جیسے انڈیا سے ستر ہزار فوجی وہی واپس لایا ہو ۔
میرا پہلا سفر گوجرانوالہ تک کا تھا ۔
ہم چار تھے اور کنڈیکٹر اکیلا ۔چھٹی جماعت کے بچوں کو وہ ایک ایک بھی لگاتا تو ساتویں کا دودھ آجاتا مگر اس نے کارڈ دیکھے بغیر ہی ہمیں پروٹوکول دیا ۔ طاقت کا یہ پہلا مظاہرہ ایسی ہمت دے گیا کہ پھر ہم اکیلے بھی کنڈیکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتانے لگے
“اسٹوڈنٹ “۔
پھر کتنے ہی سال گذر گئے وہ گیدڑ پروانہ نہ کسی نے دیکھا نہ ہم نے دکھایا ۔
ہم سمجھ گئے کہ وہ بھی کوئی اسٹوڈنٹ ہے جسے کارڈ دکھا کر بتانا پڑے کہ میں اسٹوڈنٹ ہوں ۔
چنانچہ اسکول جانے کی بجائے کامونکی بس اسٹاپ پہ کھڑے سوچتے کہ اگر گوجرانوالہ کی طرف سے بس پہلے آگئی تو لاہور گھومیں گے اور اگر لاہور والی سائیڈ سے آگئی تو آج گوجرانوالہ کی خیر نہیں ۔
کبھی کبھار کوئی “اڑھب “کنڈیکٹر بھی ٹکر جاتا ۔اور بیچ راستے میں کہیں اتار بھی دیتا ۔ہمیں اگلے بس اسٹاپ تک پیدل چلنا پڑتا ۔
میں نے خود نوازشریف کو پنڈی سے لاہور جی ٹی روڈ پہ پیدل آتے دیکھا۔

اس کارڈ کے ساتھ ایک اخلاقی مسئلہ بھی تھا ۔بحیثیت طالب علم ہمیں سواری کیلئے سیٹ چھوڑنا پڑتی اور اکثر سفر کھڑے ہوکر ہی کرنا پڑتا ۔سیٹ پہ بیٹھ کر سفر کرنے کا موقع بہت کم ملتا ۔
اب تو وہ اخلاقیات ہی نہیں رہیں۔

جب نیازی آیا تو نواز شریف نے دیکھ لیا کہ ٹکٹ لے کر آیا ہے ۔
چپ چاپ سیٹ چھوڑدی ۔۔
نیازی نے تھوڑی اکڑ دکھائی ۔یہ غیر اخلاقی حرکت تھی ۔مگر کنڈیکٹر نے پھر بھی اٹھادیا ۔اب ڈنڈا پکڑے کھڑا ڈرائیور کو کوس رہا ہے ۔
شکر ہے ڈرائیور مڑ کے نہیں دیکھ رہا ۔ورنہ بس روک سواریوں کو ساتھ ملا کر مارتا ۔۔۔
جیسے کل آدھ گھنٹہ پنجاب اسمبلی کی بس روکی گئی ۔
سنا ہے پرویز الہی سڑک پہ کھڑا بدعائیں دے رہا ہے ۔
اور بس نکل گئی ہے ۔
سرکاری بسوں میں مزےمزے کی سیاسی ہدایات بھی لکھی ہوتی تھیں ۔
“سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے، کسی گمشدگی کی صورت میں عملہ ذمہ دار نہیں ہوگا ”
دیکھ لیجئے ۔ذرا نظر ہٹی نہیں اور, ایم کیو ایم چوری ہوگئی۔بیس ایم این اے جس شاپر بیگ میں تھے وہ کھسک کر پچھلی سیٹ پہ چلا گیا ۔
نیازی چیختا رہا, شاپر میرا ہے ۔عملے نے کسی ذمہ داری سے صاف انکار کردیا ہے ۔

“فرنٹ سیٹ پہ سونا منع ہے ”
پنجابی ہونے کی وجہ سے پہلے پہل میں سمجھتا رہا کہ یہ ہدایت حاملہ خواتین کیلئے ہے ۔
بعد میں سمجھ آئی کہ ڈرائیور کے ساتھ والی سواریوں کیلئے تھی ۔ڈرائیور جاگتا ہے تو آپ سکون سے سوتے ہو ۔اگر آپ کی وجہ سے ڈرائیور کو اونگھ آگئی تو۔۔۔؟
لہذا اگر فرنٹ پہ ہو تو جاگدے رہو ۔ڈرائیور پہ نہ رہو ۔۔بس اگر کچے میں اتر گئی تو قصور تمہارا ہوگا کہ تم سو رہے تھے

julia rana solicitors

ایمرجنسی گیٹ
یہ گیٹ عموماً غلط سائیڈ پہ درمیان میں ہوتا ہے. نوجوانی میں اکثر ہم اس کا ایمر مٹا دیا کرتے تھے ۔
اس گیٹ کو سیاست دان این آر او کہتے ہیں ۔راولپنڈی کا ایک سیاست دان خود کو ایمر جنسی گیٹ نمبر چار کی پیداوار بتاتا ہے ۔
حالانکہ اس کی ذمہ داری نہ گیٹ کے اندر والے لیتے ہیں اور نہ باہر سے ابھی تک کوئی دعویدار سامنے آیا ہے ۔ویسے اس گیٹ کی حالت ایدھی کے جھولے جیسی ہے ۔عوام سے کہا جاتا ہے کہ مسترد شدہ سیاسی جماعتوں کو کوڑے میں نہ پھینکیں جھولے میں ڈال دیں ۔بائیس  سال بعد شاید اس قابل ہوجائیں کہ اپنے پاؤں پہ چلنے لگیں ۔
لیکن ایسا ہوا نہیں ۔بقول پرویز الہی کہ نیپیاں بدل بدل کر چارسال نکلوائے ۔ لاڈلا پھر بھی “کچھڑ “سے اترنے کو تیار نہیں تھا ۔
پھر بھی انہوں  نے گود سے اتار دیا ۔
ہم فارن فنڈنگ سے گندے پیمپر کو نظر انداز بھی کردیں تو اس کا مسلسل رونا نہیں رکنے والا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply