” ہر سال مئی کے دوسرے اتوار ماں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔امسال بھی 8 مئی 2022 کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماں کا عالمی دن منایا جائے گا ۔اسی مناسبت سے قارئین کے تجسس اور ایک ماں کی عزت و وقار کو برقرار رکھنے کے لئے حقائق بھری باتوں اور اقداروروایات کے ساتھ ان تمام بچوں کے نام جن کی مائیں زمانے کے دکھ اور مصائب جھیل کر ان کی پرورش میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتیں ۔کچھ تلخ اور ترش تجربات کے ساتھ احساس و وفا سے پُرخلوص تحریر ماں کے مقام ومرتبہ کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ باتوں اور یادوں کے گلدستہ کے ساتھ قارئین کی نذر پیش کر رہا ہوں ”
لفظ عورت ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کا روپ دھارے اپنی پہچان میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ لفظ جس بھی روپ میں ڈھل جائے گلابوں جیسی خوشبو بکھیر دیتا ہے۔
آج دنیا میں معاشرتی رونق کا بول بالا اسی ممتا سے ہے جس کے پاس بے لوث محبت کا خزانہ ہے ۔
وہ اس خزانہ کو بغیر کسی شرط کے اپنی اولاد تک منتقل کر دیتی ہے۔
پھر اولاد اسے دوگنا کرتی ہے یا اجاڑ دیتی ہے وہ اس کی خود صوابدید ہے۔کیونکہ ہر ایک چیز کو خرچ کرنے کا انداز ہوتا ہے۔اس کی ایک خاص ترتیب ہوتی ہے جو اسے پھل دار یا بے پھل بناتی ہے۔
اگر آج اس دنیا میں ماں کا وجود نا ہوتا تو یہ دنیا ادھوری ہوتی ۔انسان میں احساس، وفا، نیکی ، ایماندار ی، حلم، محبت ،خوشی ،عزت ، نظم و ضبط ، اقداروروایات اور احساسات و جذبات کے نام جیسی چیز نہ ہوتی بلکہ اس کی شخصیت ایک بُت کی طرح ہوتی۔کیونکہ روح زندگی کا احساس ہے اور جسم اس کے ہاتھ کی کاریگری۔خدا کی ہر نعمت اتم ہے۔جس کا نہ تو شمار کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کا کوئی دوسرا نعم البدل ہو سکتا ہے ۔ البتہ اس احساس کو احسانات کا قرض محسوس کر کے زندگی کی خوشیاں دوبالا کی جا سکتی ہیں۔اس عمل کے لیے مثبت سوچ کی غذا چاہیے، تاکہ نئے سرے سے جذبات کو وہ توانائی مل جائے جس کی فی الوقت ضرورت ہے۔
ہم ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں گناہ کا جگہ جگہ شور ہے۔ ہنگامے ، شکوے شکایتیں ، لڑائی جھگڑے ، اور ظلم و ستم کی انمٹ واقعات سننے کو ملتے ہیں۔جنہوں نے معاشرے کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔جہاں سے نکلنا اور بچنا مشکل ہو گیا ہے۔
ہماری سوچ کو جو باتیں گرہ لگاتی ہیں۔ وہ ہماری ذہنی پسماندگی اور جہالت کی گرد ہے جو سوائے انسان کو ذلت کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ البتہ جب مثبت سوچ ہماری آبیاری کرنا شروع کرتی ہے تو دل میں نئی کو نپلیں ، نئی کلیاں اور نئے پھول کھلنے لگتے ہیں۔ماحول خوشگوار ہوجاتا ہے۔جس کی بدولت نئے خیالات مجسم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ایسا احساس اور کرامات اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے۔جب ہمارے اندر ایمان و عمل کی روح پروان چڑھنا شروع ہوتی ہے ۔
وقت ،حالات، موسم اور ماحول خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو؟
اگر نیت صاف ، ارادے پختہ اور جذبات سچے ہیں تووہ کام ہو کے ہی رہتا ہے۔رہا سوال ماں کی عزت و تکریم کا وہ ہر زمانے میں رہی ہے اور جب تک دنیا قائم و دائم ہے۔
یہ سلسلہ اسی طرح اپنی تاریخ رقم کرتا رہے گا۔
یقینا ً ہمارے دلوں میں احساس کے شگوفے پھوٹتے رہیں گے ، وفا کے جذبات جوش مارتے رہیں گے ،طلب اور تڑپ بڑھتی جائے گی ، احساس محرومی احساس جوش میں بدل جائے گی، ماں کی دعا سے ہماری کامیابیوں کا تناسب بڑھتا جائے گا۔ یہ باتیں عمل کی شروعات اور پختہ شعور کی وضاحت کرتی ہیں۔اگر آپ کے پاس ایمان کی قوت ، عمل کی نیت اور حاصلات کی کنجی ہے۔تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔یہ فوق الفطرت سچائی ہے جو اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے، کسی کنارے لگ جاتا ہے۔
لفظ ماں حقیقت کے نور سے منور اور محبت کے پرچار میں بے لوث ہے۔اس چراغ سے ہمیشہ روشنی ہی نکلتی ہے جو جہالت کے ناسور جلانے کے لیے کافی ہے۔
اگر ماں کو محبت کی دیوی کہا جائے ، رشتوں کا انمول موتی کہاں جائے ، احساس کی ملکہ کہا جائے ، اتحاد و یگانگت کا درس دینے والی پیکر ، اپنی خوشیاں دوسروں پر قربان کرنے والی ہمدردی کے زیور سے آراستہ فاختہ تو یہ باتیں صداقت کا لباس پہن کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیں گی۔ کیونکہ حقیقت ہمیشہ زندہ رہتی ہےجس کے آثار و نشانات ، اثرورسوخ ، اور کرشماتی عناصر اپنا وجود نہیں بدلتے ۔اگر ہم اس سچائی پر دلجمعی سے غور و خوض کریں تو ہمیں بہت سی باتوں کا احساس ملے گا۔خاص طور پر ایک ایسی ہستی کی صفات جاننے کا موقع ملے گا جس کا چرچا زبان زد ملے گا۔
اس کا خلاصہ شروع سے آخر تک ایسے اوصاف کی وضاحت پیش کرتا جائے گا جہاں دلچسپی بڑھتی جائے گی۔یقین جانیے !
قدرت نے جو دل ایک ماں کو دیا ہے وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں۔ کیونکہ ماں کا ہی ایک ایسا دل ہے جس سے محبت کی بھاپ ، خوشیوں کی کلیاں ، وفا کے شگوفے ، آنکھوں میں وفا کی تصویر ، اور ہر دکھ سہنے کا جذبہ موجود ہے۔ ماں ایک ایسے پودے کی مانند ہے جو اپنی قسمت کے سارے پھول اپنی اولاد پر نچاور کر دیتی ہے۔ فطرت ایسی جس میں نہ کوئی کھوٹ ، نہ ملاوٹ ،نہ لالچ ،نہ کوئی غرور ، نہ کوئی فرقہ واریت کا تصور بلکہ ہر بچے کے لیےاپنے لبوں پر دعا کا بخور جلاتی ہے۔
وہ اپنی وفاداری کا یہاں تک ثبوت پیش کرتی ہے کہ اولاد کی راہ میں دکھوں کے بکھرے کانٹوں کو چن کر ان کے لیئے سکھ کا راستہ ہموار بناتی ہے۔
اگر اسے تربیت کی ملکہ اور درسگاہ کی پہلی استاد کہا جائے تو جواب بالکل درست ہوگا۔ وہ اولاد کے لئے دو طرح کے فریضے سر انجام دیتی ہے۔پہلا جسمانی نشوونما اور دوسرا روحانی تربیت جو اس کی کوشش کا ایسا ثبوت ہے جسے کوئی بھول نہیں سکتا ،مٹا نہیں سکتا ، پاؤں تلے روند نہیں سکتا ،بلکہ ہر کسی کی زبان پر اقرار کا ورد ہوتا ہے جسے سر جھکا کر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
برعکس اگر ہم ماں کی خدمات کا انکار کرتے ہیں تو ہم اس کی وفاداری کے اجر کو اپنے پاؤں تلے روند دیتے ہیں ۔
یہ بوکھلاہٹ اور ناانصافی کی کھلی تصویر ہے۔جو ہماری نفسیاتی، اخلاقی، روحانی اقدار کی لمحہ بہ لمحہ ورق گردانی کرتی ہے۔ آج عصری تقاضوں میں وقت ہم سے پوچھتا ہے؟ ہماری سوچ کس زاویے پر بنتی ہے ؟ دونوں پہلوؤں کی رسی ہمارے ہاتھ میں ہے۔
لیکن سوال ہے ہم نے کس پہلو پر اپنی بنیاد کھڑی کرنی ہے؟ اور کس پہلو کو مسمار کرنا ہے؟ ان باتوں کا خلاصہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ہم نے کس چیز کو ترجیح دینی ہوتی ہے۔ یہ ہمارے ذہن سے پھوٹنے والے خیالات ہمیں بتا دیتے ہیں۔یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خیال جتنا زیادہ مثبت ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ پھل دار ہوگا اور ہوا کے دوسرے رخ پر خیال جتنا زیادہ منفی ہوگا اس کی شدت اتنی ہی تکلیف دے ثابت ہوگی۔اگر ہم عزت نفس کا خیال رکھنا جانتے ہیں تو ہمارا شمار صعودی گنتی میں ہوگا۔جو ہماری منزل کی نشاندہی کرے گی اور ہمارے اندر ایک مثبت تحریک پیدا کر کے ہماری قدوقامت میں اضافہ کردے گی۔
اگر ہم اپنی ذات کو سرخاب کے پر لگانا چاہتے ہیں۔
تو پھر ماں کی عزت و وقار کا پیمانہ ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔جو ہمیں دنیا کی دلدل اور انسانوں کی ذلت و رسوائی سے بچا سکتا ہے۔ہماری نیک نامی میں اضافہ کر سکتا ہے۔ہمارے قدوقامت کو بڑھا سکتا ہے۔
اگر ہم خشک زمین پر پھوٹتا ہوا چشمہ دیکھنا چاہتے ہیں۔توماں کی دعا کو اپنی محنت کے ساتھ شامل کر لیں۔
تو معجزہ صادر ہوتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
یقیناً ہمیں جسمانی طور پر بھی خوشی ملے گی اور روحانی طور پر بھی آسودگی ۔یہ قانون قدرت ہے جو اس کی پیروی کرنا سیکھ لیتا ہے وہ روحانی اور جسمانی طور پر دولت مند ہو جاتا ہے۔
آج عالمی یوم ماں ہم سب کو اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ جس ماں نے دکھوں کی مشق حل کی ہوتی ہے۔وہ زندگی کے اتار چڑھاؤ سے یعنی مشکلات سے بخوبی واقف ہوتی ہے۔
وہ دکھ سکھ کے ہر کلیے سے واقف ہوتی ہے کیونکہ اس نے کانٹوں پر چل کر بھی سفر کیا ہوتا ہے اور پھولوں کے باغیچے میں بھی۔
اس لیے ماں دکھوں کے کرب اور خوشیوں کے موسم سے واقف ہوتی ہےکہ وہ کب لوٹ کر آتے اور پھر چلے جاتے ہیں۔
ماں کو قدرت نے ایک ایسا دل دیا ہے جس میں ہمارے بچپن کی یادیں ، جوانی کے خواب یا بڑھاپے کے آثار شامل ہوتے ہیں ۔ نا جانے کیوں اس کے دل میں ہمیشہ محبت کے پھول اور چاہت کی کلیاں کھلی رہتی ہیں۔اس کی خاموش آنکھیں ہمارے ہر دکھ کے اشارے کو سمجھ لیتی ہیں۔یعنی اس کی آنکھوں میں چاہت کے جو منظر بنتے ہیں۔ان کی دلکشی اس قدر فریفتہ ہوتی ہے جہاں وہ توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔
یقین کیجیے! ایسی فضیلت کا تحفہ کس کے پاس ہو سکتا ہے۔اب زندگی میں ہر رشتے کی آزمائش کر کے دیکھ لیں۔
آپ کو کسی رشتے میں ایسی مٹھاس ٹھنڈک، احساس،
تڑ پ ، لگن اور سچائی نہیں ملے گی۔آپ اسے زندگی کا تجربہ سمجھ لیں یا حقائق کا نمونہ۔وصف و وزن دونوں باٹ میں پورا پورا نظر آئے گا۔
یاد رکھیں عزت، حیات اور دولت خدا کی ودیعت ہے ۔
وہ جسے چاہے اپنے خزانہ سے بے لوث بانٹ دیتا ہے۔یہ اس کی منشا ہے کہ اس نے کسی کے ہاتھ پر زندگی کی لکیریں کھینچ دی ، کسی کے ماتھے پر عزت کا لیبل لگا دیا ، اور کسی کا دامن دولت سے بھر دیا۔بہرحال یہ تقسیم کا عمل ہے ۔اسے وہی جانتا ہے جس نے کائنات کا ایک خاص ترتیب سے ڈھانچہ بنایا۔یہی تسلسل ہاتھوں کی لکیروں کا ہے۔
کوئی لکیر اونچی ہے اور کوئی نیچی ہے۔سب کی جدا جدا حیثیت و مرتبے ہیں۔وہ جس فیاضی کے ساتھ بانٹتا ہے۔
یہ اسی کے سب کرشمات ہیں ۔انہیں کون دریافت کر سکتا ہے ؟ اسی طرح ماں کے خلوص اور محبت کو کون دریافت کر سکتا ہے ؟ ہم سب ایسے باکمال نصیب سے واقف ہیں۔
آئیں! اگر آج آپ کا ضمیر ملامت کرتا ہے۔تو اپنی زندگی کے تمام گلے شکوے مٹا کر اپنی ماں سے کچھ کہہ دیں ۔کچھ سن لیں ۔اور سب سے بڑھ کر اس کے خلوص اور پیار کو جو بارش کی طرح برستا ہے۔اس سے فیض ضرور حاصل کریں۔یہ اچھا موقع اور وقت ہے ۔اسے ضائع نہ ہونے دیں ۔کیونکہ یہ وقت کی پکار اور زندگی کی ضرورت ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں