مری چشم بینا سے پٹّی تو کھولو
مجھے دیکھنے دو
یہ کیا ہو رہا ہے؟
یہاں جنگ کی آگ میں جلتے ملکوں سے
بھاگے ہوئے مرد و زن، صد ہزاروں
سمندر کی بے رحم لہروں میں غرق ِ اجل ہو رہے ہیں۔
یہاں یوکرینی خدا ترس شہر ی
لگاتار بمباریوں سے تحفظ کی خاطر
ادھر سے اُدھر بھاگتے پھر رہے ہیں۔
یہاں بے زباں باقیات زمانہ
ہمارے پر اسرار ماضی کی سب بے بدل یادگاریں
زمیں بوس ملبے کے ڈھیروں میں اوندھی پڑی ہیں۔
یہاں بیسیوناتواں نو نہالوں کے اٹھتے لڑکپن کو
جنسی تشدد سے برباد کرنے کی قربان گاہیں کھلی ہیں۔
یہ کیا ہو رہا ہے؟
یہاں چین سے آمدہ وائرس نے
ہر اک سمت دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں
بڑے بوڑھوں، بچوں ، جواں مرد و زن کو
فقط چند ہفتوں میں مرگ آشنا کر دیاہے۔

مجھے اب نہ روکو
کہ یہ نظم لکھ کر
میں لقوہ زدہ وقت کے ٹیڑھے منہ پر
بہت زور سے تھوکنا چاہتا ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں