اڑھائی سال پہلے صبح صبح ہماری جماعت میں ایک شخصیت نمودار ہوتی ہے ۔درمیانہ قد ،بال سلیقے سے اپنی جگہ پر ،گندمی رنگت لیکن پُرکشش نین نقش ،ستواں ناک ،نیا استری شدہ سوٹ اور ہاتھ میں فائل لیے اندر داخل ہونے والی یہ شخصیت سر دانیال رضا انصاری صاحب تھے جن کا ہماری جماعت میں Phonetics and phonology کا پہلا لیکچر تھا ۔
پہلے لیکچر میں تعارفی کاروائی کے بعد ہمیں یونیورسٹی کے نشیب و فراز سے آگاہی دینے کے بعد ہمیں جانچنے کا ایک انوکھا اور منفرد ٹاسک سونپ دیا گیا ۔
کہا گیا کہ “who am I “پر اپنے خیالات قلمبند کریں۔ہر کسی نے اپنی استطاعت کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔میں نے بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں پانچ چھ لائنیں لکھیں ۔اگلے چند دن اسی طرح نارمل روٹین کے مطابق بسر ہوئے پھر چند دن بعد میرا نام مضمون نویسی میں حصہ لینے والے افراد میں شامل تھا اور مجھے آخری اوقات میں معلوم ہوا کہ میں نے لکھنے بھی جانا ہے ،حادثاتی طور پر میری پہلی پوزیشن آگئی ،وہ دن میری زندگی کا Turning moment تھا,اگرچہ میں نے کچھ انعامات اور شیلڈز میٹرک کی بنیاد پر حاصل کی تھیں لیکن اس طرح یونی ورسٹی کے لیول پر بِنا تیاری کے پہلی پوزیشن لینا اور اساتذہ کا انفرادی سطح پر حوصلہ دینا میرے لیے نئی چیز تھی۔پھر تو جتنے مقابلہ جات ہوئے سب میں اپنے آپ کو منوانے کی پوری کوشش کی لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ دو اساتذہ نے میرے جوہر کو سب سے پہلے پہچانا اور مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا جن میں سر صادق لاہوری صاحب اور سر دانیال رضا صاحب شامل تھے ۔میں یہ کریڈٹ ہمیشہ اپنے اوپر قرض سمجھتا ہوں اور اپنی منزل پانے کے بعد بھی اسے لوٹانے کا عزم رکھتا ہوں۔قصہ کوتاہ کہ سر دانیال صاحب نے طلباء کی نفسیات کو سمجھ کر ہمیشہ اُن سے ویسا سلوک کیا اور اُنہیں اُن کی متعلقہ فیلڈز میں ٹریننگ دینے کی کوشش کی ۔بچوں کے کندھے تھپتھپانا ،ان کے خاموش آنسوؤں کو سمجھ لینا ،ان کو چھلانگ لگانے کا گُر سکھانا اور بدقسمتی سے گرجانے والوں کو حوصلہ دینا ،انتظامی معاملات کو احسن طریقے سے نبھانا،اخلاق کا عملی مُظاہرہ کرکے اخلاق اپنانے کی ترغیب دینا محبت دینے اور محبت لینے کا ہُنر جاننا ،اخلاص اور مروت کا حسین مرقع ہونااور کردار کی پُختگی ایسے اوصاف ہیں جو میں اُن سے سیکھنا چاہوں گا ۔انہی مذکورہ اوصاف اور ان کا عملی نمونہ اپنے سامنے دیکھ کر میرے دل میں یہی حسرت اُٹھتی ہے کہ میں بھی زندگی کے کسی نہ کسی مُوڑ پر معلم بننا چاہوں گا۔

وہ ہمارے شعبے میں لیکچرار کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں لیکن جس انداز سے انہوں نے اپنی اہمیت کا احساس اس شعبے کو دیا ہے، وہ قابلِ تقلید ہے ،وہ اپنی ذمہ داری کو دیانت داری اور خلوص سے تکمیل تک پہنچانا جانتے ہیں اور اسی وصف کی بناء پر شعبے میں کسی نئے پروجیکٹ کے لیے ذمہ داری دینے کے لیے پہلی ترجیح اُنہی کا نام ہوتا ہے ۔اُنہیں معاملات کو سُلجھانے کا فن آتا ہے اور اتنی گھمبیر باتوں کو بھی اتنے ہلکے پھُلکے انداز میں رفع دفع کرادیں گے کہ آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے ۔وہ تمام طلباء کے ساتھ سلوک مساوات کے اصول پر عمل پیرا ہوکر کرتے ہیں لیکن کُچھ ایسے طلباء جنہوں نے زند گی میں میں کُچھ کرنے کی لگن اپنے ماتھے پر سجا رکھی ہو اُنہیں اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ وہ پہلے سے زیادہ پُرعزم ہوکر اپنے سفر پر نکل پڑتے ہیں اور پھر کامیابی سے اپنے ،والدین اور اساتذہ کے ماتھے پر پڑنے والی خیرہ کُن روشنی بن کر نکلتے ہیں جو نظر کے دھندلے پن کا نہیں بلکہ بڑھاوے کا باعث بنتی ہے ۔ میری خواہش ہے کہ جس طرح دانیال صاحب تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا کام کر رہے ہیں ایسے ہی تمام اساتذہ اپنے مقدس پیشے کے ساتھ انصاف کر پائیں اور ہماری قوم کے سپوت اپنے اپنے شعبہ جات میں مہارت کا استعمال کرکے ہمیں اس مَنجھدار سے نکال سکیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں