کس بات پر احتجاج؟۔۔محمد اسد شاہ

آزادی اظہار جمہوریت کا لازمی حصہ ہے – اچھے کام کی تعریف اور ظلم و زیادتی پر پُرامن احتجاج بھی اسی زمرے میں آتے  ہیں – پاکستان میں بھی بظاہر جمہوریت رائج ہے – اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے – جمہوریت کو ملک کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہیے – لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کی مضبوطی کی بجائے اس کی جڑیں کاٹنے پر زیادہ زور صرف کیا جاتا ہے –

آپ کو یاد ہو گا کہ عمران خان ، طاہر القادری اور شیخ رشید نے اپنے مشترکہ حامیوں سمیت 2014 میں ایک لانگ مارچ کیا اور پھر وفاقی دارالحکومت میں 126 دن تک نام نہاد دھرنا بھی دیا تھا – اس دھرنے کے لیے میں نے نام نہاد کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ اس دھرنے میں درحقیقت چند سو مقامی لڑکے لڑکیاں پکنک وغیرہ منانے کے موڈ میں کبھی کبھار شام کے وقت ریڈ زون میں آجاتے تھے، ورنہ عمران خان 126 دن تک خالی کرسیوں کو ہی خطاب کیا کرتا تھا ، اور ٹی وی چینلز کو “حکم” تھا کہ کیمرہ صرف خاں صاحب کے چہرے تک محدود رکھا جائے ، خالی کرسیاں سکرین پر دکھا کر خاں صاحب کے نازک جذبات اور لامحدود خواہشات کو مجروح نہ کیا جائے ۔ ذرا اس لانگ مارچ اور دھرنے کو یاد تو کیجیے – خود عمران ، عارف علوی، طاہر القادری اور شیخ رشید کی بھی کوئی باعث فخر یاد اس سے وابستہ نہیں ہے – اور ان چاروں کو اس سپانسرڈ ایڈونچر پر دل ہی دل میں شرم ہی آتی ہو گی – اسی لیے تو اس پر کبھی بات نہیں کرتے – عمران خان عوام کو اعلانیہ سول نافرمانی کرنے کی ترغیب دیتا رہا ، یوٹیلٹی بلز جمع کروانے سے روکتا رہا ، سڑکیں اور پورے پورے شہر بند کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا ، امن و امان کے قیام پر مامور سرکاری ملازمین کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے اور ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دیتا رہا – پارلیمنٹ پر باقاعدہ اوزاروں کے ساتھ حملے کیے گئے – سرکاری ٹیلی ویژن کے دفاتر پر عمران خان کے پارٹی پرچم بردار غنڈوں نے قبضہ کیا اور عملے کو ہراساں کرتے ہوئے تمام نشریات زبردستی بند کروا دیں – اس موقع پر خفیہ اداروں نے ایک ٹیلی فون کال بھی ریکارڈ کی جس میں مبینہ طور پر عارف علوی اور عمران خان کی گفتگو ہے – پی ٹی وی پر قبضے کے اس گھناؤنے جرم پر خوشی کا اظہار کیا گیا ، اور ایک دوسرے کو مبارک دی گئی – عارف علوی اور عمران خان اس واقعے پر عوام میں کھڑے ہو کر فخر کا اظہار نہیں کر سکتے – البتہ نجی محافل میں اگر اس کو اپنا کارنامہ کہتے ہوں تو میرے علم میں نہیں – اسی طرح طاہر القادری ریشمی کپڑے کا کفن بنوا کر ساتھ لیے پھرتے تھے – کوئی پوچھے کہ ریشمی اور چمکیلے کپڑے کا کفن کس مذہب میں رائج ہے – جب کہ طاہر القادری تو خود کو اسلام کا عالم قرار دیتے ہیں – جو لوگ قادری کے کارکن بنا کر پیش کیے گئے ، ان میں سے کئی بعد میں ٹی وی کیمروں کے سامنے روتے پیٹتے نظر آئے کہ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے غریب علاقوں سے تھا اور یہ کہ انھیں پانچ پانچ ہزار روپے اور تین وقت کے کھانے کے عوض صرف تین دن کے لیے لایا گیا تھا – شیخ رشید کو بڑبولا ، جگت باز اور بڑھک باز کہا جاتا ہے – میں نے پورے راول پنڈی ، اسلام آباد اور لاہور میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں دیکھا جو شیخ رشید کو سنجیدہ ، باشعور یا وضع دار سیاسی شخصیت مانتا ہو – خود شیخ رشید کے حامی بھی اس کی تقریروں کو شغل میلے ، ہنگامہ پروری اور تماشے کے طور پر لیتے ہیں – صرف ایک ہی نشست اس کے پاس تھی (اب استعفیٰ دے چکا) اور وہ بھی اس کی اپنی جیتی ہوئی نہیں تھی – اس کے مقابل مضبوط ترین امیدوار محمد حنیف عباسی کو مقررہ تاریخ سے بہت دن پہلے اچانک طلب کر کے نصف شب کے قریب سزا سنا کر انتخابی مقابلے سے باہر کیا گیا – جسٹس ثاقب نثار نے خود شیخ رشید کے ہمراہ اس حلقے کا دورہ بھی کیا – پی ٹی آئی ورکرز نے بھی اس کی انتخابی مہم چلائی اور اتنے سارے جتنوں کے بعد آخر کار گنتی کے معاملات “سیٹل” ہونے پر ہی وہ قومی اسمبلی کا رکن بنا – حیرت ہے کہ کس خفیہ قوت کے اشاروں پر ٹی وی چینلز اسے اتنی اہمیت دیتے ہیں – حالانکہ ملک بھر میں سینکڑوں ایم این ایز اور ایم پی ایز ایسے ہیں جو اپنی ذاتی مقبولیت کی بنیاد پر الیکشن جیتتے ہیں اور شفاف گنتی میں بھی شیخ رشید سے کئی کئی گنا زیادہ ووٹ حاصل کرتے ہیں – لیکن  چینلز ان کا نام نہیں لیتے – شیخ رشید اپنی تقریروں میں کیا کہتا تھا؟ “ڈنڈے اٹھاؤ ، ان کو گھروں سے نکالو ، مار ڈالو ، آگ لگا دو ، جلادو !”

Advertisements
julia rana solicitors

2014 کے اس بدنام لانگ مارچ اور دھرنے کی وجہ کیا تھی ، بظاہر کسی کو معلوم نہیں – عمران خان جو وجہ بتاتا تھا وہ کوئی پینتیس پنکچرز والی من گھڑت کہانی تھی جسے بعد میں ہونے والی تحقیقات کے دوران خود عمران خان نے اپنا سیاسی بیان کہہ کر جان چھڑائی اور کہا کہ کسی نے کہا تھا –
اب پھر عمران اور اس کے حواری وہی کہانی دہرا رہے ہیں – لانگ مارچ اور دھرنا ، لیکن کیوں؟ میں نے عرض کیا کہ احتجاج کی کوئی جائز اور ٹھوس وجہ ہونا چاہیے – پورے ملک میں کسی کو معلوم نہیں کہ عمران پارٹی کے اس نئے احتجاج کی کیا وجہ ہے؟ کس بات پر احتجاج کیا جا رہا ہے؟ کیا کوئی عمران خان کی سائیکل چھین کے بھاگ گیا اور پولیس ابھی تک مجرم کو گرفتار نہیں کر پائی؟ کیا عمران خان یا اس کے کسی ساتھی کی جیب کٹ گئی اور مقامی تھانے دار اس جیب تراش کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے انکاری ہے؟ آخر ہوا کیا ہے؟ ہوا تو یہی ہے ناں کہ قومی اسمبلی میں عمران کی اتحادی جماعتوں نے بدترین کرپشن اور نااہلی سے تنگ آکر اس کا ساتھ چھوڑ کر نیا وزیراعظم منتخب کر لیا – تو اس میں رونے پیٹنے ، اودھم مچانے اور پورے ملک کو انتشار اور فساد میں مبتلا کرنے والی کون سی بات ہے؟ عمران کی ہوس اقتدار لامحدود نظر آتی ہے ، لیکن اس ہوس کو پورا کرنے کے لیے پورے ملک ، کروڑوں عوام اور دوسری سیاسی جماعتوں کو برباد کیوں کیا جائے؟ احتجاج کی کوئی وجہ تو ہو – یاد رہے کہ جس طرح پی ٹی آئی کی مرضی ہے کہ جب چاہے کسی کے ساتھ چاہے اتحاد کرے اور جب چاہے اسے ختم کرے ، اسی طرح دوسری جماعتوں کو بھی یہی حق حاصل ہے – ورنہ بتائیں کیا تمام جماعتیں عمران کی غلام ہیں کہ جو یہ کہے وہی وہ کریں ؟ ایبسولوٹلی ناٹ !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply