نئی دہلی: بھارت میں اسلامی تنظیم کے رہنماؤں نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ حکمراں جماعت بی جے پی کے اراکین کی جانب سے دیے گئے گستاخانہ بیانات کے خلاف کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ معطل کردیں۔ اسی قسم کے اعلانات بعض مساجد سے بھی کیے گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی ’روئٹرز‘ کے مطابق یہ اپیل اس وقت کی گئی ہے جب بڑے احتجاجی مظاہرے پرتشدد ہونے لگے ہیں۔
بھارتی حکام کی جانب سے جاری احتجاج کو روکنے کے لیے آسام کے تین مسلم اکثریتی اضلاع میں پابندیاں اور امتناعی احکامات نافذ کردیے گئے ہیں۔ آسام کے تینوں اضلاع میں جلوس، ریلی، دھرنے اورپوسٹرز کی تقسیم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اترپردیش میں گرفتار سماجی رہنما جاوید احمد پرغیر قانونی ہتھیار رکھنے اور قابل اعتراض پوسٹرز رکھنے کے من گھڑت الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران دو مسلمان نوجوان جاں بحق ہوئے تھے جب کہ پولیس اہلکاروں سمیت 30 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے رکن ملک اسلم نے کہا کہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب کوئی اسلام کے متعلق گستاخانہ بات کرے تو وہ اس کے خلاف کھڑا ہو لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ امن و امان کو برقرار رکھا جائے۔
بھارت میں گزشتہ دنوں بی جے پی کی مرکزی ترجمان سمیت ایک اور رکن نے گستاخانہ بیانات دیے تھے جس پر مسلمانوں کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج اورعالم اسلام کی جانب سے دیے جانے والے عالمی ردعمل کے بعد حکمراں جماعت نے دونوں اراکین کو معطل کردیا تھا۔
پولیس نے بی جے پی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے تھے لیکن ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی تاحال نہیں کی گئی ہے جب کہ بھارتی پولیس نے احتجاجی مظاہروں کو آڑ بنا کر 400 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے، کچھ شہروں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے اور بعض مقامات پر انٹرنیٹ کی فراہمی بھی معطل کی گئی ہے۔
بھارتی حکام نے چند روز قبل سہارنپور شہر میں دو مسلمانوں کے گھر گرائے تھے اور اس کے بعد گزشتہ روز پریاگ راج میں ایک مسلمان محمد جاوید کا گھر گرا دیا تھا۔
بھارتی حکام کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان مسلمانوں نے جمعہ کے دن ہونے والے مظاہروں کو ہوا دی تھی جب کہ عالمی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں پولیس حکام نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ گھروں کو اس لیے مسمار کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔
یہاں یہ امر بھی حیرت انگیز ہی گردانا جائے گا کہ محمد جاوید کی صاحبزادی آفرین فاطمہ ہیں جنہوں نے حجاب کے معاملے پر پورے ملک کے دورے کیے اور یونیوسٹیز و کالجوں کے طلبا و طالبات سے ملاقاتیں کرکے انہیں آمادہ کیا کہ وہ اس حجاب کے مسئلے پر آواز بلند کریں۔
بھارت میں میڈیا رپورٹس کے مطابق آفرین فاطمہ نے نہ صرف اپنی جاری جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر ان کی حمایت پر ٹرینڈ بھی چل رہا ہے۔ نئی دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی میں آفرین فاطمہ اور ان کے والد محمد جاوید کے حق میں یکجہتی مارچ بھی کیا گیا ہے۔

کیرالہ میں پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا گیا ہے۔ اس دوران طلبہ رہنما عائشہ رینا کو پولیس سڑک پر گھسیٹتی ہوئی لے گئی جس کے بعد تھانے میں بھی نازیبا سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں