• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خیر و شر کی جدلیاتی کشمکش موجودہ سیاسی تناظر میں۔۔زاہد سرفراز

خیر و شر کی جدلیاتی کشمکش موجودہ سیاسی تناظر میں۔۔زاہد سرفراز

تصور ذات۔
جب بھی کوئی ذات سوچتی ہے ،وہ دو حصوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔ سوچنے کا یہ عمل ایک جیتی جاگتی ٹھوس مادی حقیقت میں وقوع پذیر ہوتا ہے، جس کو ہم دماغ کہتے ہیں، سائنس نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ دماغ کے دو الگ الگ حصے دائیں اور بائیں موجود ہوتے ہیں جن میں تضاد پایا جاتاہے ، دماغ اپنے افعال نیورانز کے ذریعے سر انجام دیتا ہے ، جبکہ جسم کا اینڈو کرائین سسٹم دماغ کے متوازی ایک نظام ہے، جو دماغ کی مخالفت کرتا ہے، جس کا مرکز دل ہے، دماغ کا زیادہ تر کام انسانی ذات کی بقا کو ممکن بنانا ہے، جبکہ دل کا کام انسانی وجود میں پیدا ہونے والی ضرورتوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔ گویا دل انسان کی وزارتِ  داخلہ ہے، جبکہ دماغ وزارتِ  خارجہ کے امور سر انجام دیتا ہے، جس میں دماغ کا ایک حصّہ دل کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ دوسرا حصہ دل کی مخالفت پر کمر بستہ رہتا ہے، انکے امور کی نوعیت کے لحاظ سے ہی ان میں تضاد جنم لیتا ہے، جس سے انسانی ذات میں کشمکش پیدا ہوتی ہے۔

چونکہ ہمارا موضوع دل اور دماغ کی سائنسی توجیہہ پیش کرنا نہیں ،اس لیے ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
جیسا کہ جب کوئی ذات سوچتی ہے وہ دو متضاد حصوں میں منقسم ہو جاتی ہے تو ان تضادات میں کشمکش جنم لیتی ہے، جس کے نتیجے میں خیر اور شر پیدا ہوتے ہیں۔
اور انسان جب علم حاصل کرتا ہے تو ضمیر یا عربی میں کہیں تو نفس لوامہ پیدا ہوتا ہے، جو خیر کی قوت کو شر کے خلاف  متنج  کرتا رہتا ہے، جس سے شر کے خلاف خیر کی قوت میں مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔

اس طرح انسانی ذات کا اصل معرکہ خیر و شر کے درمیان فرق کرنا ہے، اسی لیے انسان کو علم کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ انسان خیر و شر میں فرق کو جان سکے۔

یہاں یہ حقیقت بڑی واضح ہے کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے وہ اسکو خیر سمجھ کر ہی کرتا ہے، گویا شر کے خلاف انسانی ذات کا وہ حصہ جو خیر کی نمائندگی کرتا ہے زیادہ مضبوط اور قوی ہوتا ہے، کیونکہ وہ علم سے آراستہ ہوتا ہے، چونکہ مجموعی انسانی ذات کو اس بات پر قائل نہیں کیا جا سکتا کہ انسان ایسا عمل کرے جس سے اسکو نقصان ہوتا ہو، اس لیے شر کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے خیر کی قوت کو دھوکہ دہی سے ہی کسی فعل کو سر انجام دینے پر آمادہ کرنا پڑتا ہے، ورنہ یہ ممکن نہیں کہ خیر اس سے ہم آہنگ ہو جائے ۔اس لیے شر خود کو ہمیشہ خیر بنا کر ہی پیش کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ خیر کو انسانی ذات کی بقا کے لیے ہمیشہ علم کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ شر اسے دھوکہ نہ دے سکے، جبکہ انسانی ذات میں موجود شر کی قوت اسی کوشش میں سرگرداں رہتی ہے، کہ خیر کو علم سے ہمیشہ دور رکھا جائے، تاکہ اسے اپنے گُل کھلانے کا بھرپور موقع مل سکے۔

انسانی ذات میں موجود خیر و شر کی قوتوں کے درمیان یہ کشمکش جب اساسی نوعیت کی ہوتی ہے تو جو قوت غالب آ جاتی ہے انسان بحیثیت مجموعی وہی روپ دھار لیتا ہے، یعنی یا وہ شیطان بن جائے گا یا پھر   انسانی ذات میں ہونے والی یہ کشمکش مادی وجود کی شکل میں معاشرتی کشمکش میں بدل جاتی ہے، یہاں بھی ٹھیک وہی عناصر کار فرما رہتے ہیں جو انسانی ذات میں موجود تھے۔ چنانچہ معاشرتی کشمکش میں خیر کی قوتیں علم کی داعی جبکہ شر کی قوتیں جہالت، فرسودگی، غربت، وحشت اور ظلم و بربریت کی پاسبان ہوتی ہیں۔

خیر و شر اور موجودہ سیاسی صورتحال!

خیر و شر کے اسی جدل کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستانی عوام دو واضح قوتوں میں تقسیم ہو چکی ہے، ایک طرف خیر کی نمائندگی ہے، تو دوسری طرف شر کے پیروکار۔
خیر کی نمائندہ قوتیں لوگوں کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے میں لگی ہیں ،جبکہ شر کی نمائدہ قوتیں دھونس، دھاندلی، چھل اور فریب سے کام لے رہی ہیں ۔ایک طرف علم کا راستہ ہے تو دوسری طرف جہالت پر اِصرار ہے۔

میں یہ نہیں کہوں گا کہ عمران خان جس بات کا داعی ہے وہ اس کا کماحقہ علم بھی رکھتا ہے، مجھے پتہ ہے وہ ریاستِ  مدینہ کی گَرد سے بھی واقف نہیں، اسے خبر نہیں کہ اسلامی معیشت کی بنیاد انسان کی قوتِ  خرید پر اُٹھائی جاتی ہے، اسے نہیں پتہ کہ ضروت سے زائد مال جمع کرنا حرام ہے، وہ نہیں جانتا کہ  جنتی سماج کی تخلیق کیونکر ممکن ہے، مگر وہ ایک بنیادی بات ضرور کرتا ہے اور وہ ہے خیر و شر کی معاشرتی کشمکش میں خیر کے ساتھ کھڑا ہونا اور کوئی مانے یا نہ مانے مگر عمران خان کا کمال یہ ہے کہ اس نے عدلیہ سے لے کر فوج اور پاکستان کی ایلیٹ کلاس کو اس قدر ننگا کر دیا ہے کہ اب انکا کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہا ۔اب تو نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ یہ اپنے منہ سے ابلیس کا پیروکار ہونے کا اقرار کرنے لگے ہیں۔
کرپشن کے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی۔ خاقان عباسی
بھارت کے سامنے سرنگوں ہونے میں ہی ہماری بقا ہے۔ بلاول زرداری
اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہی ہمارا مفاد ہے۔ سلیم مانڈوی والا
ایٹمی اثاثے سرینڈر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حسین حقانی۔
امریکہ کو اڈے دینے میں کوئی حرج نہیں ،خوداری اور غیرت کی باتیں دقیانوسی باتیں ہیں۔ نجم سیٹھی
کرپشن کے بغیر چارہ نہیں ،ہوتی رہتی ہے، اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ احسن اقبال
اگر ہم حکومت میں نہ آتے تو جیلوں میں ہوتے۔ خرم دستگیر

اگر پاکستانی سماج میں یہ کشمکش جاری رہتی ہے تو پھر اسکے نتائج بہتری کی صورت میں ضرور مرتب ہوں گے، لیکن اگر فضلو شیطان سمیت دولت، پسندی، فرسودگی اور جہالت کا داعی یہ طبقہ جو اس وقت پاکستان پر مسلط ہے، اگر یہی غالب رہتا ہے تو پاکستان شاید ہی دنیا کے نقشے پر موجودہ اکائیوں کی صورت میں باقی رہ پائے گا ۔اور مجھے ڈر ہے کہ خدا نخواستہ یہ بھارت کی ایک ماتحت ریاست بنے گا اور اسکے ایٹمی اثاثوں کی ہوا بھی نکال دی جائے گی ،البتہ یہ دولت پسند طبقہ اور جنرل پھر بھی فائدے میں رہیں گے۔ چار چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کے بے تاج بادشاہ اور آرمی چیف یہی ہوں گے ۔باہر کے ممالک میں جزائر اور خوبصورت رہائش گاہوں میں بسیرا کریں گے، جس ڈالی پر چاہیں گے چہکیں گے ،جس کا کوئی پُرسان حال نہیں ہو گا تو وہ ہے پاکستان کی غریب اور بے کس عوام، جن کا خون چوس چوس کر یہ آدم خور اس قدر طاقت ور ہو چکے ہیں کہ اب سر عام غنڈہ گردی اور بدمعاشی پر اُتر آئے ہیں اور آپ کا منہ چڑا رہے ہیں، کہتے ہیں جو کچھ اکھاڑنا ہے اکھاڑ لو ہم یہ کھڑے ہیں۔

مجھے کیا مسئلہ ہے ان سے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میں ایک عام آدمی ہوں، عوام ہوں۔۔ جب سے یہ آئے ہیں میرے لیے گھر کا چولہا چلانا مشکل ہو گیا ہے، تنگ دستی اور فاقہ کشی نے آ گھیرا ہے،  ہمیں کہتے ہیں آدھی روٹی کھا لو، میں تو کھا لوں لیکن  اپنے بچوں کو کیا جواب دوں کہ تمھیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے،وہ آدھی روٹی کھانے کو تیار نہیں ہیں، سکول جاتے ہیں، آئسکریم مانگتے ہیں، کہیں گھومنے کی ضد  کرتے ہیں، نہیں جانتے کہ  پیٹرول مہنگا ہو گیا ہے، تنخواہ جو ملتی ہے وہ پندرہ دن بھی باقی نہیں رہتی ،تو پھر یہ جو خود پیٹ بھر کے کھاتے ہیں اور ہمیں کم کھانے کی تلقین کرتے ہیں ،انکے حکومت میں رہنے کا کیا جواز ہے؟ یہ کیوں رہیں  پھر حکومت میں ؟ان کو اُتارو اس تخت سے کہ میں نے انھیں زندہ جلانا ہے، افلاس کے دیوتا کے حضور انکے نا پاک وجود کی قربانی دینی ہے میں نے ،کیونکہ انکے خون سے ہی میرے چمن کی آبیاری ممکن ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply