وقت کا بوڑھا جِپسی یہ کہتا ہے مجھ سے

لوگ جو اتنی چلدی بؤرھے ہو جاتے ہیں
تو کیسے لگنے لگتے ہیں!
رخساروں پر زردی۔۔۔آنکھوں کے نیچے بد رنگ گڑھے سے
اورآنکھوں کے دائیں بائیں
کسی پرندے کے پہنجے کے نقش سے جیسے گڑھے ہوئے ہوں
بال سفید تو تھے ہی ، لیکن
رردی مائل ہو کر جیسے
گاڑھی مٹی کی رنگت میں رنگے گئے ہوں
اور خمیدہ کمر نے اونچی اُٹھی ہوئی اکڑی گردن کو
جیسے جھک کر
نیچے دیکھ کے چلنے پر مجبور کیا ہو!”
ہنستے ہنستے وقت کا بوڑھا جِپسی یہ کہتا ہے مجھ سے
“آنند صاحب! آپ بتائیں
کیا یہ حالت آپ کی بھی ہونے والی ہے؟”
میں اپنے جیون کی ساری تصویریں ۔۔۔اپنی نظمیں
لفظوں میں مربوط وہ خاکے
جن میں نصف صدی سے میں نے
قوس ِ قزح کے رنگ بھرے ہیں
الٹ پلت کر اطمینان سے رکھ دیتا ہوں
اور کہتا ہوں وقت کے بوڑھے جپسی سے میں
“بابا، دیکھو،
میرا اصلی “مَیں” تو یہ تصویریں ہی ہیں
جب یہ تم کو
بوڑھئ لگنے لگ جائیں، تو
بے شک آ کر مجھ سے میرا حال پوچھنا!”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
27 جون 2000۔ کیمبرج۔ (کینیڈا)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں