شش و پنج کا وبال۔۔حسان عالمگیر عباسی

آج ایک جگہ لکھا دیکھا جس نے فلاں کتاب نہیں پڑھی اس نے ہماری پارٹی کو سمجھا ہی نہیں۔ نیچے ماشاءاللہ، سبحان اللہ، اے واللہ، جزاک اللّہ جیسے تبصرے نظر آئے جو حوصلہ افزائی کے لیے چھوڑے گئے تھے جنھیں جواب میں ٹھینگا مطلب نیلا لائیک دیا گیا۔ ان سب میں ایک سمجھدار بندے نے کہا جس کا مفہوم یہ تھا کہ پارٹی کی بڑھوتری کے لیے نیلے، پیلے، کالے، سفید، پڑھے لکھے، چٹے جاہل سب کی حمایت مانگنی ہو گی وگرنہ دا فیو دا پراؤڈ یا چند ہیں ولاکن فخر ہے تک ہی کومپنی رہ جائے گی۔ درخت کی بڑھوتری کے لیے کانٹ چھانٹ ضروری ہے جیسی پڑھی لکھی سمجھداریاں حالیہ عوامی پالیسیز اور بنیادی فکر کی لڑائی میں بے کار معلوم ہو رہی ہیں۔ صرف اسی ببر شیر کو جواب دیا گیا کہ انقلاب ہمیشہ تھوڑے لوگ ہی لایا کرتے ہیں یا وہ کم لوگ اکثریت پہ غالب آ جاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انقلاب لفظ ہی بے معنی ہے۔ ذہن سازی یا ارتقاء اس دور میں سمجھ آتا ہے اور دوسرا اگر اکثریت نے کتاب ہی نہیں پڑھی تو بھرتیوں کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ٹرین مارچ یا عوامی انداز کی ضرورت ہی باقی نہیں بچتی۔ انتخابات میں بھرپور اور بڑے پیمانے پہ حصہ لینے کی کیا حیثیت بچتی ہے؟ یہی شش و پنج وبال بن کے ٹوٹ رہا ہے۔ اب یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ کتب بینی فارغ شعبہ ہے بلکہ کتاب کو عوامی انداز بالخصوص باکستانی عوامی اسٹائل میں شد و مد کے ساتھ متعارف کروانے کی یہاں بھرپور نفی ہے۔ پارٹی کو اندر سے سمجھنا کھنگالنا ضروری بھی نہیں ہے کیونکہ وقت کی پہلے ہی قلت ہے۔ کتاب کی سنتے تو عوامی تحریک کی رائج شکل ہی سامنے نہ آتی۔ خیر جاری رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply