ایک لالچی دادے کی کہانی۔۔زبیر حسین

جان میڈینا اپنی کتاب جینیاتی جہنم (Genetic Inferno) میں ایک لالچی دادے کی کہانی بیان کرتے ہیں. اس کا نام پیڈرو فرض کر لیتے ہیں،پیڈرو کی کہنی دلچسپ ہے اور المناک بھی۔ اس کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا، اسے پانی سے خوف آتا تھا، مزے کی بات یہ ہے کہ وہ لزبن کا رہائشی تھا جو کہ پرتگال کی بندرگاہ ہے،غربت سے تنگ آ کر اس نے ١٤ سال کی عمر میں ملک چھوڑ کر نئی دنیا امریکہ میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا، اس کے پاس پیسے نہیں تھے اس لئے نیویارک جانے والی ایک کشتی میں چھپ کر بیٹھ گیا، کئی دن بعد کشتی کے ملاحوں کو اس کا پتہ چل گیا اور انہوں نے پیڈرو کو سمندر میں پھینکنے کی دھمکی دی،پیڈرو کے اوسان خطا ہو گئے کیونکہ وہ پہلے ہی پانی سے ڈرتا تھا،اب اسے پانی کا فوبیا ہو گیا۔

امریکہ پہنچ کر پیڈرو نے شکاگو کا رخ کیا اور وہاں بیکری کے  بزنس میں خوب مال کمایا، نیز سٹاک میں رقم لگا کر اور کفایت شعاری یا کنجوسی کی بدولت کچھ عرصے میں کروڑپتی بن گیا، لیکن وہ اپنی بیوی اور دو بیٹوں پر بہت ہی کم رقم خرچ کرتا تھا،خاندان میں جو غریب تھے ان کی بھی کبھی مدد نہ کی، اسے ہر وقت یہ فکر کھائے جاتی تھی کہ کہیں پھر سے غریب نہ ہو جائے،اگر سٹاک میں معمولی سی  مندی بھی آتی تو اس کی حالت غیر ہو جاتی،وہ جتنا زیادہ امیر ہوتا گیا اتنا ہی زیادہ لالچی اور کنجو س بھی۔نیز اس کی ذہنی حالت بھی خراب سے خراب تر ہوتی گئی، اپنی زندگی کے آخری ایام میں گھر والوں نے دیکھا کہ وہ ریستورانوں کے باہر پڑے کچرے یا کوڑے کے ڈھیروں میں کھانے پینے کی چیزیں ڈھونڈ کر کھا پی رہا تھا حالانکہ اس کے بنک اکاؤنٹ میں کروڑوں ڈالر موجود تھے، بالآخر ٩٤ سال کی عمر میں یہ لالچی اور کنجوس دادا فوت ہو گیا۔

کیا پیڈرو کا غربت کا خوف اس کے جین میں تھا یا دماغ کے نیٹ ورک کی غلط وائرنگ سے اسے یہ دماغی یا ذہنی مرض لگ گیا جس نے اسے انتہائی لالچی اور کنجوس بنا دیا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جینیاتی جہنم میں خوف کے جین اور بے چینی کے جین کے ساتھ دماغ کے نیٹ ورک کی وائرنگ پر ہونے والی تحقیق کا بھی ذکر ہے، قصہ مختصر اس لالچی دادے پر لعنت بھیجنے سے پہلے سوچ لیں کہ بیچارہ ایک دماغی یا ذہنی مرض کا شکار تھا،نیز اس مرض کی وجہ کوئی ناقص جین ہو سکتا ہے اور دماغ کے نیٹ ورک کی غلط وائرنگ بھی،ناقص جین شناخت کرنے اور دماغ کے نیٹ ورک کی وائرنگ کو سمجھنے میں ابھی بہت وقت لگے گا، خیال رہے انسانی دماغ میں کوئی 100 ارب اعصابی خلیے ہیں اور 100 کھرب کنکشن، اگر آپ کمپیوٹر پر دماغ کے نیٹ ورک کی کاپی تیار کرنا چاہیں تو آپ کو لندن یا نیویارک شہر کے سائز کے کمپیوٹر کی ضرورت ہو گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply