اسماء مغل

گھٹن زدہ معاشرے میں سوال نہ کرنے کی روایت اپنے زوروں پر ہے،آپ سوال کر کے دیکھیے آپ کو شرم و حیا پر ایک مفصل لیکچر ضرور مل جائے گا لیکن کوئی بھی شخص جواب دینا گوارہ نہیں کرے گا،کوئی یہ بھی نہیں کہے گا کہ بھائی،بہن آپ فلاں کتاب سے مدد لیجئے۔بس آپ کے سوال پر اعترضات ہوں گے۔ ایسی حالت میں کچھ جاننے اور سمجھنے کا خواہشمند فرد اپنا دل مسوس کر رہ جاتا ہے اور نتیجے میں آس پاس سے جو آدھی ادھوری معلومات اس کے ہاتھ لگتی ہیں اسے ہی کافی سمجھتے ہوئے سوالات کواپنے ہی اندر دفن کر دیتا ہے۔جب والدین کو ہی کچھ معلومات نہ ہونگی تو بچے کو کیا سکھائیں گے۔۔والدین اپنے بچوں سے بے شمار امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے بچے دنیا کے کامیاب ترین انسان بن جائیں اسی چکر میں ان کا سارا دھیان بچے کی پڑھائی کی طرف لگ جاتا ہے اور اخلاقی تربیت کرنا یکسر بھول جاتے ہیں جس کے نتیجے میں آج پڑھے لکھے افراد بھی مختلف گھناؤنی سرگرمیوں میں ملوث دکھائی دیتے ہیں۔اولاد چاہے بوڑھی ہو جائے جتنا بھی پڑھ لکھ جائے لیکن جب بھی کسی غلط فعل میں ملوث ہوگی الزام والدین کی تربیت پر ہی عائد ہوتاہے۔یہ عمومی معاشرتی رویہ ہے۔جسے تبدیل کرنے کے لیئے خود والدین کو ہی کوشش کرنا ہوگی۔
بچوں کی تربیت کس عمر سے شروع کی جائے اس ضمن میں ماہرین ِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ابتدائی دو سال بچے کی ذہنی نشونما کے لیئے انتہائی آہم ہیں ان دو سالوں میں بچوں میں پچاس فیصد تک ذہانت تشکیل پا تی ہے اور آٹھ سال کی عمر میں پہنچنے تک اسّی فیصد ذہنی نشونما مکمل ہو جاتی ہے یعنی د و سال کی عمر کا عرصہ جو کہ بچوں کا سب سے زیادہ ناسمجھی کا دور سمجھا جاتا ہے کہ اب بچوں کے ساتھ سنجیدہ ہوا جا سکتا ہے تب تک تو بچے بہت کچھ اپنے ذہنوں میں اخذ کر چکے ہوتے ہیں لہٰذا آٹھ سال کی عمرمیں پہنچنے تک بچے کی ذہنی اور نفسیاتی نشوونما پر جتنی محنت کر سکتے ہیں کیجئے۔بحیثیت مسلمان بچے کو سب سے پہلے قرآن سے مانوس کیجئے آیات کے تراجم،سبق آموز کہانیاں سنائیے اخلاقیات کے تمام پہلوؤں سے متعارف کروائیں۔یہ سب ایک دم اور دو تین سال کی عمر میں تو ممکن نہیں ہوسکتا لیکن ظاہر ہے کوئی بھی دواء پہلی بار میں ایک دم اثر نہیں کرتی بلکہ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق مہلک مرض سے چھٹکارہ پانے کے لیئے متواتر دواء کا استعمال جاری رکھا جا تا ہے
والدین اور خاص طور پر ماؤں کا اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب بچہ چلنا شروع کر دے اور دروازہ کھول سکے۔ماؤں پر یہ ذمہ داری سختی سے عائد ہوتی ہے کہ اتنی چھوٹی عمر کے بچوں کے لیئے گھر میں ہی تفریح کے ذرائع مہیا کریں تاکہ بچہ باہر جا نے کی ضد نہ کرسکے اور تھوڑا بڑا ہو نے پر بچے کو سمجھایا جائے کہ اگر کوئی آپکو آواز دے کر اپنے بلائے یا آپ کے قریب آنے کی کوشش کرے تو فوراٍ شور مچا دیں۔اگر آپ بچے کوکسی کام سے ہمسائے میں بھیجیں تو خود دروازے میں کھڑے ہو کر اسے دیکھیں اور بچے کو بھی یہ ہدایت کریں کہ گھر کے اندر داخل نہ ہو بلکہ دروازے پر ہی اپنامدعا بیان کرے۔اپنے بچوں کو کھیلنے کے لیئے دوسرو ں کے گھروں میں مت بھیجیں۔بچے کو سمجھائیں کہ اگر کوئی آنٹی انکل یا ان سے بڑا کوئی بچہ اسے زبردستی گود میں اٹھانے کی کوشش کرے تو اونچی آواز میں بولناشروع کر دے اور دوسرے لوگو کو متوجہ کرے۔بچے کو کسی رشتہ دار اور ملازم کے کمرے میں اکیلے مت بھیجیں نہ ہی ملازم یا کسی رشتہ دار کے ساتھ بازار میں یا سیر کرنے کے لیئے بھیجیں۔بحیثیت والدین آپ اپنے آس پاس لوگو ں کو منع کر دیں کے وہ آپ کے بچے کو بار بار گود میں اٹھانے اور چومنے کی کوشش نہ کریں اور خود بھی اس بات پر نظر رکھیں کہ کس شخص کے گود میں اٹھانے،قریب کرنے یا دیکھنے سے بچہ پریشانی اور گھبراہٹ محسوس کرتا ہے۔بچو ں کو سمجھائیں کہ اگر گھر یا گھر سے باہر کوئی شخص زبردستی اسے قریب کرنا چاہے منہ،کمر اور ٹانگو ں پر ہاتھ لگائے،بار بار چومے،بچے کا ہاتھ اپنے جسم پر لگائے اور پھر ڈرائے کہ اگر اس نے کسی کو بتایا تو مارو ں گا یا مارو ں گی تو ایسی صورت میں بات چھپانے اور خوفزہ ہونے کی بجائے آپ کو یا بڑے بھائی بہن کوپوری بات بتائے لیکن ان سب باتوں کے لیئے بھی پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے زیادہ تر والدین بچے کواتنا اعتماد ہی نہیں دیتے کہ وہ آپ سے کوئی بات شیئر کر سکے،ہر وقت کی ڈانٹ پھٹکار بچے کومتنفر کر دیتی ہے اور وہ صرف ضرورت کے وقت آپ سے رابطہ کرتا ہے
تین سے آٹھ سال کے بچے خصوصی توجہ کے مستحق ہیں انہیں بہت پیار سے اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے انہیں محبت سے یہ بات باور کروائی جائے کہ آپ کی غیر موجودگی میں وہ کسی کے قریب نہ جائے،کسی سے کچھ لے نہ کھائے کیوں کہ زیادہ تر ایسے واقعات کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے جب کوئی جان پہچان والا،ملازم یا خوانچہ فروش بچے کی پسند کی چیز اسے دے کر اعتماد حاصل کرتے ہیں اور بعد میں نقصان پہنچاتے ہیں بچوں کو گھر کے تمام افراد کے نام،فون نمبر اور گھر کا پتہ ضرور یاد کروائیں۔اس کے علاوہ جو بچے گھر پر ٹیوشن پڑھتے ہیں انہیں ایسی جگہ بٹھائیں جہاں بچے اور استاد آپ کی نظرو ں کے سامنے ہوں اس سلسلے میں گھر کے بزرگوں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔سکول میں ہر مہینے کلاس ٹیچر اور پرنسپل سے میٹنگ میں بچے کی کارکردگی اور عادات کے بارے میں گفتگو کریں سکول میں اس کے دوستوں سے بھی ملیے۔
نو سے بارہ سال کی عمر کے بچے تھوڑا بہت اپنا خیال رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں انہیں ایسا آسان اور شائستہ الفاظ میں لکھا ہوا مواد پڑھنے کے لیئے دیں جس سے وہ اپنی حفاظت کے متعلق باتوں کو سمجھ سکیں اساتذہ بھی بچوں کے اچھے دوست بن سکتے ہیں انہیں چاہیے کہ اگر کوئی بچہ کلاس میں زیادہ سُست نظر آئے یا جس کی حرکات پر کوئی تشویش ہو تو فوراٍ والدین کو بُلا کر اس بارے بات کریں۔بچوں کودوستانہ انداز میں معاشرے کی اونچ نیچ سے واقف کریں اور ایسے الفاظ کا چناؤ کریں جو بچے کو کسی قسم کی ذہنی مشقت کا شکار کرنے کی بجائے مدد گار ثابت ہوں۔ والدین بچوں کو ٹائم دیں والد کام سے واپس آکر کم از کم دو گھنٹے بچوں کے ساتھ گزاریں ان سے دن بھر کی مصروفیات جانیں اور اپنی مصروفیات بتائیں ایسا کرنے سے بچے کا والدین پر اعتماد بڑھتا ہے۔مائیں بچوں کے ساتھ ہر گز ایسا رویہ نہ اپنائیں کہ خود اپنے کام سہولت سے کرنے کے لیئے بچے کو باہر گلی یا گراؤنڈ میں بھیج کر بے فکر ہوجائیں کیوں کہ جرائم پیشہ افراد ایسے ہی مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
بچوں سے گفتگو کریں تا کہ وہ آپ کے قریب آسکیں۔ہمارے معاشرے میں بلوغت،جنسی تبدیلیوں،اور سیکس کے مسائل کو شجرِ ممنوع بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بے شمائل مسائل جڑ پکڑ کر آج یہ امید بھی کھو چکے ہیں کہ کبھی حل ہو سکیں گے۔اس بات کا مقصد اور مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہر گلی محلے کی نُکڑ پر ایک سیکس ایجوکیشن سکول قائم کر دیا جائے بلکہ والدین پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ شرم و حیا کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مائیں بیٹیوں اور والد بیٹوں کو ان مسائل سے آگاہ کریں کیوں کہ آگاہی ہی ایسی طاقت ہے جو آج کل کے دور میں بچوں کی
حفاظت یقینی بنا سکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں