سٹھیا گئے ہو کیا ؟۔۔فارینہ الماس

پہلی بار ان سے مل کر،انہیں دیکھ کر ،مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا۔ سرخ رنگ کا جوڑا زیب تن کر رکھا تھا انہوں نے۔ دوپٹے پر بھی سنہری گوٹے کی کناری لگی ہوئی تھی۔ نارنجی اور سرخ رنگ کے ملاپ سے نکلے کسی شیڈ کی لپ اسٹک ،جو ہونٹوں کے کناروں سے باہر اُمڈ رہی تھی۔آنکھوں میں باقاعدہ گہراکاجل بھی لگا رکھا تھا۔ان کے لہجے میں بہت شوخی تھی۔ انداز میں عجیب سا چلبلا پن۔ ان سب باتوں میں عجیب تو کچھ بھی نہ تھا ،لیکن یہی سب اگر ایک نوبیاہتا عورت پر ظاہر ہوتا تو سب کچھ نارمل لگتا ۔بلکہ میرے لئے ایسی خاتون سے ملنا ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا۔ وہ خاتون کوئی نو بیاہتا نہ تھیں بلکہ ساٹھ یا پینسٹھ سال کی عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ میں ان سے پہلی بار ملی تھی اوران سے ملنے سے پہلے، میرے ذہن کے کسی گوشے میں ، سر پر سفید چادر کی اوٹ سے دکھائی دیتا انتھک جھریوں کی کھال میں لپٹا ہوا چہرہ تھا۔ بیوگی کو سادگی اور احترام سے نبھاتی ایک عورت کا سراپا تھا۔ لیکن دکھائی دینے والا منظر یکسر ہی مختلف تھا۔
مائدہ سے میری دوستی یہی کوئی چار ماہ قبل ہی ہوئی تھی ۔آج پہلی بار میں اس کی والدہ سے مل رہی تھی۔اور اس ملاقات سے شاید مجھے کوئی خاص خوشی نہ ہوئی تھی۔ کیسے کیسے منفی خیالات تھے جو ان سے مل کر میرے ذہن میں نہ آئے ہوں گے۔
بہرحال ،اب بات کرتے ہیں اس ملاقات کے ٹھیک تین ماہ بعد کی۔ یونہی اچانک مائدہ کا اک دن فون آیا ۔اس نے مجھے اپنی والدہ کی وفات کی خبر سنائی۔ وہ اپنی ماں کی وفات پر خاصی افسردہ اور غم سے نڈھال تھی۔ اس دن اس کی والدہ کو دیکھ کر اندازہ ہی نہ ہوا تھا کہ وہ بیمار ہیں۔دو تین دن بعد اپنے غم کا بوجھ بانٹے ہوئے اس نے اپنی ماں کی ڈھیروں باتیں مجھے بتائیں ۔ وہ جوانی میں ہی بیوہ ہو گئی تھیں ۔ پھر کس طرح اولاد کو پالا ،کیسے کیسے غم کے پہاڑ ان پر ٹوٹے یہ ایک الگ اور طویل داستان تھی۔چند ماہ پہلے ہی انہیں ڈاکٹروں نے کینسر تشخیص کیا تھا ۔وہ بھی ناقابل علاج کینسر۔ مائدہ نے اپنی امی کی جوانی کی تصاویر بھی دکھائیں جن میں وہ انتہائی سادہ سی دکھائی دے رہی تھیں ۔اس دن انہیں جس طرح میں نے دیکھا تھا اس کی تو ہلکی سی شباہت بھی ان تصویروں میں نہ تھی۔
امی انتہا درجے کی سادہ خاتون تھیں ۔وقت اور حالات نے ان سے زندگی کے سبھی رنگ چھین لئے تھے۔ اور جب ہمارے پڑھنے لکھنے کے بعد حالات میں بہتری آئی تو امی کو کینسر ہوگیا۔امی نے اس مختصر عرصے میں اس روگ میں جان گھلانے کی بجائے خود کو خوش رکھنا شروع کر دیا۔انہوں نے ہر وہ رنگ پہنا جو جوانی میں نہ پہن سکیں۔وہ ہنسنے بولنے لگیںَ۔وہ زندگی کو ان تھوڑے سے دنوں میں ہی اس طرح جی گئیں جیسا انہوں نے کبھی نہ جیا تھا۔ہمیں منع کر دیا تھا ،کہ ان کی بیماری کا کسی کو نہ بتائیں ۔میں اس کی یہ باتیں سن کر دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوئی۔خود اپنے آپ کو برا بھلا کہتی رہی۔کسی کے جینے ،خوش ہونے،ہنسنے بولنے کو میں نے کس ترازو میں تولا تھا۔شاید یہ میں نہ تھی یہ اس معاشرے کا وہ ترازو تھا جس میں ہر شئے کو ریت رواج کی نظر سے پرکھا جاتا ہے۔

ہمارے سماج کا سماجی نظریہ کیا ہے۔۔ہنسنے،بولئے،چہکاریں مارتے رہتے۔ذرا اپنے لہجے میں بے باکی اور ادا بھی شامل رکھیے۔الٹے سیدھے کام کر لیجئے۔خواب دیکھئے،تعبیر کی خاطر ہاتھ پاؤں بھی ماریے ۔زندگی میں جو کرنا چاہئیں،جس طرح کرنا چاہئیں جائز اور اچھے طریقے سے کریئے۔خوش رہیے۔اداس ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ہاں کبھی کبھار کا اداس ہونا بھی جائز ہے۔لیکن یاد رکھیے یہ سبھی تیور انسان کو جوانی میں ہی پھبتے ہیں۔جوانی میں اس کا حق ہے کہ دلکش اور رنگوں سے بھرپور لباس پہنے۔جس چیز کو جی للچائے اسے حاصل کرلے۔یہی وقت ہے کہ کھایا پیا اور عیش کیا جائے۔لیکن وقت جلد ہی بدل جائے گا۔یہ سب مستیاں ،بدمستیاں،غل غپاڑے صرف شباب کے سات آٹھ برسوں تلک ہی کے ہیں۔پھر جوانی تو رہے گی لیکن زندگی کی ضرورتیں اور تقاضے اسے پل پل نوچنے اور کاٹ کھانے لگیں گے ۔لطف حیات کھونے لگے گا۔خواب مرجھانے لگیں گے۔ یاد رکھئے کہ ہمارے ہاں جوانی کا وقت دنیا کے مقابلے میں بڑا مختصر ہے۔ ہماری خوشیاں وہیں مرجھا جاتی ہیں جہاں دنیا والوں کی شروع ہونے لگتی ہیں۔ ایک ایسی نئی نویلی دلہن کی طرح ہمارے خواب مسل دئے جاتے ہیں ،وہ دلہن جو پیا کے آنگن میں قدم دھرتے ہی ،تقاضوں،قاعدوں،رواجوں اور ضابطوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

julia rana solicitors london

ہمارے یہاں مرد اور عورت دونوں ہی کو سماج کا گھُن کھا جاتا ہے۔پھر جب ذمہ داریوں کے بوجھ سے شل ہوتے شانوں سے کچھ بوجھ ہٹنے لگتا ہے تو ہمیں احساس دلایا جاتا ہے کہ اب ہمارا وقت تو رہا ہی نہیں ۔
بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ ”ارے تمہاری صحت کو کیا ہوا؟“” یہ تم نے اپنا کیا حال کرلیا ہے؟“” تم تو ابھی سے بوڑھے لگنے لگے ہو بھیا“اب ایسا کہنے والے خواہ خود بھی ایسی ہی زندگی بسر کر رہے ہوں لیکن آپ کو ایسا احساس دلا کر وہ درپردہ اپنی محرومی کو دباتے ہیں اوراسی میں طمانیت محسوس کرتے ہیں ۔
وقت کچھ اور گزر جائے گا ۔لوگوں کا طرز تخاطب بھی بدلنے لگے گا۔اب کہتے پائے جائیں گے ”ارے آپ اب بھی شوخ رنگ پسند کرتے ہیں جناب اب تو وقت ہے کہ بس سادہ سے سفیانہ رنگ پہنے جائیں“ گھر والے شادی بیاہ پر بھی آپ کو بے رنگ اور روکھے پھیکے لباس تھمانے لگیں گے۔ جب آپ چھوٹے تھے تو بڑوں کی محفل سے بے دخل کردیے جاتے تھے اب بڑے ہوئے تو بچوں نے اپنی رنگین محافل سے بے دخل کردیا۔آپ پوتا پوتی کو اپنی پیٹھ پر لادکر گھوڑا بنے انہیں ہنسانے،بہلانے کا کام تو کر سکتے ہیں لیکن اپنے دل میں بیٹھے سہمے ہوئے بچے کو بہلانے رجھانے کا حق اب کھو چکے ہیں ۔اگر ایسا کریں گے تو سب کہیں گے” سٹھیا گئے ہو کیا“؟۔
اب نہ پیشہ رہا نہ مشغولیت۔خواب رہے نہ خواہش۔ آپ تو شاید خواب و خواہش رکھنا چاہیں لیکن زمانہ آپ کو اس کی اجازت نہیں دے گا۔خوش مزاجی اور بزلہ سنجی تو جوانی ہی کا ہار سنگھار تھا بھلا اس سے اب آپ کا کیا لینا دینا۔ایک وقت تھا جب آپ جسمانی راحتوں کے حقدار تھے۔جب آپ پر زندگی کے سبھی دروازے کھلے تھے اب آپ محض ایک غیر متحرک،غیر فعال اور بے معنی زندگی کے حق دار ہیں۔ آپ کی عمر رسیدگی گویا آپ کی سماجی موت کا اعلان ہے۔ اب آپ کو دنیا داری کے خوف سے مصلی ،تسبیح اور ٹوپی لے کر گھر کے ایک کونے میں بیٹھنا ہی ہوگا۔دنیا تو کیا خود آپ کے اپنے بھی ،آپ سے زندگی ہی میں زندگی چھین لیں گے۔آپ نہ تو اب حال میں زندگی جی سکیں گے نہ ہی مستقبل کے لئے زندگی کی خواہش کرسکیں گے۔ یہ زمانہ آپ کو ایک شئے ضرور دے گا ” ماضی کا لاشہ“ ۔۔آپ اسے خود سے لپٹائے رہیں گے،اگر خوش ہونا چاہتے ہیں تو ماضی کے اچھے دنوں کو یاد کر کے خوش ہو لیں ،دکھی ہونے کا ارادہ ہے تو بُری یادوں کو اپنا ساتھی بنا لیں۔جتنا کوئی تنہا ہے وہ اتنا ہی ماضی کی یادوں سے لپٹا ہوا ہے۔ایڈیسن لکھتا ہے” زندگی کے ایسے تھوڑے سے وقت کے اتار چڑھاؤ،جوار بھاٹے ،خوشیوں بھری یادوں کے دن ایک ایک کرکے آتے اور چلے جاتے ہیں۔
یوں ایک عمر رسیدہ انسان پر اس کی زندگی میں ہی اس پر زندگی حرام کردی جاتی ہے۔
وہ یورپ کے لوگ کیسے قابل رشک لوگ ہیں ۔جہاں بوڑھے بھی جینے کا حق رکھتے ہیں۔ چہچہاتے ہیں۔زندگی کو جیتے ہیں ۔رقص کرتے ہیں ،گنگناتے ہیں۔دھن بجاتے ہیں اور دھنوں سے مسرور ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ان پر زندگی تنگ نہیں کرتا۔یہ نہیں کہتا”سٹھیاگئے ہو کیا۔“

Facebook Comments

فارینہ الماس
تعلیم سیاسیات کے مضمون میں حاصل کی لیکن اپنے تخیل اور مشاہدے کی آبیاری کے لئے اردو ادب کے مطالعہ کو اہمیت دی۔لکھنے کا شوق افسانے اور ناول لکھ کر پورا کیا۔سال بھر سے کالم نگاری میں مشق جاری ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply