ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے 20 دسمبر 1971ء کو صدرِ پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا حلف اٹھایا۔بھٹو صاحب ملکی تاریخ کے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے اور اب تک کے واحد سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہی ہیں۔اپنی پہلی تقریر میں بھٹو صاحب نے کہا؛
“ہمارے مُلک کو خطرناک بحران کا سامنا ہے ،میں ایسے وقت میں آیا ہوں جب تاریخِ پاکستان ایک فیصلہ کُن موڑ پر پہنچ چُکی ہے ،مجھے نیا اور ترقی پسند پاکستان بنانا ہے ۔”
سچ ہے کہ اُس وقت مُلک خطرناک بحران سے گزر رہا تھا اور نیا پاکستان بھی بن چکا تھا ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ سب بھٹو صاحب کی مہربانی سے ممکن ہوپایا تھا۔
بھٹو صاحب اپنے بیان پر قبل از وقت ہی عمل کرکے دکھا چُکے تھے اور پاکستان دو لخت ہوچکا تھا۔اپنے مفادات کی جنگ لڑتے لڑتے دو نام نہاد عوامی لیڈران نے دو الگ مُلک بنا کر عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔
بھٹو صاحب نے لیبر اصلاحات ،صنعتی اصلاحات ،زرعی اصلاحات کے علاوہ 1973 کے آئین پیش کرنے جیسے کئی نمایاں کام کیے ۔1973ء کا آئین تو بلاشبہ پاکستانی تاریخ کا ایک روشن پہلو ہے جس نے پاکستان کی آئینی حدود وضع کیں۔صنعتی اصلاحات کرتے ہوئے بھٹو صاحب کی حکومت نے 31 سے زائد صنعتوں کو قومیانے کا کام کر ڈالا ،صنعتوں کی نیشنلائزیشن کے اگرچہ چند ایک فوائد بھی ہیں لیکن اس چیز نے ہماری صنعتی ترقی کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل ڈالا ۔ صنعتوں کو تحویل میں لینے سے سرمایہ داروں نے پاکستان میں صنعتیں لگانا بند کردیں۔سرمایہ کاروں کا اعتماد ٹوٹا اور صنعتی ترقی کا عمل سُست ہُوا ۔ قومیانے میں آنے والی صنعتوں میں حکومت نے تنخواہ دار طبقہ بھرتی کیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ کام کی استعداد کم ہوتی چلی گئی ، کیوں کہ تنخواہ دار طبقے کو یہ معلوم ہوگیا کہ کام کرنے اور نہ کرنے ،دونوں صورتوں میں اُنہیں مکمل تنخواہ مل جانی ہے ،اس معاملے میں کارکردگی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔اس کے علاوہ مراعات کی فراہمی نے مقابلے کی فضاء پیدا کرنے کی بجائے مراعات تک محدود ہوجانے کو پروان چڑھایا ۔صنعتی ادارے جب حکومت کی تحویل میں آگئے تو اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا آسان ہوگیا لیکن اس چیز کا فائدہ بھی تھا اور نقصان بھی ،کیوں کہ مکمل اختیارات حکومت کو حاصل تھے اس لیے اشیاء کی قیمتیں کُلی طور پر حکومت کے ہاتھ میں آگئیں ،یہ ممکن تھا کہ حکومت ناجائز طور پر قیمتوں میں اضافہ کردیتی جیسا کہ 74-1973 میں مہنگائی عروج پر پہنچ گئی یا مکمل طور پر عوام کو ریلیف فراہم کرتی ۔
زرعی اصلاحات کرتے ہوئے بھٹو صاحب کی حکومت نے زمین کی انفرادی ملکیت کی حد 150 ایکڑ نہری اور 300 ایکڑ بارانی مقرر کی ،اگر اسی چیز پر غور کیا جائے تو ہمیں معلوم پڑے گا کہ یہی حد بھی امیر خاندانوں کی بقاء کے لیے مقرر کی گئی تھی ،تاکہ اُن کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے ۔
دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ جو زمینیں دوسروں سے ضبط کی گئیں وہ تقسیم ایسے لوگوں میں کی گئیں جو مستحقین میں شامل نہیں تھے ،بہت سے با اثر لوگوں نے اس عمل میں اپنی جائیدادیں بنائیں اور ایسی متعدد مثالیں ہمارے علاقے کے جاگیرداروں کی صورت میں بھی دیکھنے کو ملیں ۔
تیسری مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ملازمین کے لیے زمین خریدنے کی جو حد مقرر کی گئی وہ 100 ایکڑ تھی جو کہ کافی زیادہ ہے ،مزے کی بات یہ ہے کہ اس شق کا اطلاق فوجی افسران پر نہیں ہوتا تھا یعنی فوجی افسران اس شق سے مستثنیٰ قرار دیے گئے ،یہ عمل کم ازکم جمہوریت کے تو منافی ہی سمجھا جائے گا۔
بھٹو صاحب نے اشتمالِ اراضی کے نام سے نئی اسکیم متعارف کروائی ، جس کے تحت کوئی بھی شخص بنجر زمین انتقال کروا کر کسی اور کے قبضے میں موجود زرخیز زمین حاصل کرسکتا تھا ۔یہ غیر منصفانہ تقسیم کا موجب بنا کیوں کہ چالاک اور ہوشیار لوگ دوسروں کی اچھی زمینیں ہتھیانے میں کامیاب ہوگئے۔
تعلیمی اصلاحات کی وجہ سے طلبہ تنظیموں کو بے جا آزادی مل گئی اور انہوں نے سیاسی تنظیموں کی شکل اختیار کرلی ،پہلی دفعہ یونی ورسٹیز میں بدمعاشی کا کلچر شروع ہوا اور سیاست نے تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کرنا شروع کیا ۔ان سب نقائص کےباوجود بھٹو صاحب کی تعلیمی اصلاحات زیادہ موثر رہیں ،سب سے مفید کام جو بھٹو حکومت نے کیا وہ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کا قیام تھا جو کہ مئی 1974 کوعمل میں لایا گیا ۔طلبہ کے وظائف میں چار گنا اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے غریب طلباء بھی تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوپائے اور بہت سے غریب خاندانوں نے پیسوں کے آنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو اسکولز میں داخل کروانا شروع کردیا۔
صنعتی اصلاحات کی وجہ سے جو ملک میں 22 خاندانوں کا راج تھا وہ ختم ہوا اور اجارہ داری کا خاتمہ ہوپایا،اگرچہ اس ٹارگٹ کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جاسکا لیکن پھر بھی نظریاتی طور پر یہ بہترین قوانین تھے ۔

اس کے علاوہ نیب اور الیکشن کمیشن جیسے اداروں کے قیام کا سہرا بھی 1973 کے آئین کو جاتا ہے اور بلاشبہ یہ کریڈٹ بھٹو حکومت کے نام ہے ۔
مجموعی طور پر اچھے اقدام کے باجود بھٹو حکومت کو جمہوریت کا دشمن اس وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ جمہوری روایات کے دعوے دار ہونے کے باوجود بھٹو صاحب کا حکومت میں آنے کا طریقہ کار مکمل طور پر غیر جمہوری اور آمرانہ تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں