بچپن سے سنا کرتے تھے کہ لکھنے والوں کی بڑی عزت ہوتی ہے۔ لڑکیاں لکھنے والوں پر مرتی ہیں۔ سو ہم نے جاوید چودھری کو دیکھا کیا اور کالم نگاری کے میدان میں کود پڑے کہ چلیں اب ہم ہوں گے اور چہار سُو لڑکیاں۔ یہ الگ بات کہ جب بھی گلے ملے تو مولوی ہی ملے اور سوال بھی وہ پوچھتے رہے جس کا پوری دنیا کو پتہ تھا مگر ان کو پتہ نہیں ہوتا تھا۔
“خٹک صاحب یہ افغانستان میں ہو کیا رہا ہے؟”۔
پھر ایک دن اسی جاوید چودھری نے میرا کالم،جو مکالمہ میں شائع ہوا تھا،اٹھا کر اپنے نام سے چھاپ دیا۔ چودھری صاحب نے معذرت بھی کی مگر میرا دل ٹوٹ گیا کہ آپ کو دیکھ کر ہم کالم نگار بنے اور الٹا آپ ہمیں کالم نگار سمجھ بیٹھے۔
پھر ہم نے عمیرہ احمد و نمرہ احمد کو دیکھ کر افسانے لکھنے شروع کئے کہ خواتین کی قربت کا سب سے آسان رستہ یہی تھا کہ ان کے جذبات سے کھیلا جائے۔ سو افسانے لکھتے گئے، لوگ پسند کرتے گئے مگر مجال ہے کہ آج تک کسی خاتون نے ہمارے دل کے دروازے پر دستک دی ہو کہ “سر آپ کے سائیکل پر میں بھی بیٹھنا چاہوں گی”۔
بالآخر ایک دن ہم سے ناول لکھنا سرزد ہوا۔ بڑے بڑے رائٹروں نے تعریف کی۔ ریکارڈ توڑ فروخت ہوئی مگر مجال ہے کہ کسی خاتون نے پبلشر کو فون کرکے یہ پوچھا ہو کہ ‘خٹک صاحب کا نمبر مل سکتا ہے؟’۔ الٹا ہم خود خواتین کے پاس جاتے رہے کہ ناول ہمارا ہی لکھا ہوا ہے۔ جو خواتین آئیں انھوں نے بھی “بھائی” بناکر ناول کی تعریف کی۔
پرسوں ایک ادبی محفل میں وارد ہوا تو دیکھا کیا کہ میرا ناول موضوع سخن بنا ہوا ہے۔ دل میں ایک ٹھنڈک سی اُتر گئی کہ بالآخر وہ وقت آپہنچا ہے کہ مجھے بھی نازنین محبت نامے بھیجا کریں گی۔ عجلت میں ان کی گفتگو میں مخل ہوا کہ اس ناول کا لکھاری میں ہوں۔ دل میں عجیب رنگین و سنگین خیالات کا سمندر موجزن، کہ ہمارا ارتکاز ایک خاتون نے تباہ و برباد کرڈالا۔
“خٹک صاحب ناول کا ہیرو بڑا ہی کوئی بے غیرت انسان تھا جس نے ایک معصوم لڑکی کے اٹھارہ سال برباد کرڈالے اور مرتے ہوئے ساتھ منحوس اپنے ساتھ معصوم لڑکی کو بھی لے مرا”۔

سوچ رہا ہوں اب کیا شروع کروں؟۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں