رسول ﷲﷺ جس کسمپرسی کے حالات میں مکہ سے ہجرت کرکے نکلے تھے، اس سے زیادہ عجیب بات یہ تھی کہ مدینہ میں رسول ﷲﷺ کی آمد کا اتنی ہی بے چینی سے انتظار ہوتا تھا۔ مگر ایک عجیب واقعہ ضرور ہوا کہ مدینہ میں جہاں لوگ رسول ﷲﷺ کی آمد کے مشتاق تھے وہیں پر قبیلہ بنی سہم کے ایک سردار “بریدہ اسلمی” اپنے ساتھ ستر سواروں کو لے کر اس لالچ میں رسول ﷲﷺ کی گرفتاری کے لئے پہنچا کہ قریش سے ایک سو اونٹ انعام مل جائے گا۔ مگر جب رسول ﷲﷺ کے سامنے آیا اور پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو رسول ﷲﷺ نے فرمایا کہ
“میں محمد بن عبداﷲ ہوں اور خدا کا رسول ہوں۔”
بریدہ اسلمی کے دل پر رسول ﷲﷺ کے جمال و جلال نبوت کا ایسا اثر ہوا کہ فوراً ہی کلمہ شہادت پڑھ کر دامن اسلام میں آ گیا اور کمال عقیدت سے یہ درخواست پیش کی کہ
“یا رسول اﷲ ! صلی االلہ تعالیٰ علیہ وسلم میری تمنا ہے کہ مدینہ میں حضور کا داخلہ ایک جھنڈے کے ساتھ ہونا چاہیے، یہ کہا اور اپنا عمامہ سر سے اتار کر اپنے نیزے پر باندھ لیا اور رسول اللہ ﷺ کے علمبردار بن کر مدینہ تک آگے آگے چلتا رہا۔
بریدہ اسلمی نے رسول ﷲﷺ سے پھر دریافت کیا کہ
یا رسول اﷲ ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ مدینہ میں کہاں اتریں گے تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کہ میری اونٹنی خدا کی طرف سے مامور ہے۔ یہ جہاں بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہے۔
وہاں مدینہ میں جب رسول ﷲﷺ کی آمد کی خبر پہلے سے پہنچ چکی تھی، اس لئے اہل مدینہ آپ کے دیدار کے لئے انتہائی مشتاق و بے قرار تھے۔ روزانہ صبح سے نکل نکل کر شہر کے باہر سراپا انتظار بن کر استقبال کے لئے تیار رہتے تھے اور جب دھوپ تیز ہو جاتی تو حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے۔ ایک دن اپنے معمول کے مطابق اہل مدینہ رسول ﷲﷺ کی راہ دیکھ کر واپس جا چکے تھے کہ ناگہاں ایک یہودی نے اپنے قلعہ سے دیکھا کہ رسول ﷲﷺ کی سواری مدینہ کے قریب آن پہنچی ہے۔ اس نے با آواز بلند پکارا کہ
اے مدینہ والو ! لو تم جس کا روزانہ انتظار کرتے تھے وہ کاروانِ رحمت آگیا۔ یہ سن کر تمام انصار بدن پر ہتھیار سجا کر اور وجد و شادمانی سے بے قرار ہو کر دونوں عالم کے رسول ﷲﷺ کا استقبال کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے اور نعرہ تکبیر کی آوازوں سے تمام شہر گونج اُٹھا۔
جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں