زیر اشاعت کتاب پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار (مجعوعہ ءکتب) سے ایک مضمون کیا شفافیت کسی ملک و قوم یا انڈسٹری کو تباہ کرسکتی ہے ؟
ڈی سی ریٹ، مارکیٹ۱ ویلیو، ایف بی آر اور فیر ویلیو یہ چار ایسے الفاظ ہیں جو عام پاکستانی کے لیے تو اجنبی ہیں لیکن زمین جائداد کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کی زندگی کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ان کے اثرات ان پاکستانیوں کی زندگیوں پر بھی بہت گہرے ہیںجنہوں نے اپنی زندگی میں یہ الفاظ سنے بھی نہیں۔ ان الفاظ کا پس منظر کچھ یوں ہے۔سرکار نے پاکستان بھر کی زمینوں کی ایک قیمت طے کی ہوئی ہے جس سے کم قیمت پر پاکستان کا کوئی شہری زمین خریدتے اوربیچتے وقت لکھت پڑھت نہیں کرسکتا۔ انھیں کم ازکم اسی قیمت پر ہی حکومت کو خرید وفروخت کی مد میں ٹیکسز دینے ہوتے ہیں اور اسی قیمت کو اپنے سالانہ گوشواروں میں دکھانا ہوتا ہے۔ یہ ایک صوبائی اختیار ہے۔اسی لیے اس سرکاری قیمت کو ڈی سی ریٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ریٹ طے کرنا صوبائی حکومتوں کا استحقاق ہے۔صوبائی حکومتیں زمین کی قیمت طے کرتی ہیں۔جس پر پھر وفاقی، صوبائی ، ضلعی یا تحصیل/ٹاون ٹیکس وصول کیا جاتاہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس ویلیویشن ٹیبل کو ہر مالی سال کے اختتام پر تبدیل کیا جائے گا لیکن مجازاتھارٹیز اکثر یہ نہیں کرتیں جس کی مثال یہ ہے کہ سندھ حکومت نے پچھلے36سال میں صرف 14بار اس ویلیویشن میں تبدیلی کی ہے، جو اوسطاً کوئی پونے تین سال بنتا ہے جس میں دو تین بار تو بالترتیب تقریباًچھ ( 6 )ساڑھے پانچ(5.5) اور ساڑھے چار (4.5)سال بعد بھی اس ویلیویشن میں تبدیلی کی گئی۔ یہ ساری تفصیل نیچے دیئے گئے چارٹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
جبکہ کراچی اور بالخصوص ملک کے دیگر پوش علاقوں میں زمین وجائداد کی قیمتوںمیں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ ہر سال اس ویلیویشن ٹیبل کو تبدیل کرنا انتہائی ضروری تھا لیکن تقریباً تمام حکومتوں نے اس انتہائی ضروری کام کو غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کیا ہے اور یہ رویہ پچھلی تین دہائیوں سے چل رہا ہے۔ یہاں تک کہ اسلام آباد کی متعلقہ انتظامیہ نے بھی کئی دفعہ کئی کئی سال گزرنے کے بعد اس ویلیویشن ٹیبل کی طرف توجہ دی۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی اس اہم کام کی طرف جان بوجھتے عدم توجہی کی وجہ سے اب پتا نہیں آئی ایم ایف کے دباؤ یا پاکستان کے فیصلہ سازی کے ذمے داروں کی معیشت کو ڈاکومینٹڈ کرنے کی خواہش کی بدولت 2016میں وفاقی حکومت نے صوبائی اختیار کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے، ایف بی آر کے ذریعے خود زمین جائداد کی قیمتوں کو ملک بھر کے بیس شہروں میں اپ ڈیٹ کیا۔ جس سے مارکیٹ ویلیو اور ڈی سی ویلیو کے بعد ایف بی آر ویلیو بھی سامنے آئی۔ 2022ءتک ایف بی آر نے اپنے ویلیوشن ٹیبل کو 20شہروں تک ہی محدود رکھا لیکن 2022 میں اس ویلیوشن کا 40 شہروں تک اضافہ کردیا۔ کراچی میں 1986میں جب یہ ویلیوشن ٹیبل متعارف کروایا گیا تو پور ے کراچی کو صرف قیمت کے حساب سے 6 مختلف کیٹیگریز میں بانٹا گیا تھا۔جو بڑھتے بڑھتے اب (36 ) چھتیس سال میں کراچی کے7 اضلاع میں یہ تعداد (12) بارہ کیٹگریز اور216 میں علاقوں کی درجہ بندی تک پھیلا دیاگیا ہے۔یاد رہے کیٹگریز کے ذریعے علاقوں کی درجہ بندی کا یہ طریقہ صرف سندھ میں رائج ہے۔اس میں یہ کیا جاتا ہے کہ ایک شہر کو مثلاً کراچی کے 216علاقوں کو بارہ کیٹگریز میں بانٹ دیا گیا ہے میرپور خاص کے136علاقوں کو5 کیٹگریز میں۔ گھوٹکی کے26علاقوں کو3کیٹگریز، سکھر کے35علاقوں کو5 کیٹگریز، لاڑکانہ کے30 علاقوں کو4کیٹگریز اورحیدرآباد کے209علاقوں کو8 کیٹگریز میں بانٹ دیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر صوبوں اور وفاق میں ہر علاقے کی علیحدہ علیحدہ قیمت طے کرکے درجہ بندی کی جاتی ہے۔ پہلے پاکستان بھر کے 20بڑے شہروں میں یہ درجہ بندی6950تھی۔ جو 2022 میں بڑھ کر چالیس ( 40) شہروں میں 198350ہو گئی۔ جس کی تفصیلات نیچے دیئے گئے چارٹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔





بظاہر اس کام کا مقصد تو یہ تھا کہ حکومت چاہتی ہے۔ معاشی معاملات میں شفافیت لائی جائے۔یوں اس کام سے وابستہ افراد میں دو نقطہ نظر سامنے آئے۔ پہلے نقطہ نظر کی دلیلیوں کا محور و مرکز یہ ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے لیکن اس کام میں ٹریڈنگ کا حجم و رفتار کم نہ ہوان کا ردعمل جتنا شدید ہے،کیس اتنا ہی غیر منطقی اور دلیلیں بچکانا اور بنیادی انسانی ،پیشہ وارانہ اخلاقی اقدار اور مذہبی عقائد اور ملکی قوانین کے منافی ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس کام میں شفافیت آ گئی۔
1 رئیل اسٹیٹ کا شعبہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
2 ہم اسٹیٹ ایجنٹ بھوکے مر جائیں گے۔اس کام سے وابستہ دیگر صنعتوں پر تالے پڑ جائیں گے۔
3 ملک ڈیفالٹ کرجائے گا۔
4 سرمایہ اڑکر بلیک اکانومی والے ملکوں میں چلا جائے گا۔
5 سرمایہ دوسری بلیک مارکیٹنگ والی مارکیٹوں میں چلا جائے گا۔ مثلا سونا چاندی وغیرہ میں چلا جائے گا۔
6 باہر سے آنے والا اوور سیز کا سرمایہ رک جائے گا۔
7 حکومت کے ٹیکسز میں کمی ہوگی۔۔
8 لوگ اتنی بڑی مقدار میں سفید سرمایہ کہاں سے لائیں گے۔
9 اس کام سے دیگر کئی صنعتیں چلتی ہیں۔وہ بند ہو جائیں گی۔
10 لوگ بیروزگار ہوں گے۔
11 زمین جائداد کی قیمتوں میں کمی ہوگی۔
12 آخری دلیل یہ ہوتی ہے کہ جس کا دل کرتا ہے وہ پورا لکھے حکومت کب منع کرتی ہے۔
پہلے پہل تو لاعلمی گھبراہٹ یا اس کام سے وابستہ بڑے کھلاڑیوں کے اثر ورسوخ کی وجہ سے اسی بیانیے کا چرچا رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ شفافیت کے حق میں یہ نقطہءنظر بھی سامنے آنے لگا کہ اگر پاکستان میں جس قیمت پر زمین جائداد فروخت ہو، وہی قیمت تحریر کی جائے ۔ تو اسی میں ملک وقوم اوراس کاروبار سے وابستہ افراد کی بقا ہے۔بصورت دیگر یہ کاروبار معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہونے کے باوجود ملکی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بنتا جارہاہے۔ اس کام سے منسلک افراد کے لیے اس ماحول میں کام کرنا انتہائی دشوار ہو گیا ہے اورروز بروز مشکل ہوتا جارہاہے۔ شفافیت کے حق میں پیشہ ور اسٹیٹ ایجنٹس نے مندرجہ ذیل دلیلیوں سے جواب دینا شروع کر دیا۔
1 خدمات بیچنے والے پیشہ ور اسٹیٹ ایجنٹ کے لیے اس ملک میں لکھت پڑھت پوری ہونے سے کام کے مواقع بڑھیں گے۔ کام میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔
2 انڈسٹری کا حجم بڑھے گا تو کام بھی بڑھے گا۔
3 ملکوں کی سلامتی قطعی سرمی یا سیاہ سے مشروط نہیں ہوتی بلکہ بین الاقوامی طاقتوں کو بہانہ مل جاتا ہے۔ایسے ملکوں کو بلیک میل کرنے کا جہاں متوازی/سیاہ معیشت کا حجم زیادہ ہو۔
4 ایسا قطعی ہی نہیں پہلی بات پاکستان رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں شفافیت کی صورت میں مواقع بہت ہیں جن کا تفصیلی ذکر نیچے اس تحریر میں ہے اور پھر یورپ امریکہ میں ریٹرن آن انوسٹمنٹ بھی اتنا نہیں اور ٹیکسز بھی بہت زیادہ ہیں۔ باقی اگر کوئی ہائی رسک لے کر افغانستان،عراق میں سرمایہ کاری کرنا چاہئے تو ظاہر ہے جانے والے کو کون روک سکتا ہے۔دبئی کے مزے بھی پاکستانی سرمایہ کار لوٹ چکے ہیں۔
5 سونا چاندی و دیگر اہم پروڈکٹ میں سرمایہ کاری کاانتظام و انصرام کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔
6 یعنی اوور سیز اپنی وائٹ منی کو بلیک کرنے میں مرے جا رہے ہیںیقینا ایسی کوئی صورت احوال نہیں ہے اوورسیز کا پوری لکھت پڑھت و شفافیت والے نظام پر زیادہ اعتبار ہو گا اس لیے باہر سے آنے والی رقم کا حجم بڑھے گا۔
7 حکومت کے ٹیکسز میں قطعی کمی نہیں ہوگی۔ منڈی کا حجم جب کئی گنا بڑھ جائے گا تو ٹیکسز کی شرح کم کرنے سے بھی ٹیکسز کے حجم بڑھیں گا۔
8 ریاست 11 سے 12 بار ایمنسٹی اسکیم متعارف کرواچکی ہے۔ اگر گوشواروں میں ہر سال اصل قیمت پر زمین جائداد کو اپڈیٹ کرنے کا قانون متعارف کروا دیا جائے تو ارتقائی عمل سے گزر کربناکسی دشواری سے چند سالوں میں سرمایہ سیاہ سے سفید ہو جائے گا۔
9 یہ دلیلدینے والوں نے دو کاروباری صورت حال کو گڈ مڈ کیا ہوا ہے۔اوپن لینڈ یا فائلوں کی ٹریڈنگ سے کوئی رئیل اسٹیٹ سے جڑی صنعت نہیں چلتی بلکہ ایسا ہوا ہے کہ کم لکھت پڑھت کی وجہ سے سرمائے کی بے تحاشا ریل پیل کی وجہ سے لوگوں نے صنعتیں بند کرکے زمینوں کی ٹریڈنگ شروع کر دی۔ہاں جب کوئی رئیل اسٹیٹ یونٹ تعمیر کے مقصد کے لیے بک کر اس پر کنسٹرکشن شروع ہوتی ہے تب ضرور صنعتیں چلتی ہیں۔
10 اوپن لینڈ کی ٹریڈنگ و کساد بازاری کے بند ہونے سے تعمیرات کی صنعت میں ترقی ہوگی جس سے روز گار بڑھے گا۔ رئیل اسٹیٹ میں پیشہ ور افراد کی مزید کھپت ہوگی۔ا س سے انڈسٹری کا حجم بڑھے۔
11 زمین جائداد کے بے ہنگم اضافے میں شفافیت/پوری لکھت پڑھت کی وجہ سے وقتی کمی ہوگی لیکن منڈی کی بنیادی کھپت مارکیٹ کی بیس کنزمپشن بڑھنے سے (Market Based Consumption) نئے سرمایہ کاروں کے لیے مواقع پیدا کرے گی۔
12 کئی دہائیوں سے جاری ملک بھر میں اس سہولت سے مستفید ہونے والے لوگ اس نظام کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بہت سارے پاکستانیوں نے بہت بڑے بڑے نفع کے چکر میں اپنے سفید سرمائے کو بھی سیاہ کر لیا ہے۔ اس طرح کے معاشی نظام میں رضاکارانہ تبدیلی کی توقع ایک خام خیالی ہے۔
13 اگر شفافیت کی وجہ سے کساد بازاری میں کمی سے قیمتوں میں بھی کمی ہوکر توازن پیدا ہو گیاتو یہ یقینا ملک وقوم کے مفاد میں ہوگا اورکسی بھی قوم کا فائدہ اس قوم کے ہر فرد کا فائدہ ہوتا ہے۔چاہئے وہ کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتا ہو ۔یہ بھی چیزوں کو گڈمڈ کیا گیا ہے کہ رئیل اسٹیٹ یونٹ میں ٹریڈنگ کی وجہ سے دیگر50سے 72انڈسٹریز چلتی ہوں۔ ایسا بالکل نہیں کہ اوپن لینڈ کی ٹریڈنگ سے دیگر انڈسٹریز چلتی ہوں دیگر انڈسٹریز تب چلتی ہیں۔ جب کوئی رئیل اسٹیٹ یونٹ تعمیرات کے مقصد کے لیے خریدا بیچا جاتا ہے۔ اور اس پر کنسٹرکشن ہوتی ہے۔ فائلوں یا ایسے رہائشی یا کمرشل پلاٹ جنہوں نے ابھی 25سال نہیں بننا ہوتا۔ اس میں مستقل بنیادوں پر ٹریڈنگ کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے زہر قاتل ہوتی ہے۔
اس نظریے کے حامل لوگوں نے اس کو فیر ویلیو کا نام دیا۔ جبکہ اس لفظ کو اس سے پہلے مارکیٹ ویلیو کہا جاتا تھا۔ گو کہ ایف بی آر ویلیو کے ذریعے وفاقی حکومت نے چالیس شہروں کی قیمتوں کو مارکیٹ ویلیو کے قریب لانے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں آج بھی وہ ہی ڈی سی ریٹ پر ہی زمین جائداد کی لکھت پڑھت ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین جائداد کی قیمتوں کے بارے میں دنیا جہاں میں یہ ایک مسلمہ حقیقت سمجھی جاتی ہے کہ ہر رئیل اسٹیٹ یونٹ(مکان دکان ،دفتر ،فیکٹری،پلاٹ،زرعی اراضی ، سیاحتی مقامات والی زمین جائداد ،و دیگر اسی طرح کے سیکڑوں قسم کے دیگررئیل اسٹیٹ یونٹس) کی اپنی ایک قدرو قیمت ہوتی ہے۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ پاکستان جو رقبے کے اعتبار سے دنیا کا 36واں نمبر کا ملک ہے۔ جس کا رقبہ مربع، میلوں، کلو میٹرز، ایکڑوں ،کنالوں، مربعوں ، فٹوں اور گزوں میں مندرجہ ذیل ہے۔
1 پاکستان کا رقبہ مربع (اسکوائر)میل 340.509
2 پاکستان کا رقبہ مربع (اسکوائر) کلو میٹر میں 881.913
3 پاکستان کا رقبہ مربع (اسکوائر) گزوں میں 952121.74281ملین مربع(ایک ملین برابر دس لاکھ)( اسکوائر)گز (ایک مرلہ برابر 30.2501 گز)
4 پاکستان کا رقبہ مربع (اسکوائر) فٹوں میں 8569095.68529 ملین مربع( اسکوائر) فٹ ایک مربع گز برابر 9 مربع فٹ ہے
5 پاکستان کا رقبہ ایکڑوں میں 196.719 ملین مربع( اسکوائر) ایکڑ (ایک ملین برابر دس لاکھ)
6 پاکستان کا رقبہ کنالوں میں 1573.752 ملین مربع (اسکوائر)کنال (8کنال برابر ایک ایکڑ )
7 پاکستان کا رقبہ مرلوں میں 31475.04ملین مربع (اسکوائر)مرلہ (20مرلہ برابر ایک کنال)
اس حساب سے پاکستان بھر میں کھربوں نہیں تو اربوں یا کروڑوں رئیل اسٹیٹ یونٹس توضرور ہوں گے۔لہٰذا یہ کس طرح ممکن ہے کہ چند ہزاریا ایک دو لاکھ کیٹگریز میں ان یونٹس کو تقسیم کرکے شفاف اور انصاف پر مبنی قیمتوں کا تعین کیا جاسکے۔لہٰذا اس ناانصافی والی ویلیوشن سے چند ہزار یا چند لاکھ افراد کو یقیناً فائدہ پہنچتا ہے۔لیکن ریاست کو نقصان پہنچتا ہے اور ریاست کا نقصان اس ملک کے کروڑوں شہریوں پر تقسیم ہوجاتاہے۔جس سے معیشت میں عدم توازن کے علاوہ معاشرے اور سماج میں انارکی پھیل کر ملکی سلامتی کے لیے ایک خطرے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے علاوہ جو شفافیت اور انصاف پر مبنی جائداد کی قیمتوں کے برعکس نقطہ¿ نظر رکھتے ہیں۔ان کے لیے ایک سوال یہ ہے۔ کہ کیا دنیا کی کسی مذہبی ،سماجی ،ملکی و پیشہ ورانہ اخلاقی اقدار میں اس بات کی اجازت ہوسکتی ہے؟کہ کوئی لین دین ہو تو 100روپے کامگر اس کی حلفیہ سرکاری کاغذات میں لکھت پڑھت دس،بیس،تیس ،چالیس یا پچاس روپے میں ہولکھی جائے اور اس لکھت پڑھت پر چار شہری، دو لین دین کرنے والے ، دو ان کے اسٹیٹ ایجنٹ گواہ اور کم و بیش دس سرکاری ملازمین جانتے بوجھتے اس پر دستخط کریں۔ دہائیوں سے جاری اس مشق کی جو ذیلی پیداوار ( کاونٹر پروڈکٹیو)برائیاں ہیں۔ اس نے 23 کروڑر آبادی کی قدرتی وسائل سے مالامال قوم کو کس حال تک پہنچا دیا ہے۔ وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نظام کو بنانے میں اس پیشے سے وابستہ افراد کا کوئی تعلق نہیں ہے،یہ ریاستی و حکومتی عہدے داروں اور پالیسی سازوں کی کوتاہی سے وجود میں آیا ہے۔نہ ہمارے احتجاج سے یہ نظام بچا ہوا ہے نہ ہی ہمارے کہنے سے شفافیت آ جانی ہے۔ ہاں یہ بات یقینی ہے کہ اب شفافیت آنی ہی آنی ہے۔لہٰذا ہمیں یہ گناہ بلاوجہ اپنے سر نہیں لینا چاہیے یہ نظام نہ تو ہمارے اورنہ ہی ملک و قوم کے حق میں اچھا ہے۔ اس کے باوجود آفرین ہے ان لوگوں پر جو جانے انجانے میں اس نقطہ نظر کی وکالت کر لیتے ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ وہ ایوانی نمائندگان قابل تحسین ہیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں 62اور63 کی شقوں پر حلف لینے کے باوجود ایسا نقطہ نظر رکھنے والوں سے مذاکرات کیسے کر لیتے ہیں۔ باقاعدہ معاہدے کرنے کے باوجود بھی پارلیمنٹرین کیسے رہ سکتے ہیں۔ ایسی مثال دنیا کی کسی بھی باقاعدہ منظم ریاست میں تو نہیں ملتی۔ اسٹیٹس کو کے ہامی نقطہ نظر رکھنے والے افراد یہ بھی کہتے ہیں کہ شفافیت پر مبنی قیمت کو لاگو کرنے کا نظام وضع کرنے کی ریاست کے پاس اہلیت و صلاحیت نہیں تو ایسی بات بالکل نہیں۔ اہلیت اور صلاحیت دونوں ہے کیونکہ ریاست پاکستان کے پاس اپنی جغرافیائی حدود میں ہر جگہ یوسی سے لے کر وفاق کی سطح کا مضبوط ریاستی ڈھانچا ہے اور اس نظام کو رجسٹرار، پٹواری ودیگر ایسے زمین کے مالکانہ حقوق تبدیل کرنے والی مجاز اتھارٹیز کے ذریعے مقامی عوامی نمائندوں، اسٹیٹ ایجنٹ پر مشتمل بورڈ کے ذریعے انتہائی آسانی سے سرکاری حکم ناموں کے ذریعے نافذ العمل کیا جا سکتا ہے۔جس میں ہر رجسٹرار پٹواری کی حدود میں ٹیکس ادا کرنے والی مستند پیشہ ور اسٹیٹ ایجنٹوں میں سے منتخب شدہ لوگ ہر لین دین کی قیمت کے صحیح ہونے کا تصدیق نامہ دیں۔ یہ صلاحیت ، استعداد و اہلیت سے زیادہ سیاسی و ریاستی مرضی (ول ) کے نا ہونے کی وجہ سے نہیں ہوپا رہا۔اسی طرزِ پر نجی و سرکاری اور نیم سرکاری ہائوسنگ سوسائٹیز کے کرتوں، دھرتاوں کے ذریعے بھی یہ نظام بہت آرام سے بہتر کیا جاسکتا ہے۔رہ گیا اس انڈسٹری سے وابستہ افراد کا یہ ڈر کہ شفافیت آنے سے یہ کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔
تو یہ ڈر و شک دور کرنے کا ٹاسک اور ذمے داری اس انڈسٹری سے وابستہ افراد کی انجمنوں کے عہدے داروں کی ہے کہ وہ اپنے ہم پیشہ افراد کو یہ بات بتائیں کہ موجودہ نظام کا خاتمہ بھی رئیل اسٹیٹ کی مارکیٹوں کے لیے بہت سے نئے مواقع کا پیش خیمہ ہوگا۔ پاکستان کی رئیل اسٹیٹ منڈی جس میں اصل ان کے خیال میں صرف اس وجہ سے ٹریڈنگ ہوتی ہے کہ یہاں لکھت پڑھت کم میں ہوتی ہے۔ تو یہ ان کی بھول ہے۔پوری لکھت پڑھت کرنے سے جو فوائد اس انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کو ہوں گے وہ موجودہ فوائد سے بہت بڑے ہیں۔ بونس یہ ہوگا کہ اس سے اسٹیٹ ایجنٹ سرمایہ داروں ودیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اس ملک و قوم کو بھی کچھ فائدہ ہوجائے گا۔ جس کا ہم سب حصہ ہیں اصل قیمت پر لکھت پڑھت کرنے کے متبادل متوقع مواقع اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ جو ہم آج کے اخلاقی ،ملکی ،انسانی و دیگر ہر طرح کی اخلاقیات کو روند کر حاصل کر رہے ہیں۔ بس سنجیدگی سے انہیں تحقیق ،تعلیم وتربیت کی بنیاد پر پیشہ ورانہ علم سے اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ انڈسٹری میں مواقع صرف انڈاکومینٹڈ اکانومی کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ بے تحاشا دیگر عوامل مثلاً پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی۔پاکستان آبادی میں پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ رقبے کے اعتبار سے دنیا میں چھتیسویں نمبر پر ہے۔ یعنی آبادی اور رقبے کا تناسب ،پاکستان میں گھروں کی بے تحاشا کمی ہے،گلوبلریشن کے اثرات کی وجہ سے بدلتا ہوا طرز زندگی اس کمی کو روزانہ کی بنیاد پر مزید بڑھا رہا ہے۔ شہر کاری(urbanisation)، سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے رحجانات ،سی پیک کی بدولت ملک بھرمیں نئی رئیل اسٹیٹ منڈیوں کی دستیابی، ٹورازم، سیروسیاحت رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے مواقع، پاکستان رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے ریٹ علاقائی زمین جائداد کے مقابلے میں کم ہونا، زرعی رئیل اسٹیٹ میں بے تحاشا مواقع ودیگر سیکڑوں ایسے عوامل ہیں جنکی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں مواقع اور(گروتھ) نشوونما صرف غیر رجسٹرڈ اور انڈاکومینٹڈ اکانومی کی بدولت نہیں ہے۔بلکہ دیگر یہ سب عوامل بھی ہیں۔جنہیں اُجاگر کرنا ضروری ہے۔اس کے علاوہ میں ملک قوم،معیشت اور اس کاروبار سے وابستہ افراد کی معاشی بقا ءو ترقی کے لیے اس کام کی شروعات تقریباً 12 سو کے قریب ایوانوں میں تشریف فرما خواتین و حضرات اور گریڈ 17سے اوپر کے سینئر سول و فوجی چند ہزار سرکاری نوکروں کو ایک انتظامی حکم نامے سے اپنے اور اپنے خاندان کے زمین جائداد کے اثاثوں کو ہر سال اپنے گوشواروں میں اصلی قیمت پرڈکلیئر کرنے کا حکم دے کر کی جاسکتی ہے۔
یقین مانیے افراد، خاندان، قبائل، گروہوںاور قوموں کی بقاشفافیت میں ہوتی ہے ، خاص کر مالی معاملات میں شفافیت کے بغیرکسی بھی ریاست کی سالمیت کو شدیدخطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ریاست اور شہری کے مضبوط رشتے کی بنیاد شفافیت پر ہوتی ہے اور ریاست و شہری کامضبوط رشتہ ہی ریاست کی سا لمیت کاضامن ہوتا ہے۔شفافیت ریاستوں کے لیے آکسیجن کا کام کرتی ہے اور آکسیجن جس طرح انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے اسی طرح معاشرے کو زندہ رکھنے کے لیے بھی از حد ضروری ہے۔ شفافیت سے کبھی کوئی کاروبار تباہ نہیں ہوتا۔جسکی زندہ مثال پاکستان بھر کے اسٹاک ایکس چینجز کی ڈاکومنٹڈ ہونے سے پہلے اور اب کی مارکیٹوں کے حجم ہیں۔ معلوم تاریخ سے اب تک انہی قوموں نے ترقی کی ہے جہاں علم کے ذریعے شفافیت آئی ہے ورنہ کبھی بھی اندھیر نگری میں کالے سیاہ معاشی ماحول میں کاروبار کرنے والی ا قوام کے افراد اپنی نسلوں کو سفید شفافیت پر کھڑی معیشتوں والے معاشرے میں تعلیم وتربیت کے لیے نہ بھیجیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں