روداد سفر /عقلی دلائل اور مذہب۔۔قسط 45/شاکر ظہیر

اسی عرصے کے دوران میمونہ ایک دن ہمارے گھر آئی اور اس نے میری بیوی کو بتایا کہ اس نے اپنے بیٹے کو اپنے سسرالی شہر کے قریب ہی موجود ایک گاؤں میں قائم مدرسہ سکول میں تعلیم کےلیے داخل کروایا ہے ۔ یہ گاؤں شاہ تن ( Shadian ) ویتنام کے بارڈر کے پاس ہی یونان ( Yunnan ) صوبے میں واقع ہے . اس گاؤں کی آبادی پندرہ ہزار ہے جن میں سے تیرہ ہزار مسلمان ہیں ۔ میمونہ کے سسرالی قصبے سے بس پر چالیس منٹ کے سفر پر واقع ہے ۔ ایوو شہر سے چوبیس گھنٹے ٹرین پر کھمنگ ( Kunming ) شہر پھر وہاں سے ساڑھے تین گھنٹے گاڑی پر میمونہ کے سسرال گاؤں کھایواں ( kaiyuan ) ۔ اس قصبے کے پاس ہی ایک بہت بڑی یوریا کی فیکٹری بھی ہے ۔ اور اس کے علاؤہ یہاں سیسہ ( lead ) صاف کرنے کے کارخانہ بھی ہیں ۔ کلچر ریولوشن کے دوران اگست 1975 میں یہاں کے مسلمانوں نے ریڈ گارڈ کے ساتھ شدید مزاحمت کی جس سے کافی لوگ جان بحق ہوئے اور اس واقعہ کی ایک یادگار بھی گاؤں میں موجود ہے ۔ یہ لوگ اپنا رشتہ نسلی طور پر ملائشیاء سے جوڑتے ہیں اور کھانے میں بھی میدے کے نوڈلز کی بجائے چاول کے نوڈلز استعمال کرتے ہیں ۔ اس علاقے میں انار کی پیداوار بہت زیادہ ہے جس کے دانے سفید لیکن بہت میٹھے ہوتے ہیں ۔ پہنے میں بھی یہ لوگ ملائشیاء ہی کا لباس اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنی الگ زبان رکھتے ہیں لیکن حکومت کے کاغذات میں ہوئی ( Hui ) ہی کہلاتے ہیں ۔ شکل شبہات کے لحاظ سے بھی ملایا نسل کے لگتے ہیں ۔
یہاں اس گاؤں میں مسلمانوں کے مدارس بھی موجود ہیں اور ایک بہت بڑی مسجد جو بقول ان کے چائنا کی سب سے بڑی مسجد ہے بنائی گئی ۔ اس بڑی مسجد کے ملحق ہی ایک بڑی یونیورسٹی ٹائپ مدرسہ بنایا گیا جہاں پلان کے مطابق جدید تعلیم اور دینی تعلیم کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی جائے گی یا جدید تعلیم یافتہ افراد کو دینی تعلیم دی جائے گی لیکن یہ محض ایک خواب ہی ہے اور رہے گا ۔ میمونہ کے کہنے پر میری بیوی نے بیٹی حنا کو اس سکول میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔ فیصلہ بہت ہی مشکل اور تکلیف دہ تھا ۔ میں تو آج بھی یہ بات سوچ کر کانپ جاتا ہوں پتہ نہیں میری بیوی نے یہ فیصلہ کیسے اور کس دل سے کیا ۔ میں سمجھتا ہوں یہ ہمارا سب سے غلط فیصلہ تھا ۔ اتنے چھوٹے بچے کو کبھی بھی والدین سے دور نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ عمل اس کی زندگی میں ایک خلاء پیدا کر دیتا ہے ۔ کیونکہ یہ وہ بچپن کا خاص وقت ہوتا ہے جب بچے والدین سے خاص تعلق بنا رہے ہوتے ہیں ۔ بہرحال یہ غلط فیصلہ ہم نے کر لیا میمونہ نے جس دن سسرال جانا تھا اس کے ساتھ ہی بیٹی حنا کا جہاز کا ٹکٹ خرید لیا ۔ ائیر پورٹ پر میں انہیں چھوڑنے گیا تو میرے بھی ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ بہرحال جیسے تیسے واپس ا کر بھی دل پریشان ہی رہا ۔ میری بیوی نے کچھ کہا تو نہیں لیکن دل اس کا بھی بہت اداس تھا ۔
ایک ماہ بعد میں اپنی بیٹی سے ملنے چلا گیا ۔ رات میمونہ کے سسرال میں گزاری اور صبح سویرے بیٹی کے سکول چلا گیا ۔ بیتی نے مجھے دیکھا اور دیکھ کر لپٹ گئی اور ایک ہی بات کہتی رہی کہ بابا میں نے بس میں بیٹھ کر ماما کے پاس جانا ہے ۔ میں اسے ساتھ لے کر میمونہ کے سسرال آ گیا ۔ دو دن ہم خوب گھومے پھرے لیکن اس کی ایک ہی بات تھی کہ بابا آؤ ناں بس پر بیٹھا کر ماما کے پاس جائیں ۔ تیسرے دن و سو رہی تھی اور میں نے اسے جب سکول میں ٹیچر کے حوالے کیا تو اٹھا گئی اور رونا شروع کیا۔ میں بوجھل اور زخمی دل کے ساتھ واپس ہو لیا ۔ سکول بہت خوبصورت بنا ہوا تھا اور جدید لیکن جیسا بھی تھا بچے بہت کچھ اسلام کے متعلق علم حاصل کر رہے تھے لیکن والدین سے دوری یہ ناقابل تلافی نقصان تھا جو بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے ۔
پہلی دفعہ اس علاقے میں رک نہیں سکا اس لیے اس کے
متعلق زیادہ جان بھی نہیں سکا ۔ بس سکول گیا اور واپس ۔ واپس ایوو شہر ایا تو بھی دل رو رہا تھا ۔ اگلے ماہ خدا نے ہمیں ایک اور بیٹی سے نوازا جس کا نام صناء رکھا ۔ پیدائش کے بعد جب میں نے اسے اٹھایا تو اکیلی انگلی ہی آسمان کی طرف بار بار اٹھا رہی تھی ۔ مجھے بہت پیار آیا ۔
دو ماہ بعد بیوی کو ٹکٹ دے کر بھیجا اور کہا کہ کچھ عرصہ وہاں ضرور رکنا ۔ سکول والے صرف چھٹی والے دن ہی بچوں کو گھر جانے کی اجازت دیتے تھے اس لیے بیوی نے ایک چھوٹا سا کمرہ وہاں کرایے پر لیا اور کچھ عرصہ وہاں رہائش پذیر رہی ۔ اس عرصے میں اس نے خود بھی کلاسز لینا شروع کی جس میں وہ قرآن مجید ناظرہ پڑھنا سیکھتی تھی ۔ اور ساتھ ہی فقہ وغیرہ کی کلاسسز بھی ہوتی تھی ۔ میں بھی کام سے فارغ ہو کر عید کے نزدیک وہاں پہنچ گیا ۔ اس بار خاص اس علاقے میں قیام کیا تو ایک اور پاکستانی بھائی ریاض صاحب سے ملاقات ہوئی جو گوانزو شہر سے یہاں منتقل ہو چکے تھے اور یہیں مکان خرید لیا تھا ۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا اور مقصد یہی تھا کہ دینی ماحول میں زندگی گزاریں ۔ کچھ ان کے ساتھ وقت گزارا تو حالات کا صحیح اندازہ ہوا ۔ معلوم ہوا کہ یہ علاقہ تو تبلیغی روحانیوں کا مرکز ہے ۔ یہاں بہت سی جماعتیں آتی جاتی ہیں اور یہاں کے مدارس میں پڑھانے والے بھی زیادہ تر اسی سوچ کے حامل ہیں ۔ ان کے پاس بھی سوائے قصے کہانیوں کے کچھ بھی نہیں ہے ۔ ایک دن میں بھی کلاس میں بیٹھا گیا ۔ کلاس کا جائزہ لیا تو دیکھا مختلف علاقے کے مسلمان ہیں جن میں زیادہ تر وہ ہیں جن کا تعلق مغرب کے علاقوں سے ہے جو کسی دور میں قرآنک بیلٹ کہلاتے تھے سانشی ( shanxi ) گانسو ( Gansu ) چھن ہائی ( Qinghai) ننگشاہ ( Ningxia ) اور سنکیانگ ( xinjiang ) . یہ لوگ دین کی کچھ بنیادی چیزیں سمجھنے آئے ہیں ۔ اور اس امید پر آئے ہیں کہ یہاں سے وہ سچی بات لے کر جائیں گے ۔ پڑھانے والے استاد نے جب مسیح کی آمد ثانی اور دجال کی آمد کا قصہ شروع کیا تو میری حالت یہ تھی کہ میں قریب سے کوئی بڑا سا پتھر اٹھاؤں اور اس استاد کر سر پھوڑ دوں ۔ یہ لوگ کتنے فاصلے سے سفر کرے ، پتہ نہیں کیسے پیسے اکٹھے کرکے یہاں تک دین سیکھنے پہنچے ہیں جسے وہ اگلی نسل کو منتقل کر سکیں یا اپنی زندگی میں ہی اس دین کے مطابق گزار سکیں یا اس دین کی ہدایات میں سے جو کچھ ممکن ہیں اس پر عمل کر سکیں کچھ دلائل حاصل کریں تاکہ اپنے دل اور اپنی نسلوں کے دلوں کو اطمینان دلا سکیں ۔ لیکن یہاں تو وہی تصوف کی کہانیاں لے کر تصوف کے بزرگ دھونی جما آکر اپنی سلطنت قائم کرکے بیٹھے ہیں ۔ یہ کہاں سے دلیل دیں گے یہ تو خود خوابوں پر تکیہ کیے بیٹھنے ہوئے ہیں ۔ یہاں بھی سوال ، اعتراض کا کوئی کام نہیں جو کہہ دیا بس سامنے والا قبول کرے ۔ میرے استاد نے سچ کہا کہ کئی صدیوں تک بادشاہت نے سوال کرنے نہیں دیے ، لوگ دین کی تعلیم کےلیے فقہائے کے پاس گئے تو انہوں نے بھی کہا سوال نہ کرو تقلید کرو ، لوگ صوفیاء کے پاس دین کی تعلیم حاصل کرنے گئے تو انہوں نے بھی یہی مطالبہ کیا کہ دماغ بند کرکے مرید بن جاؤ ۔ یہ اس امت پر اس کے اپنے بڑوں نے ظلم عظیم کیا کہ اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم کر دی ۔ کسی نے سچ کہا ہے ( the master are the monsters ) . ان میں اور ایک کلرک میں کیا فرق ہے ۔ کئی لوگوں سے وہاں ملا ، کئی ایک تو سال سال تک پاکستان جماعت کے ساتھ لگا کر ائے ۔ پوچھا کیا لے کر آئے ہیں وہاں سے تو دو چار اضافی کہانیاں ہی تھیں جب کہ بتا ایسے رہے تھے جیسے ہمالیہ انہوں نے سر کیا ہو ۔ یہ پاکستانی مرکز والے بھی بزنس لگائے بیٹھے ہیں ۔ اتنی دور سے لوگ آپ کے پاس پہنچتے ہیں تو کم ازکم کچھ سچے عقلی دلائل ہی ان کے حوالے کر دیں تاکہ یہ اپنے بیٹوں ، بیٹوں ہی کو اس اسلحہ سے آراستہ کر سکیں ۔ نہیں یہ خود ساختہ بزرگ تو سوال کو اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ بلکہ توہین نہیں سمجھتے جواب ان کے پاس بھی نہیں ہوتے اس لیے لبادہ اڑے ہوتے ہیں اور بے ادبی کا فتویٰ لیے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ جس دن ان کے اپنے لوگوں نے سوالات شروع کر دیے اور جواب ان کےلیے لازم کر دیا گیا اس دن یہ سارے بزرگ چلے ہوئے کارتوس ہیں ۔ میری اس بات کو میرے تبلیغی دوست نے چیلنج کر دیا ۔ میں انہیں لے کر ذکر جہری کی خانقاہ لے گیا اور کہا کہ خلیفہ مجاز سے ملنا ہے ۔ خلیفہ مجاز سے میں نے صرف ایک سوال کیا کہ ذکر جہری اور ذکر خفی کے عقائد و نظریات میں کیا فرق ہے ۔ جواب کوئی نہیں صرف یہ کہا کہ ہم یہاں اختلافی مسائل ڈسکس نہیں کرتے ۔ دوسرا سوال آپ کے ذکر جہری میں انسان مجبور محض ہے یا حالات کو بدلنے کےلیے کوشش کر سکتا ہے ۔ جواب کوئی نہیں ، بلکہ یہ کہہ کر رخصت لی کہ میرے ذکر کا وقت ہو گیا ہے ۔ یہ حالت ہے اس ذکری تبلیغی جماعت کی کہ اپنے عقائد نظریات کا علم نہیں کہ انہوں نے ذکر خفی کو کیوں ترک کیا اور جہری کو کیوں قبول کیا ، جہری اور خفی کے نظریات عقائد میں کیا فرق ہے ، وہ اور کیا تربیت کریں گے یہ حالت خلیفہ مجاز کی ہے نیچے والی عوام تو بھیڑ بکریاں ہیں ۔
اس سکول میں جہاں میری بیٹی حنا پڑھتی تھی چائنا کے مختلف دور دراز علاقوں کے مسلمان بچے بھی پڑھ رہے تھے یہاں تک کے چائنا کے دوسرے سرے پر موجود سنکیانگ کے ایغور بچے بھی تھے جن سے ان کے والدین شاید سال میں ایک دفعہ ملنے آتے تھے ۔ وہاں دعاؤں اور حفظ پر ہی زور دیا جاتا تھا ۔ سکول کی سالانہ تقریب میں میں شریک ہوا جس میں بچوں نے مختلف دعائیں اور کچھ قرآن کی سورتیں پڑھ کر سنائیں تو ایغور مسلمان جن کے بچے موجود تھے انہوں نے نعرے لگانے شروع کر دیے ۔ بس مجھے یہ یقین ہو گیا کہ سب زیادہ عرصہ یہ سکول نہیں چل سکتا اور یہی ہوا ۔
ایک دن مجھے وہیں رہتے ہوئے جب میری بیوی نے مدارس اور وہاں کے مسلمانوں کی اخلاقی حالت کے حالت کے متعلق بتایا تو بس میرے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔ کہاں اسلامی تعلیمات اور کہاں ہم جنس پرستی کے چیٹ گروپ ۔ پھر وہاں کے لوکل مسلمانوں کی حالت بھی ایسی کہ موضوع بحث ہی یہ ہوتا کہ فلاں کی بیوی فلاں کے شوہر کے ساتھ تعلقات رکھتی ہے اور فلاں کا شوہر فلاں کی بیوی پر نظر رکھتا ہے ۔ اب تو میرے پاس کوئی دلیل نہیں رہی کہ میں اپنے مذہب کی کوئی ایک اخلاقی خوبی ہی بتا سکوں ۔ کیونکہ یہ اس علاقے کی بات ہو رہی تھی جہاں چائنا کے کونے کونے سے مسلمان دینی علم سیکھنے آتے تھے یعنی ان کے خیال سے یہ مرکز تھا ۔ بات بات میں انشاء اللہ اور دعائیں ، ظاہری طور پر علاقے میں داخل ہوں تو مردوں کا لباس سفید ٹوپی ، عربی چوغہ اور ہاتھ میں تسبح ۔ عورتوں کے لباس میں سر پر سکاف ، عبایہ اور ہاتھ میں تسبح اور اعمال وہ جن سے غیر مسلم چائنیز بھی گھن کھائیں ۔ میں نے اور میرے دوست ریاض بھائی نے اسے چائنا کی گنگا کا لقب دیا کہ جو خود تو گندگی سے بھری ہوئی ہے اور باقی کے سارے یہاں اپنے گناہ دھونے آتے ہیں ۔ ویسے تو اخلاقی برائیاں باقی مذاہب کے ماننے والوں میں بھی موجود لیکن کیونکہ ہم مسلمان خدا کے آخری پیغام کے حاملین ہیں اس لیے ہم پر ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں اور ہم دنیا کی نگاہوں میں بھی رہتے ہیں ۔
بس اس علاقے میں جانا اور وہاں ٹھہرنا یہ آخری غلطی تھی اس کے بعد پھر میرے پاس سنبھلنا کا کوئی موقعہ نہ رہا ۔ میں امتحان میں پرچہ مکمل نہ کر سکا اور دیا گیا وقت ختم ہو گیا ۔ یہ امتحان آپ کی اولاد بھی روزانہ آپ سے لیتی ہے آپ صرف اسے محسوس نہیں کرتے ۔ بچے اپنے عقائد بنا رہے ہوتے ہیں اور ان کے متعلق عقیدت یا دلائل جمع کر رہے ہوتے ہیں ۔ جیسے جیسے سوال پیدا ہوتے ہیں آپ سے جواب مانگتے ہیں ۔ کچھ دلائل عقیدت کی بنیاد پر قبول کر لیے جاتے ہیں اور کچھ تو ایسے بودے ہوتے ہیں کہ عقیدت بھی کام نہیں دیتی ۔ جو عقیدت کی بنیاد پر قبول کیے جاتے ہیں ان کی بنیاد بھی بہت ہی کمزور ہوتی ہے ۔ ان کے متعلق صرف بیرون سے ایک سوال انہیں اٹھا کر پھینک دیتا ہے ۔ سوچیے وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے ۔ یہ سوالات گھر گھر میں موجود ہیں ۔ بزرگوں کی بزرگی نیکی ان کے اپنے کام آئے گی آپ کے کسی کام کی نہیں ۔ تیاری کیجیے امتحان آپ کا بھی جاری ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply