آہ ! مولانا یاسین صاحب بھی عازم سفر ہوئے
اب ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کا کوئی ساماں نہیں رہا
یونس ایمرے ، جنہیں لوگوں نے یونس درویش کا نام بھی دیا، تیرہویں صدی میں ترکی زبان کے بڑے شاعر، عالم اور صوفی بزرگ گزرے ہیں۔ووہ ترکی زبان کے سب سے ممتاز شاعر ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ترکی زبان کو نئی زندگی عطا کی۔ ترکی زبان اور لٹریچر پر ان کی شاعری نے بہت دیرپا اثرات مرتب کیے۔ یونس اس وقت کے ایک بڑے صوفی بزرگ تاتوک ایمرے ؒسے بہت متاثر ہوئے اور قاضی کے منصب سے دستبردار ہو کر تاتوک ایمرے ؒ کی شاگردی اختیار کی اور چالیس سال اپنے استاد کی تربیت میں رہے۔ ان دونوں حضرات کی زندگی پر ترکی میں ایک ڈرامہ ‘‘یونس ایمرے’’ کے نام سے تیار ہوا۔ اس ڈرامہ سیریل کی اسی نام سے انگریزی میں ڈبنگ ہوئی اور بعد ازاں پی ٹی وی نے اردو میں اس کی ڈبنگ کی اور اسے ‘‘راہِ عشق ’’ کے نام سے چلایا۔فلم یا ڈرامہ کے ناظرین کے لیے یہ سیریل ایک شاہکار ہے۔ جبکہ عام آدمی کے لیے اس میں سیکھنے کو ایک پورا جہاں ہے۔
میں نے 1999ء میں تبلیغی جماعت کے ساتھ چار ماہ پنجاب کے گرم میدانوں میں گزارے۔ اس سفر نے جہاں مجھے ہر طرح کی آلودگی ، بلکہ گندگی، تنگ نظری اور اسی طرح کی دیگر ہلاکت خیز بیماریوں سے نجات دلائی وہاں اس نے مجھے اسلام کی روح کو سمجھنے میں بھی مدد دی۔ مجھے اس سفر میں پتہ چلا انسان کیسا ہوتا ہے۔یا اسے کیسا ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ایک سال قبل جب میں نے ‘‘یونس ایمرے’’ دیکھا تو فکری اعتبار سے مجھے تاتوک ایمرے اور رائے ونڈ کی تربیت میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔مجھے تاتوک ایمرے اور حاجی عبدالوہاب صاحب کی شفقت، محبت، اور پیار میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ ہاں، البتہ انسانیت کا غم حاجی صاحب کے ہاں مجھے زیادہ ملا۔حاجی صاحب کی آنکھوں سے کئی ماؤں کی محبت بیک وقت ٹپکتی تھی۔ حاجی صاحب اس قدر محبت سے مجمعے کو دیکھتے تھے کہ ان کی ایک نظر کے انتظار میں لوگ ایک نشست میں کئی کئی گھنٹے گزار دیتے۔پنجاب کی گرمی میں پیاس لگتی نہ ننگے فرش پر تھکاوٹ کا احساس ہوتا۔
یہ دو مقناطیس ایسے تھے جو پاکستان اور آزاد کشمیر کے طول و عرض سے لوگوں کو کم و بیش ستر سال تک اپنی طرف کھینچتے رہے۔حاجی صاحب کے دل میں ایک انسان کی جو قدر تھی وہ آج پورے پاکستان کی آبادی کے دل میں ایک انسان کے لیے نہیں ہے۔میں انسانی قدر و منزلت کی آگاہی اور اپنی تربیت کے اس عظیم سفر سے واپس ہوا تو میرا پہلا پڑاؤ منگ شہر کی جامع مسجد تھی۔ ہم دو افراد تھے اور ہدایات کے مطابق ہم نے ایک دن وہاں پر کام کرنا تھا۔ہم رات کے کسی پہر وہاں پہنچے۔ بستر بچھائے اور کمر سیدھی کی۔ فجر کی نماز کے لیے اٹھے تو خبر ملی کہ پانی نہیں ہے۔ وضو کے لیے ہم شہدائے منگ کی یاد گار سے آگے ، دور نیچے ایک ‘کس’ کے کنارے چشمے پر گئے۔ نماز کے بعد جب سورج نکل آیا تو ہم نے مدرسے کا دورہ کیا۔ چند ایک طالب علم تھے ۔ شاید پانی نہ ہونے کی وجہ سے مدرسے میں چھٹی کر دی گئی تھی۔ برآمدے میں ایک بزرگ بیٹھے تھے ، ہم انہیں سلام کرنے گئے تو میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔وہی محبت، وہی شفقت اور وہی سب کچھ جو میں رائے ونڈ میں چھوڑ آیا تھا اور جس پر غمزدہ بھی تھا، پھر سے میرے سامنے موجود تھا۔میں ان کے قدموں میں بیٹھ گیا اور بیٹھا رہا حتیٰ کہ انہوں نے اجازت دی، حکم فرمایاتو میں روتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔
تب سے وہ منگ جہاں بس سے اتر جائیں تو سیٹ پر قبضہ ہو جاتا تھا، سوچتے تھے کس گھڑی یہاں سے نکلیں گے۔ آج اسی منگ کی زمین نے قدم پکڑ لیے تھے۔مجھے ان سے یہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ مسجد کا پانی کیوں بند ہے۔ انہوں نے خود ہی فرمایا ، دیکھو یہ لوگ کتنے شرارتی ہو گئے ہیں۔ نکّے والوں نے منگ شہر کا پانی بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے مسجد کا پانی بھی بند ہو گیا ہے۔ مگراس بات پر انہیں کوئی غصہ نہیں تھا۔مجھے لگا وہ بہت سارے شرارتی بچوں کی ایسی ماں ہے جسے ان کی شرارتوں پر غصہ نہیں آتا، پیار آتا ہے۔ ایسے پیارے لوگوں سے ملنے کی خواہش کون نہیں کرے گا۔ مولانا سے ملنے کے بعد علما کا احترام میرے دل میں گھر کر گیا۔ میں مولانا جیسے لوگو ں کی تلاش میں رہنے لگا۔ برادرم ابصار افضل صاحب سے اس ضمن میں بات ہوئی۔ انہوں نے کہا تم دبئی آجاؤ تمہیں ایسی ہی ایک ہستی سے ملواؤں گا۔
یہ مولانا اسحاق مدنی ؒ تھے۔ ایک بڑے عالم، مصنف، شارح حدیث و مفسر قرآن۔ مالی وسعت کے باوجود انتہائی سادہ اور عام سی زندگی پر مطمئن اور خوش تھے۔ بہت چھوٹے کمرے میں رہتے اور کہتے کہ قبر اس سے بڑی ہو گی۔ٹھیٹھ پہاڑی میں دلچسپ گفتگو کرتے۔ ان کی محفل سے اٹھنے کو دل نہ کرتا۔چند سال قبل وہ بھی انتقال فرما گئے۔ مولانا یاسین صاحب سے تین ہی ملاقاتیں ہوئیں۔
اس مرتبہ بھی خواہش تھی جو پوری نہ ہو سکی۔ ان کے جنازے میں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ علمائے کرام کی ان کے بارے میں گفتگو سننے کا موقع بھی ملا۔ کہا گیا کہ ہر پھول اپنی خوشبو سے پہچانا جا تا ہے۔ اور مولانا کی خوشبو سب سے جدا تھی۔ کہا گیا کہ آج منگ کی سرزمین یتیم ہو گئی ہے۔ مولانا سعید یوسف صاحب نے کہا کہ وہ تبلیغی جماعت کے سرپرست تھے، وہ آزاد کشمیر میں جمیعت علما اسلام کے سر پرست تھے، وہ ہر خیر کے کام کے سرپرست تھے۔ وہ تحریک ختم نبوت کے بانی کارکنوں میں سے تھے۔
وہ منگ جو ہماری تاریخ حریت کا چشم دید گواہ ہونے کے ناطے ہمارے لیے شروع سے محترم و مکرم رہا ہے۔ مولانا یاسین صاحب نے اپنی ستر سالہ ریاضت سے اس کے مقام و مرتبے میں اضافہ کیا ہے۔ مولانا ہمارے لیے تاتوک ایمرے سے کم کسی صورت نہیں تھے۔وہ ایک بڑے عالم اور ولی اللہ تھے۔ان کے چلے جانے سے منگ کے ساتھ ہمارا ایک بڑا پیارا رشتہ آج ختم ہو گیا۔ اب وہاں جانے کی خواہش بھی دم توڑ گئی ہے۔ کہ اب ہماری پیاسی آنکھوں کی ٹھنڈک کا وہاں کوئی ساماں نہیں رہا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں