اقبال سے ملاقات/ادریس آزاد

گزشتہ شب خواب میں حضرتِ اقبالؒ کی زیارت ہوئی۔مجھ پر نظر پڑتے ہی مُسکرائے، اور شعرپڑھا،
خلوَتِ اُو در زغالِ تیرہ فام اندر مغاک
جلوَتَش سوزَد درختے را چو خس بالائے طُور
(اسکی (یعنی روشنی کی)خلوت (غیر موجودگی) میں یہ تاثیر ہے کہ وہ گڑھوں اور کانوں کے اندر سیاہ فام کوئلہ پیدا کر دیتی ہے، اور اسکا جلوہ کسی درخت کو کوہِ طور کی بلندی پر خس و خاشاک کی طرح جلا دیتا ہے۔)
میں نے خوشگوار حیرت سے علامہ صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا۔کچھ دیر یونہی پیار سے دیکھتارہا، پھر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے بھی اِسی نظم کا پہلا شعرپڑھا۔
جلوۂ می خواست مانندِ کلیمِ ناصبُور
تا ضمیرِ مستنیرِ اُو کشود اسرارِ نُور
(وہ (یعنی آئن سٹائن) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح بے صبر ہوکر (حقیقت کے) جلوے کا طلبگار تھا۔یہاں تک کہ اُس کے ضمیرِ مستنیر نے اس پر نُور کے سب اسرار کھول دیے۔)
یہ جگہ شاید کوئی پارک تھا۔ علامہ لکڑی کے ایک صوفہ نما بنچ پر، بنچ کی پُشت سے ٹیک لگائے، تشریف فرما تھے۔ہاتھ کے اشارے سے مجھے پاس بُلایا اور اپنے ساتھ بیٹھ جانے کو کہا۔ میں دِل ہی دِل میں بے پناہ خوش ہوا، اور جھٹ سے علامہ صاحب کے پہلو میں بیٹھ گیا۔
کچھ دیر ہم یونہی خاموش بیٹھے رہے۔ میں میں سوچ رہاتھا کہ آئن سٹائن کے حوالے سے اُن کے ساتھ مزید باتیں کروں۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کروں کہ علامہ صاحب خود ہی بول پڑے۔ مجھ سے سوال کیا،
’’ادریس آزاد! اگر میں تم سے کہوں کہ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کو کم سے کم الفاظ میں بیان کرو! تو تم کون سے اور کتنے الفاظ کا چناؤ کروگے؟‘‘
میں نے چند ثانیے سوچا۔پھر کہا،
’’آئن سٹائن کی اضافیت، گریوٹی، ٹائم اور سپیس کا نظریہ ہے۔‘‘
یہ کہنے کے کچھ ہی دیر بعد میں نے خود وضاحت بھی کردی کہ،
’’گریوٹی کا ذکر میں نے اس لیے کردیا ہے کیونکہ آئن سٹائن کا اصل اور بڑا نظریہ تو جنرل ریلیٹوٹی ہے، جو گریوٹی اور ٹائم اور سپیس کا نظریہ ہے۔
لیکن علامہ صاحب شاید میرے اس جواب سےمطمئن نہ ہوئے۔ کہنے لگے،
’’یہ الفاظ بھی زیادہ ہیں۔ اس سے بھی کم الفاظ میں بیان کرو!‘‘
میں نے عرض کی،
’’صرف ٹائم اور سپیس کا نظریہ ہے۔‘‘
انہوں نے قدرے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ اب مجھے لگا کہ میں نے گریوٹی کو خارج کرکے شاید غلطی کردی ہے۔ سو میں نے جلدی سے وضاحت کی،
’’گریوٹی تو فقط جیومیٹری ہے۔ حقیقی عناصر تو وقت اور خلا ہی ہیں مرشدِ من!‘‘
میری جلد بازی اور اضطرار کو بھانپ کر علامہ صاحب مُسکرانے لگے۔ اور فرمایا،
’’یہ الفاظ بھی زیادہ ہیں۔ ان سے بھی کم الفاظ میں بیان کرو!‘‘
میں کچھ دیر تک سوچتا رہا کہ اب اور کتنا مختصر کروں، اور کیسے؟ پھر میں نے عرض کی،
’’صرف ٹائم کی تھیوری ہے۔‘‘
یکایک علامہ صاحب کے چہرے سے مُسکراہٹ معدوم ہوگئی۔اور اس کی جگہ تجسس نے لے لی۔ مجھے سے پوچھنے لگے،
’’تم نے کس بِنا پر مکان (سپیس) کو خارج کردیا ہے اورفقط زمانے کو باقی رہنے دیا ہے؟‘‘
میں نےعرض کی،
’’جی، سپیس تو کنٹریکٹ ہوتی ہے نا، جب ولاسٹی بڑھنے لگے تو، اور کنٹریکٹ ہوتے ہوتے بالآخر زیرو ہوجاتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ مکان کا وجود ہی باقی نہیں رہتا۔ جبکہ ٹائم ڈائیلیٹ ہوتاہے، یعنی پھیلتاہے۔ اور پھیلتے پھیلتے اتنا بڑا ہوجاتاہے کہ گویا کائنات سے بھی بڑا۔ اتنا بڑا کہ گویا فقط ایک سیکنڈ بھی گزرنے کا نام نہ لے ، کبھی بھی۔‘‘
اقبال بنچ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے۔ میری بات سُن کر آگے کی طرف جھکے۔ مجھے لگا جیسے میں نے کوئی بڑی بات کردی تھی، کیونکہ علامہ صاحب نے یکایک پوزیشن بدل لی اور ان کےچہرے پر مکمل سنجیدگی چھا گئی۔ میں بھی جذباتی ہورہاتھا۔ اپنے آخری جواب پر علامہ صاحب کے تبصرے کا منتظر اُن کی طرف دیکھ رہا تھا۔
لیکن وہ خاموش ہوگئے۔ کافی دیر خاموش رہے۔شاید کچھ سوچ رہے تھے۔ پھر ایک طویل سانس لی اور دوبارہ بنچ کی پشت پر ٹیک لگاتے ہوئے یہ اشعار پڑھنے لگے،
ہستی و نیسی از دیدن و نادیدنِ من
چہ زمان وچہ مکان شو خی افکارِ من است
اے من از فیضِ تو پائندہ!نشانِ تو کجاست
ایں دو گیتی اثرِ ماست جہانِ تو کجاست
(ہستی و نیستی کا وجود تو میرے دیکھنے اور نہ دیکھنے سے ہے۔کیا زمانہ اور کیا مکان، یہ سب میرے افکار کی شوخیاں ہے۔
اے !۔۔۔ کہ میں تیرے فیض سے ہی وجود رکھتاہوں،تیرا نشان کہاں ہے؟ یہ دونوں جہان تو میرے جہان ہیں، تیرا جہان کہاں ہے؟)
نہ جانے علامہ صاحب کے پڑھنے کے انداز میں کیا تاثیر تھی کہ یکایک میرے جسم میں سردی کی ایک لہر سی دوڑی اور پھر مجھ پر باقاعدہ کپکپی طاری ہوگئی۔پھر یہ حالت اتنی شدید ہوتی گئی کہ خواب مزید جاری نہ رہ سکا۔
نوٹ: یہ خواب حقیقی نہیں ہے۔ محض ایک افسانہ سمجھ لیں، یا چشمِ تصور میں دیکھا گیا ایک خیال ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply