قصہ ایک انگریزی کتاب ریڈ برڈ تقریب رونمائی کا
نیلا آسمان ہزاروں سالوں سے کیا تغیرات زمانہ دیکھتا ہے کچھ دہائیاں پہلے کوئی سوچ سکتا تھا؟ سرخ پرندے برطانوی سفارت خانے کے زیر انتظام لائبریری میں اڑیں گے۔ چاہے وہ مادھو لال حسین شاہ کے بے ضر پرندے ہی ہوں ۔
حینف بھائی نے اپنی کتاب کا ٹائٹل مادھو لال حسین کی شاعری سے ہی مستعار لیا ہے(یہ انہوں نے تقریب رونمائی میں ایک سوال کے جواب میں بتایا) اور امن کی متلاشی طالبانی اور امریکی فاختائیں اپنے تیز دھاری پنجوں کو سفید امن کے پرچموں کے تار تار چیتھڑوں میں لپیٹ کر ماسکو میں امن کے گیت الاپنے لگیں گی۔
یہ انقلاب ہے یا ارتقاء یا پھر ان دونوں لفظوں کو مفادات کے دیوتا جب چاہیں جدھر گھسیٹ لیں۔
پروگرام شروع ہوئے پونا گھنٹہ ہو گیا ہے الجزیرہ کی صحافی صنم مہر حینف بھائی سے روایتی سوال کر رہی ہے۔ حینف بھائی غیر روایتی سچے کھرے اور دلچسپ انداز میں شستہ جواب دے رہے ہیں۔ ساری کاروائی انگریزی میں ہے۔ لائبریری چاہے کلفٹن کے پوش علاقے میں ہے۔ لیکن مچھر بالکل مچھر کالونی کی طرح حملے کررہے ہیں۔ کتاب کے بارے میں کم اور صحافیوں کو درپیش خطرات کے بارے میں بڑی آگاہی ہوئی ،کتاب میں نے تقریب سے پہلے دستخط کروالی تھی ۔
لوگ قطار بنائے کھڑے ہیں۔۔ میں جیسے بھاگم بھاگ پہنچا تھا ،ایسے ہی انگریزی اور مچھروں کے ڈر سے جلدی نکل آیا ۔بھاگم بھاگ پہنچنے کا قصہ یوں رہا کہ کچھ دن پہلے میں نے سوشل میڈیا پر پڑھا اتوار کو ریڈ برڈ پر تقریب ہورہی ہے ۔ میں نے سرسری سا پڑھ کر تقریب
کا وینیو ٹی ٹو ایف غلطی سے سمجھ لیا وہ گھر سے بہت قریب ہے۔۔ میں نے رجسٹریشن بھی نہیں کروائی، کیوں کہ میرا خیال تھا وہاں ایسی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج حینف بھائی سے پوچھا ٹی ٹو ایف کتنے بجے پہنچنا ہے، اس وقت چار بجے تھے۔۔ انہوں نے بتایا تقریب برٹش لائبریری میں ہے۔۔ اور رجسٹریشن بند ہو چکی ہے ۔ساتھ ہی انہوں نے کہا اگر آنا چاہتے ہو،تو میں تمھارا نام لکھوا دوں ؟اس طرح میں اس تقریب میں شامل ہو سکا۔یہ بھی اتفاق تھا کہ جب میں پہنچا تب ہی حینف بھائی بمہ بیگم پہنچے، گیٹ سے باہر ہی ملاقات ہوگئی ۔داخلہ ذرا عزت سے ہوگیا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں