عام اور بلدیاتی انتخابات کی جنگ/منصور احمد خان مانی

مسلم لیگ نون اگر سیاسی خودکشی سے بچنا چاہتی ہے، تو اس سال عام انتخابات کا اعلان کر دے، بصورت دیگر پی ٹی آئی کو بڑھاوا ملتا رہے گا، پاکستان پیپلز پارٹی این اے 237 کی نشست جیت کر خوش نہ ہو، پی پی پی نے اس نشست پر کم و پیش اتنے ہی ووٹ لیے ہیں جتنے 2018 میں لیے تھے یہاں ان کے ووٹ بینک میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا، پی پی پی نے ضمنی انتخاب این اے 237 اگر پی ٹی آئی سے جیتا ہے تو این اے 239 میں پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان تحریک انصاف سے ہاری بھی ہے، مجموعی طور پر مسلم لیگ نون کو ضمنی انتخابات میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی تین میں سے دو نشتیں جیت گئی، پیپلز پارٹی کی دونوں نشستیں(جیت) مخالف سیاسی جماعت کے غلط فیصلے کے مرہون منت رہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے بہر حال ضمنی انتخابات میں برتری حاصل کی، ضمنی انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب بہرحال عام انتخابات جیسا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ایک تاثر قائم کرنے میں مدد گار ثابت ضرور ہو سکتا ہے۔

ایم کیو ایم کی شکست فاش اس بات کا عندیہ ہے کہ الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم کچھ بھی نہیں، الطاف حسین پر باپندی آئینی ہے یا غیر آئینی اس بات کا بھی اب فیصلہ ہو جانا چاہیے۔

آگے کراچی میں بلدیات کے الیکشن ہیں جواگر سیلاب سے پہلے ہو جاتے تو شائد جماعت اسلامی ایک اچھی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی کیوں کہ حافظ نعیم ایک اچھا مومنٹم بنا چکے تھے، بلدیات میں تاخیر ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے حق میں ہے یہ دونوں پارٹیز کراچی میں فی الحال بلدیات کے الیکشن نہیں چاہتیں۔ میڈیا میں بولنا الگ بات ہے۔ اگر 23 اکتوبر کو کراچی میں بلدیات کے الیکشن ہوتے ہیں جس کے بظاہر امکان کم ہیں تو جماعت اسلامی، ایم۔کیو ایم، پی ٹی آئی، پی پی پی سمیت کوئی ایک پارٹی بھی واضح اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، ہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے باعث کوئی ایک پارٹی شائد اپنا میئر بنانے کی پوزیشن میں آ جائے۔

ویسے کراچی کی قسمت میں عام انتخابات ہوں یا بلدیات زیادہ تر فیصلے کہیں اور سے ہی اترتے ہیں ۔۔

میرے اکثر احباب کا خیال ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی اس بار اپنا مئیر لانے میں کامیاب ہو جائے گی، میرا ذاتی تجربہ اس حوالے سے مختلف ہے جانے کیوں کراچی کے عوام اکثر جماعت اسلامی کو چوم کر سائیڈ میں رکھ دیتے ہیں اور ووٹ کسی اور کو دے دیتے ہیں، یا پھر خود جماعت اسلامی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتی ہے۔میری زاتی رائے اس بار بھی یہ ہی ہے کے جماعت اسلامی اس بار یا جب بھی بلدیات ہوتے ہیں کراچی میں اپنا مئیر لانے کا خواب پورا نہیں کر سکے گی اس کے عوامل چاہے کچھ بھی ہوں۔

ایم کیو ایم کو اس بار بلدیات میں بھی کئی جگہ شرمناک شکست کا سامنا کرنا ہو گا اور اس کا باعث الطاف حسین کا بائیکاٹ اور ایم کیو ایم کی اندرونی لڑائی ہو گی جس کا سب سے پہلا فائدہ پی ٹی آئی، دوسرا جماعت اسلامی اور تیسرا پی پی پی کو ہو گا۔

جاتے جاتے ایک بات یاد آئی، نعمت اللہ خان جب مئیر کراچی تھے انہوں نے کورنگی کراسنگ سے لے کر کورنگی 4 نمبر تک سٹرک تعمیر کروائی تھی، اس سے آگے یعنی چار نمبر سے لے کر لانڈھی تک کی سڑک مصطفی کمال نے مکمل کروائی۔

پورا کراچی گھوم لیں۔۔  نعمت اللہ خان کے دور سے اب تلک کراچی کئی بار بارش میں ڈوب چکا ہے۔ لیکن وہ سڑک ابھی بھی جس معیار اور حال میں ہے نعمت اللہ خان کے لیے دعا نکلتی ہے۔

مصطفی کمال کے دور میں بھی کراچی میں کافی ترقیاتی کام ہوئے جو گذشتہ کا ہی تسلسل تھے اس میں الطاف حسین اور پرویز مشرف کا بھی کردار تھا جنہوں نے تعمیر کراچی کے اکثر ترقیاتی پراجیکٹس کو سیاسی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب پاکستان پھر عام انتخابات اور منی پاکستان بلدیاتی انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے، دیکھیے اس بار ہُما کس کے سر بیٹھتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply