یوں تو بخار کی کئی اقسام دنیا میں پائی جاتی ہیں لیکن فی زمانہ ہمارے ہاں دو قسم کے بخار کافی عروج پر ہیں۔
ایک تو بخار وہ ہے جس کے بارے میں چند ایک ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ “یہ ایک عام بخار ہے جس میں مبتلا افراد کو زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے” اس قول کی وجہ شاید یہ ہوگی کہ ہمارا مچھروں سے رشتہ بڑا پرانا ہے ،جیسا کہ “ایک دفعہ “لڈن جعفری” نے ملیر کی تاریخ میں شیر شاہ سوری کو مچھر کے کاٹنے سے ملیریا ہونے کا ذکر فرمایا تھا” تو اس رشتے کی بنیاد پر ڈاکٹروں نے زیادہ نہ ڈرنے کا مشورہ دیا کیونکہ یہ بخار بھی مچھر کے ہی کاٹنے سے ہو رہا ہے جسے ڈینگی” کے نام سے موسوم اور یاد کیا جاتا ہے ویسے بھی مچھروں کے ساتھ رہنے کو ہم نے عادتاً قبول کر لیا ہے، تو پھر بھلا کبھی کوئی اپنی عادت سے بھی خوف کھاتا ہے؟
یہ تو “اپنے سائے سے آپ ہی ڈرنے” والی بات ہوگئی۔۔اس لئے ڈریں نہیں بے فکر رہیں، بلکہ آپ دو چار ملیریا والے مچھر پال لیں جب کبھی ڈینگی کے مچھر آئیں گے ملیریا کے مچھر انہیں خود ہی مار بھگائیں گے، یا لڑتے لڑتے مر جائیں گے۔دونوں میں ہی آپ کا فائدہ ہے اور ویسے بھی مثل مشہور ہے کہ “لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے” تو پھر “مچھرہی مچھر کو کاٹ لے گا” اور آپ کو پھر ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔
یہ تو ہوا پہلا بخار۔۔اللہ اس میں مبتلا مریضوں کو شفا دے۔۔
اس کے بعد آتا ہے دوسرا بخار، جس کو آپ نشہ بھی کہہ سکتے ہیں۔لیکن یاد رکھیے، اس نشے میں مبتلا لوگ مکمل طور پر نشئ نہیں ہوتے،کیونکہ:
وہ نشئیوں کی طرح ہواؤں میں خود نہیں اُڑتے البتہ اڑتی ہوئی گیندوں کا پیچھا ضرور کرتے ہیں۔اسی طرح وہ ڈگمگا کر ایک دم گر نہیں جاتے البتہ میدان میں گرتے پڑتے کھلاڑیوں کو وہ بہت پسند کرتے ہیں۔
بالکل ایسے ہی وہ نشئیوں کی مانند گول دائرے بنا کر کسی چوک پر نہیں بیٹھ جاتے البتہ یوں دائرے بنا کر پلاننگ کرنے والے کرکٹرز انہیں بہت بھاتے ہیں۔
تو جناب یہ دوسرا بخار ہے
“کرکٹ کا بخار”
جس میں ہمارے وزیر اعظم سے لے کر عام آدمی تک سب مبتلا ہیں اور اکثر کی حالت بقول شاعر وہ والی ہے کہ:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کیونکہ اب وہ لوگ “ایشیائی کٹورہ” میرا مقصد “ایشیا کپ” ہارنے کے بعد “عالمی کٹورہ” المعروف “ورلڈ کپ” کی ٹرافی پر لگے ایک ایک ہیرے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
ویسے ایک بات ہے کہ اگر یہ بخار افراد یا قوم تک ہی محدود رہتا تو شاید پھر بھی بات کچھ بنتی ہوئی نظر آتی لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ “کبھی کبھار پانی برج خلیفہ سے بھی اوپر نکل جاتا ہے” اب بس ہمارے ہاں بھی حالات کچھ اسی طرح کے ہو گئے ہیں کیونکہ یہ بخار پہلے پہل افراد سے نکل کر اداروں تک پہنچا اور اب آہستہ آہستہ نصابی کتابوں میں بھی سرائیت کرنا شروع ہو گیا ہے۔
جسکے لئے ہمارے سامنے پہلی خبر یہ ہے کہ:
“سرفراز احمد چوتھی جماعت کا حصہ بن گئے۔”
سب سے پہلے تو اس شہہ سرخی کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ بھلا 14 جماعتیں پڑھنے والے کو دوبارہ چوتھی جماعت کا حصہ بننے کی کیا ضرورت پیش آ گئی؟
اور اگر ضرورت پیش آ بھی گئی تھی تو اس بارے میں چیخ چیخ کر سب کو بتانے کی کیا حاجت پیش آئی؟
وہ تو تفصیل میں جا کر معلوم ہوا کہ سرفراز احمد بنفس نفیس چوتھی جماعت کا حصہ نہیں بنے بلکہ ان پر لکھا گیا ایک مضمون چوتھی جماعت کی اردو کی کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
واہ بھئی واہ۔۔کمال ہی ہو گیا!
پہلے ایک بندے کو ٹیم سے دھکا مارو اور پھر اسکو گھسیٹ کر چوتھی جماعت میں بٹھا لو!
ویسے بھلے زمانے میں اس طرح کسی کو پڑھنے پڑھانے کیلئے اس شخصیت کے مرنے کا انتظار کیا جاتا تھا۔تو کہیں ایسا تو نہیں کہ بورڈ نے نصاب میں حال ہی میں انتقال فرمانے والے ادیب “کبیر احمد” یا “ظفر احمد” کو نصاب میں شامل کرنا تھا اور “احمد” سے دھوکہ کھا کر “سرفراز احمد” کو شامل کر لیا؟ کیونکہ سرفراز سے دھوکے کی کوئی امید نہیں کیونکہ “سرفراز دھوکہ نہیں دیتا” البتہ احمد سے دھوکے کا شائبہ ہے۔
یا پھر سرفراز احمد کو چلتی پھرتی لاش کے طور پر تسلیم کر کے شامل نصاب کر لیا گیا ہے تاکہ وہ دوبارہ ٹیم میں آنے کی ساری امیدیں چھوڑ کر اللہ اللہ کریں؟
خیر جو بھی ہے سرفراز احمد کیلئے واقعی یہ خوشی کا مقام ہے کہ وہ اس مقام کو حاصل کرنے میں سرفراز ہو گئے ،اسی لئے ہم انہیں چھوڑ دیتے ہیں “رنگ میں بھنگ ملائے بغیر”۔
اس کے بعد دوسری خبر کچھ یوں ہے کہ:
“بابر اعظم کا/کی کور ڈرائیو نویں جماعت کے نصاب میں شامل”
جس طرح سرفراز احمد کو نصاب میں شامل ہونے کیلئے ٹیم سے خارج ہونا پڑا ہے بالکل اسی طرح بابر اعظم کی کور ڈرائیو کو بھی نصاب میں شامل ہونے کیلئے انکے کیریئر سے مکمل طور پر نہیں تو کچھ عرصے کیلئے ضرور دور ہونا پڑا ہے کیونکہ انکی فارم بالکل اس طرح غائب ہو گئی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ!
ایک بات تو طے ہے کہ موجد طبیعات گیلیلیو گیلیلی نے مقدار و رفتار کے کلیات و جزئیات کو توڑ کر جوڑتے ہوئے اور طاقت و توانائی کے قواعد و ضوابط کو بگاڑ کر سلجھاتے ہوئے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ ایک قوم ایسی پیدا ہو گی جس پر “کرکٹ کا بخار یا نشہ” اس بُری طرح سے غالب ہوگا کہ وہ تسکین قلب کیلئے اپنی نصابی کتاب میں رفتار یا طاقت کو ماپنے کیلئے “کور ڈرائیو” کا سہارا لے گی۔لیکن ہمارا قومی بخار سر چڑھ کر بول رہا تھا اس لئے ہم نے ایسا کر دکھایا۔۔
یہاں میں ایک وضاحت ضروری سمجھوں گا کہ کوئی اس خبر سے یہ نہ سمجھے کہ جوں ہی آپ نویں جماعت کی طبیعات کی کتاب کھولیں گے فورا ً ہی بابر اعظم کی کور ڈرائیو آپکی طرف آ جائے گی اور آپ چابک دستی سے گر کر یا ڈائیو لگا کر گیند روک لیں گے بلکہ بات کچھ یوں ہے کہ “kinetic energy” کنیٹک انرجی کے فارمولے کے تحت سوال رکھا گیا ہے کہ “اگر بابر اعظم یہ کور ڈرائیو کھیلتے ہیں تو گیند کس رفتار سے باؤنڈری کی طرف جائے گی؟”
سوال میں لفظ “اگر” قابل غور ہے کیونکہ۔۔

اگر یہ “اگر” نہ ہوتا تو میرا جواب تو یہی ہونا تھا کہ بابر بھائی نے آج کل ایسے شارٹ کھیلنا تو در کنار انہوں نے شارٹ کھیلنا ہی چھوڑ دیے ہیں۔
مگر اب چونکہ “اگر” شامل سوال ہے اس لئے ہم خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں