تو روح کی بدن سے جدائی کی اکمل ترین صورت تو موت ہے اور دوسری دنیا یا عالم برزخ کا حقیقی مشاہدہ تو روح کو موت کے بعد ہی حاصل ہو گا جیسا کہ مرنے اور مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے، اس بارے آیات اور احادیث اشارہ کرتی ہیں کہ اس وقت انسان کے سارے پردے اٹھ جاتے ہیں۔ تخلیہ روح یعنی روح کے بدن سے جدائی کی دوسری بڑی صورت نیند ہے کہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق اللہ عزوجل نیند کی حالت میں روحوں کو ہمارے بدن سے نکال لیتے ہیں۔ لیکن یہ اپنی جڑ (root) بدن میں چھوڑ جاتی ہیں کہ جس کی وجہ سے بیداری کے وقت ان کی واپسی ممکن ہوتی ہے۔
اب جہاں تک نیند میں روح کے مشاہدات کا تعلق ہے یعنی خواب تو اس بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ تین قسم کے مشاہدات ہیں؛ کچھ شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں، کچھ انسان کے اپنے نفس کی طرف سے ہوتے ہیں اور کچھ فرشتے کی طرف سے ہوتے ہیں اور یہی آخری قسم والے سچے خواب کہلاتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ نیند کی حالت میں ہمارے روحانی مشاہدات میں ایک تہائی فی صد صحت کا امکان (probability) موجود ہوتا ہے۔
اور سچے خواب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا تو اس اعتبار سے “حقیقت کے علم” تک رسائی میں “خواب میں روحانی مشاہدہ” کا حصہ، “کتاب وسنت” کے علم سے حقیقت تک رسائی کی نسبت سے ایک تہائی کا چھیالیسواں حصہ ہوتا ہے۔ رہا مراقبہ تو اس میں روح کو بدن سے جدا کرنے کے لیے نیند کی کیفیت کے قریب جانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ مکمل نیند کی کیفیت نہیں ہوتی لہذا یہاں شعور غالب رہتا ہے۔ پس مراقبہ میں ایک تو روح کی بدن سے جدائی، نیند کی حالت میں جدائی سے کم ہوتی ہے اور دوسرا مرقبہ میں شعور کی بیداری، نیند کی حالت میں شعور کی بیداری سے زیادہ ہوتی ہے۔
پس مراقبہ میں روح کے مشاہدے سے جو علم حاصل ہوتا ہے تو اس کی صحت خواب میں روح کے مشاہدے سے حاصل شدہ علم سے کم ہوتی ہے کہ نیند میں انسانی شعور “پیسو موڈ” میں ہوتا ہے جبکہ مراقبہ میں “ایکٹو موڈ” میں، لہذا اس کی کارستانی بڑھ جاتی ہے۔ پس مراقبہ میں حقیقت کے علم تک رسائی ایک تہائی کے چھیالیسویں حصے سے بھی گر جاتی ہے۔ تو خواب، کشف سے بڑا ذریعہ علم ہے۔ مغرب میں میڈیٹیشن کروانے والے پریکٹیشنرز کا بیان تو یہ ہے کہ مراقبے میں انسانی شعور اپنی ایکٹوٹی کے ہائی لیول پر ہوتا ہے، ہور گل کر لو۔

حقیقت کے علم (ultimate truth) تک رسائی کی بہترین صورت یہ ہے کہ اللہ عزوجل کسی عالم دین کو وہ فہم وفراست، بصیرت اور سوجھ بوجھ دے دیں کہ جسے قرآن مجید میں “حکمت” کا نام دیا ہے اور اس حکمت کی روشنی میں وہ کتاب وسنت کی نصوص کی گہرائیوں اور وسعتوں میں غوطہ زن ہو کر علم وحکمت کے موتی نکالنے کی اہلیت حاصل کر لے۔ یہی اس مادی دنیا میں حقیقت کے علم تک رسائی کا مستند ترین ذریعہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں