یہ تقسیم ہند سے قبل کی بات ہے، جب علامہ اقبال اور رابندر ناتھ ٹیگور، ہند کے دو عظیم ہم عصر شاعروں کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سن 1913 میں ٹیگور کو ان کی شاعری کی شہرہ آفاق کتاب گیتان جلی پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ جس کے بعد سو سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج تک دوبارہ یہ اعزاز برصغیر کے حصے میں نہیں آیا۔
سن 1915ء میں ٹیگور کو شاہ جارج پنجم کے ہاتھوں نائٹ ہوڈ (سر) کا خطاب دیا گیا۔ لیکن 1919 میں ٹیگور نے پنجاب میں ہوئے سانحہ جلیانوالہ باغ کے نتیجے میں بطور احتجاج اپنا اعزاز واپس لوٹا دیا اور اور انگریز سرکار کو اپنے ضمیر کی آواز پر ایک خط لکھا جو آج بھی سنہری حروف میں لکھنے لائق ہے، اس نے لکھا :
“پنجاب میں ہمارے بھائیوں نے جو ذلتیں اور تکلیفیں اٹھائی ہیں ان کی روداد، ہر طرح کی زباں بندی کے باوجود، ہندوستان کے کونے کونے تک پہنچ چکی ہے اور ایک ہمہ گیر غم و غصے نے ہمارے عوام کے دلوں کو چھلنی کر دیا ہے۔ میں ان حالات میں اپنے ملک کی کوئی حقیر سی خدمت کر سکتا ہوں، تو وہ یہی ہے کہ میرے دہشت زدہ ہم وطنوں کے دلوں میں جو آگ سلگ رہی ہے اور اس سے احتجاج کی جو لہریں اٹھ رہی ہیں، ان میں اپنی آواز بھی ملا دوں۔ آپ کی طرف سے ہمارے سینوں پر لگائے ہوئے اعزازی تمغے ہماری تحقیر کا منہ بولتا ثبوت بن چکے ہیں، کیونکہ ایک طرف آپ قومی سطح پر ہماری تذلیل کرتے ہیں اور دوسری طرف انفرادی طور پر عزت افزائی۔ میرے لیے اب یہی راستہ ہے کہ میں ایسے تمام خصوصی اعزازات سے اپنے آپ کو پاک کر لوں اور جا کر اپنے ان ہم وطنوں کی صف میں کھڑا ہو جاؤں جن کی، بقول کسے، کوئی حیثیت نہیں اور جن کے ساتھ وہ ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے جو سراسر غیر انسانی ہے۔”
یہ وہ دور تھا جب پورے ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف نفرت اور مزاحمت اپنے عروج پر تھی اور تحریک ترک موالات کے تحت لوگوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ برطانوی سرکار کے عطا کردہ خطابات اور اعزازی عہدوں کو واپس کرنے کے ساتھ تمام سرکاری اور نیم سرکاری تقریبات میں شرکت کرنے سے انکار کریں۔
عین اسی زمانے میں انگریز سرکار نے جب علامہ اقبال کو نسبتاً کم یعنی خان صاحب، خان بہادر یا شمس العلماء کا خطاب دینا چاہا تو وہ ان خطابات کو اپنے مقام سے کم تر خیال کرتے ہوئے سخت معترض ہوئے، لیکن بعد میں جب سب سے بڑے خطاب سر کی پیشکش کی گئی تو اس کو بخوشی قبول کرلیا۔
ٹیگور مادری زبان کو مقدس سمجھتے تھے۔ ایک بار جب وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں کی دعوت پر پنجاب آئے تو طالب علموں نے ان کے استقبال کے لئے ان کا معروف بنگالی ترانہ گانا شروع کر دیا۔ ٹیگور نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے زیادہ خوشی ہوگی، اگر آپ پنجاب کی کوئی سوغات پیش کریں۔ چنانچہ ٹیگور کی خدمت میں ہیر وارث شاہ کے چند بند، ہیر کی روائتی طرز میں پیش کیے گئے۔ ٹیگور مسحور ہو کر رہ گئے اور محفل کے اختتام پر بولے میں زبان تو نہیں سمجھتا، لیکن جتنی دیر ہیر پڑھی جاتی رہی میں مبہوت رہا اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہو۔
ٹیگور کو علامہ اقبال سے بھی شکوہ تھا کہ انہوں نے اپنی مادری زبان پنجابی کے بجائے اردو اور فارسی کو شاعرانہ اظہار کا ذریعہ بنایا۔ یہ شکوہ تھا سر کا خطاب ٹھکرا دینے والے ایک بنگالی کا، اُس پنجابی شخص کے بارے میں جس نے انگریزوں کے عطا کردہ اس خطاب کو مرتے دم تک اپنے نام کے ساتھ زینت کے طور سجائے رکھا۔
نوٹ: مضمون کی تیاری میں وکی پیڈیا و دیگر مضامین سے مدد حاصل کی گئی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں