برداشت کا عالمی دن/چوہدری عامر عباس

دنیا بھر میں آج برداشت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1996 میں اقوام متحدہ نے 16 نومبر کو یوم برداشت کے طور پر منانے کا اعلان کیا جس کے بعد ہر سال اس دن کو برداشت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مذہبی شدت پسندی ہو یا سیاسی شدت پسندی عدم برداشت نہ صرف آج ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے بلکہ پاکستان کے معاشرتی و سماجی مسائل میں سے سب سے اہم مسئلہ ہے۔

حسن اخلاق اور برداشت لازم و ملزوم ہیں۔ یوں سمجھیں کہ حسن اخلاق کُل ہے جبکہ برداشت اسکا بنیادی جزو ہے۔ غالباً حضرت عیسٰیؑ سے روایت ہے کہ اگر کوئی شخص آپکے دائیں رخسار پر تھپڑ مارے تو آپ اپنا بایاں رخسار اس کے آگے کر دیجئے۔ بس اسی کا نام برداشت ہے۔ برداشت کا عملی نمونہ اگر دیکھنا ہو تو میں یہاں آقا دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی مثال دوں گا جنہوں نے پتھر کھا کر بھی اپنے دشمنوں کیلئے دعا کی، بدلہ لینے کی سکت رکھنے کے باوجود کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کیا۔ رشتے داروں کی گالیاں کھا کر بھی دعائیں بانٹی۔ سیرت طیبہ کا مرکز و محور برداشت ہی نظر آتی ہے۔

برداشت اگرچہ بہت مشکل ہے مگر یقین مانیں کہ کامیاب زندگی کا گُر بھی اسی میں مضمر ہے۔ آپ دنیا بھر کے تمام مذاہب اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو برداشت جیسے اہم مسئلہ پر کماحقہ مواد مل جائے گا۔ مذہب سے ہٹ کر تمام مکاتب فکر کا بنیادی فلسفہ برداشت ہی ہے۔ سیاسی عدم برداشت نے ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ اگر ہم برداشت کے سیاسی پہلو پر بات کریں تو تحریک انصاف کے خلاف یہ اعتراض کہ یہ عدم برداشت اور بد تمیزی کو فروغ دینے والی جماعت ہے بادی النظری میں یہ اعتراض کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقتاً کلی طور پر دیکھا جائے تو اس میں دیگر جماعتوں کا کردار بھی واضح نظر آتا ہے۔ اس گالم گلوچ اور عدم برداشت کلچر کے فروغ میں ساری جماعتیں برابر کی شریک نہ سہی لیکن سب نے اپنا اپنا مقدور بھر حصہ ضرور ڈالا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو زیادہ دور مت جائیں گزشتہ چالیس سال کی پاکستانی سیاسی تاریخ سے گرد ہٹا کر دیکھ لیجئے۔ ایسے ایسے واہیات قسم کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ زیرِ قلم نہیں لایا جا سکتا۔

اگر گالم گلوچ اور عدم برداشت والے کلچر کی بات کریں تو گزشتہ پانچ سے سات سال کے دوران یہ کلچر بہت تیزی سے فروغ پایا ہے۔ اگر آپ گزشتہ پانچ سال کا جائزہ لیں تو جب جب پی ٹی آئی کی قیادت یا ورکرز نے گالم گلوچ والی زبان استعمال کی تب تب مخالف جماعتوں نے بھی اس سے بڑھ کر گھٹیا زبان میں اس کا جواب دیا۔ پی ٹی آئی نے بدزبانی اور تھپڑ رسیدنے کو فروغ دیا تو خواجہ آصف، عابد شیر علی اور رانا ثناء اللہ کے “شیریں” بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ جہاں تک پی ٹی آئی ورکرز کی بات ہے تو ن لیگ کے ورکرز بھی اسی طرح کی زبان ہی استعمال کر رہے ہیں برداشت کسی جانب سے نہیں ہے۔

اب اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں کسی کا دفاع کر رہا ہوں۔ کوئی خود کو پاک پاوتر اور بری زمہ نہیں کہہ سکتا بلکہ کہ اس حمام میں بشمول پی ٹی آئی سبھی ننگے ہیں۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ پیش آنے والے حالات انسانی رویوں پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ گزشتہ حکومتوں کے مسلسل انتظامی بحرانوں نے پاکستان میں اس کلچر کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس رویے کی آبیاری کا ایک بالکل چھوٹا سا بلکہ کچھ لوگوں کے مطابق شاید نہ ہونے کے برابر ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ برداشت کا مطلب ہر قسم کے معاملات میں مفاہمت ہرگز نہیں ہے۔ ملک کی محبت اور ظلم کے خلاف ردعمل میں کسی مصلحت یا مفاہمت کے روادار نہیں۔ سیاست کے نام پر بدعنوانی کی حامی نہیں۔ جو بھی شخص بدعنوانی کا مرتکب ہو اسکی سختی سے بیخ کنی کی جانی چاہئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنے اردگرد لوگوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا سیکھیں یہی آج کے دن کا پیغام ہے۔ مہذب اور شائستہ انداز میں کی گئی مثبت تنقید سے ہی معاشرے کی اصلاح ممکن ہے اور اس سے بہترین سوچ کی راہیں کھلتی ہیں۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply