سفرنامہ بہاولپور(1)-محمد احمد

تاریخ کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے اور سیاحت سے دلچسپی کے باعث عرصہ سے بہاولپور دیکھنے کا شوق تھا،ارادہ تھا کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں بہاولپور کا مطالعاتی دورہ کیا جائے، اس کا ذکر برادرم محمود احمد سے کیا تو وہ بھی تیار ہوگئے،انہوں نے کہا کہ نومبر کے آخری ہفتے میں چلیں تو مجھے آسانی رہے گی. اسی اثنا میں کہ ہم پروگرام کو حتمی شکل دے رہے تھے تو مولانا خالد الحسینی نے واٹسپ پر بہاولپور میں موجود شکارپوری گیٹ کی تصویر بھیجی. اس کا پس منظر یہ ہے کہ مولانا خالد الحسینی سے تاریخی، ادبی اور علماء کرام کے حالات پر اکثر گفتگو رہتی ہے، انہوں نے ایک بار شکارپوری گیٹ کا تذکرہ کیا تھا، اس وجہ سے انہوں نے یہ تصویر بھیجی تھی.
جب انہوں نے تصویر بھیجی تو ہم نے انہیں اپنے پروگرام سے آگاہ کیا تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ بہاولپور تو میرا گھر ہے، آپ کو ہم بہاولپور گھمائیں گے، طئے یہ ہوا کہ 13 نومبر بروز اتوار کو چلیں گے، پھر مولانا خالد الحسینی کی نومولود نواسی کے انتقال کی باعث پروگرام ایک دن کے لیے مؤخر کرنا پڑا، ہم 14 نومبر پیر کے دن نکلے، یوں اچانک پروگرام کی وجہ سے بھائی محمود احمد بھی ساتھ نہیں جاسکے، کیونکہ ان کے طب کے امتحان چل رہے تھے. سفر میں تین ساتھی مولانا خالد الحسینی،جناب محمود حسن اور راقم الحروف شامل تھے. سفر کی تربیت اس طرح تھی، پہلے ٹھیڑھی سے کجھور کے پودے لینے تھے، پھر بہاولپور کا سفر کرنا تھا. ہمیں سفر کی شروعات میں غیر معمولی تاخیر کا سامنا تھا، دس بجے کا وقت طئے تھا، لیکن جب ٹھیڑھی کے قصبہ پیر منگیو پہنچے تو دو بج رہے تھے، وہاں ظہر کی نماز پڑھی، احباب نے پرتکلف اور لذیذ کھانوں سے تواضع کی، وہاں سے نکل رہے تھے تو تین بج چکے تھے. سفر موٹر وے کے ذریعے ہورہا تھا. مولانا خالد الحسینی کی رفاقت نے سفر کے مزے دو بالا کر رکھا تھا،کیونکہ مولانا خالد الحسینی ایک علمی، تاریخی اور تحقیقی میدان کے آدمی ہیں، آپ کو بزرگوں کے احوال ازبر ہیں. آپ نے سندھ کے ان گمنام علماء کی سوانح پر قلم اٹھایا ہے، جس پر پہلے کسی محقق نے نہیں لکھا، آپ کی وجہ سے ان بزرگوں کی سوانح اور خدمات تاریخ کا حصہ بنی اور یہ مولانا کا سندھ کی پر ایک بڑا احسان ہے.آپ سندھ کے درویش عالم دین اور فاضل دیوبند مولانا عبد الحئی گھوٹو کے لائق وفائق صاحب زادے ہیں. اس لیے پورے سفر میں مولانا صاحب کے ساتھ علمی، تاریخی گفتگو رہی، آپ کی مجلس میں بہت سی نئی معلومات ملتی ہے اور نئے گوشے واضح ہوتے ہیں.
ہم ساڑھے نو بجے بہاولپور میں پہنچے،ہمارے میزبان مولانا مفتی محمد مظہر اسعدی تھے، آپ چونکہ عمرہ کے سفر کے تھے. میزبانی کے فرائض ان کے جوان سالہ بیٹے اور فاضل نوجوان مولانا اسعد نے سرانجام دیئے. مولانا مفتی مظہر اسعدی جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فاضل اور مولانا اسعد مدنی رح کے خلیفہ مجاز ہیں، آپ جمعیت علمائے اسلام پنجاب کے سیکرٹری جنرل بھی رہے ہیں، اس وقت صوبائی نائب امیر اور وفاق المدارس بہاولپور کے ہیں. انہوں نے 1999 میں بہاولپور میں جامعہ اسعد بن زرارہ کی بنیاد رکھی، 2001 میں مولانا اسعد مدنی نے مسجد الاسعد کی بنیاد رکھی، اس ادارے میں دورے تک تعلیم دی جاتی ہے.
ان کے صاحبزادے مولانا اسعد جامعہ فاروقیہ کے فاضل ہیں، انہوں نے خوب اکرام کیا اور پرتکلف کھانوں سے تواضع تھی. بااخلاق اور باذوق آدمی تھے.
اب کچھ تذکرہ بہاولپور کی تاریخ کا بھی ہوجائے،شکارپور اور بہاولپور آپس میں گہرا رشتہ اور تعلق ہے.
شکارپور کے داؤد پوتہ اور بہاولپور کے نواب ایک ہی خاندان سے تھے. ان کے جد اعلی امیر چنی خان تھے. داؤد پوتہ خاندان نے 1617 میں شکارپور کی اور عباسی نوابوں نے 1727 میں بہاولپور بنیاد رکھی.
بہاولپور ایک تاریخی حیثیت کا حامل شہر ہے،ماضی میں برصغیر کی ایک ترقی یافتہ ریاست تھی،قیام پاکستان کے بعد بہاولپور پہلی ریاست تھی، جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا.
بہاولپور میں سات دروازے ہیں، جن میں ایک “شکارپوری گیٹ” بھی ہے، جو شکارپور کی یادگار میں بنایا گیا ہے، اس وجہ سے ہم شکارپور والوں پر حق بنتا ہے کہ بہاولپور ضرور دیکھیں.
جاری ہے……..
#محمداحمد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply