سپریم کورٹ میں ریکوڈک ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ریکوڈک کان میں کام کرنے والے مزدوروں کے تحفظ اور مراعات کیا طے ہوئیں؟ ریکوڈک میں کام کرنے والے مزدوروں کی مراعات لوکل مزدوروں سے بہتر ہونی چاہئیں. جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پراجیکٹ میں مسلسل پانی کےاستعمال سے بلوچستان میں خشک سالی ہو سکتی ہے.
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ریکوڈک منصوبے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی. وکیل مخدوم علی خان نے کہا ریکوڈک منصوبے میں تمام تر ماحولیاتی تحفظات کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے. کمپنی جو پانی استعمال کرے گی وہ جانداروں کے استعمال کے قابل نہیں. پائپ لائن سے جانے والا پانی گوادر بندرگاہ پر صاف ہونے کے بعد سمندر میں جائے گا. چیف جسٹس نے کہا کیا سمندر کا پانی ریکوڈک تک لا کر استعمال نہیں ہو سکتا؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا ریکوڈک سے گوادر 680 کلومیٹر ہے، روزانہ پانی لانا ناممکن ہے.
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا تحقیق کے مطابق ریکوڈک میں پانی کا ذخیرہ منصوبے کی مجموعی زندگی سے زیادہ ہے. چیف جسٹس نے کہا کیا یہ ممکن نہیں کہ غیر ملکی کمپنی صوبہ بلوچستان کے پانی کا ری سائیکلنگ پلانٹ لگائے؟ جسٹس یحییٰ آفریدی بولے بیرک گولڈ کے پاکستان اور دیگر ملکوں میں جاری منصوبوں میں مزدوروں کی تنخواہوں کا موازنہ بتائیں. جسٹس اعجازالاحسن نے کہا دنیا بھر میں کان کنی کرنے والے مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں. مزدوروں کے تحفظ کا فریم ورک بتائیں.

ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کار حکومتی ملکیتی اداروں کے وکیل جہانزیب اعوان نے کہا معاہدے میں حکومتِ پاکستان 50 فیصد سرمایہ کاری کر رہی ہے. حکومتی مالیاتی اداروں میں او جی ڈی سی ایل ، پاکستان پٹرولیم کمپنی لیمیٹید ،گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ کمپنی شامل ہے. کیس کی مزید سماعت 29 نومبر تک ملتوی کر دی گئی.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں