بیجنگ ایرپورٹ بہت بڑا اور مشکلات سے بھرا ہوا تھا۔ابھی ابھی تو یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ اس سے بھی دس گنا بڑا نیا ایرپورٹ تیار ہوچکا ہے۔ بس کوئی دم میں افتتاح ہوا چاہتا ہے۔اور وہ خیر سے ساری دنیا میں اپنے حجم اور جسامت کے اعتبار سے نمبرون ہوگا ماشاء اللہ۔ سپر پاور کے لیئے جلنے،بلنے، سڑنے کا ایک اور سنہری موقع۔
‘‘خدایا !اس کا تو ہر مرحلہ مشکلات سے بھرا ہوا تھا ۔اپنی آمد کا اعلان سکینرز پر آکرکرو ۔آگے آؤ،فارم بھرو،ہاتھ میں پکڑواور کیبنوں کے سامنے بیٹھے لوگوں کے سامنے حاضر ہوجاؤ۔لائنوں کوزگ زیگ کی صورت میں سٹیل کے ڈنڈوں سے بیریر بنا کر مقید کردیا تھا۔چلو شکر اِن مشکل اور تکلیف دہ سارے مراحل میں نوجوان پاکستانیوں نے بڑی مدد کی۔
کیبنوں کے عقب کا سارا پس منظر دیوار چین کے حسین اور موہ لینے والے نظاروں کا تھا۔تھکن کی درد سے نڈھال گوڈے اطمینان سے کھڑے ان کی جاذبیت سے مجھے لُطف اندوز کررہے تھے۔
چلو یہ مرحلے کٹے اور سامان لینے کے لیے Luggage ہال کی طرف جانے کے لیئے برقی سیڑھیوں کی طرف آئے۔ان کی ڈھلانی گہرائی جیسے پاتال میں اُترنے والے کنویں جیسی ہی تھی۔ آخری پوڈے کے عین قدموں میں مجھے اپنی بیٹی سعدیہ کھڑی نظر آئی۔
پل بھر کو رُک کر میں نے اُسے محبت پاش نظروں سے دیکھا اور لمحوں میں ہی وہ میری پیار بھری بانہوں میں سمٹ گئی۔گلے میں سفارتی کارڈ ڈالے، ہاتھوں میں سُرخ پاسپورٹ پکڑے اس نے پھرتی سے ہمارا سامان ٹرالیوں میں لدوایا اور ہمیں خودکار دروازوں سے باہر نکال کر ویٹنگ لاؤنج میں لے آئی۔
بچوں سے ملنے ملانے سے فارغ ہوکر میں نے بیٹی کو دیکھا۔اُسے ضرورت سے زیادہ سمارٹ یا دوسرے لفظوں میں کمزور دیکھ کر پریشان ہواٹھی تھی۔بار بار میرے اِس سوال پر کہ تم ٹھیک ہو؟
‘‘ہاں ہاں امّاں بالکل ٹھیک ہوں۔’’
پر میری تسلی نہیں ہورہی تھی۔میرے چھوٹے نواسے نے شرارت آمیز نظروں سے ماں کو دیکھتے ہوئے مجھے کہا۔
‘‘ارے نانو آپ تو یونہی پریشان ہورہی ہیں۔مامااتنا بازاروں میں گھومتی تھیں کہ سمارٹ ہوگئی ہیں۔’’
اور یہ وضاحت میرے پوچھنے پر کہ بازاروں میں چکروں کی کیا ضرورت پڑگئی ۔ وہ بولا تھا۔‘‘نانو شاپنگ ،شاپنگ۔’’
ماں نے ہنستے ہوئے نٹ کھٹ بیٹے کو گُھرکا اور باہر چلنے کا اشارہ دیا۔
بیجنگ کا آسمان ابرآلود تھا۔ ہواؤں میں ٹھنڈک اور تیزی تھی۔دراصل سیکورٹی کے صبرآزما مرحلوں نے رات سر پر کھڑی کردی تھی۔اف بڑا چیختا چنگھاڑتا ماحول تھا۔
گاڑی میں بیٹھ کر باہر دیکھا۔پُرہیبت منظروں کا ایک سلسلہ تھا جو ساتھ ساتھ چلنے لگا۔سچی بات ہے حیرت کا ایک سمندر دائیں بائیں موجیں مار رہا تھا۔فلک بوس عمارتیں جیسے کسی خودرو جنگل کی طرح اُگی ہوئی تھیں۔اِن کے گہرے رنگوں والے بیرونی حصّوں میں جڑے شیشوں سے منعکس ہوتی روشنیوں کی دودھیا چمک، اسفالٹ کی سڑکوں کی سیاہی اور سٹریٹ لائیٹس کی کم کم روشنی میں بھاگتا دوڑتا شُوں شُوں کرتا گاڑیوں کا لامتناہی سلسلہ گویا کِسی طلسمی کہانی کے صفحات کھول رہا تھا۔ جنوں بھوتوں والی پراسراریت کی ایک نو سٹلجیائی کیفیت طاری ہونے لگی تھی۔
کہانی بھی یاد آنے لگی تھی۔وہی کہانی۔چہار جانب سے اُمنڈتے پہاڑوں میں رہتے دیوؤں اور جنوں کی قید میں شہزادی کی ۔بچپن کی اس کہانی نے ماحول کی خوفناکی کا جو نقشہ ذہن میں تخلیق کر رکھا تھا۔خدا گواہ ہے سارا ماحول اس کا عکاس نظرآتا تھا۔ ہاں البتہ شہزادی کون ہے ؟یہ سمجھ سے باہر تھا۔
سڑکوں پر جرمنی ،امریکہ ،جاپان بھاگا پھرتا تھا۔مرسیڈیز ،اوڈی، رولس رائز، واکس ویگن ،ہونڈا، لیکسزدنیا کی ہر مہنگی سے مہنگی گاڑی یہاں دائیں بائیں چیختی چنگھاڑتی گزر رہی تھیں۔
تو پھر جینگوامن وائے Jianguomenwai کے علاقےDRCیعنی ڈپلومیٹک ریذیڈنسی کمپاؤنڈ کے چھٹے فلور کے ایک گھر میں داخل ہوئی۔ جہاں میری بیٹی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔داخلی دروازے پر چسپاں چاند تارے والے جھنڈے کی تصویر یقینا پاکستانی گھرانے کی نشان دہی کے لیے لگائی گئی ہوگی کہ عمارت میں چھوٹے چھوٹے ملکوں کے سفارت خانے بھی تھے۔بہت آراستہ پیراستہ فلیٹ تھا۔اِس آرائش و زیبائش کو دیکھتے ہوئے آنکھوں میں حیرت تھی۔کشادگی لیے کمروں کی دیواریں مہنگی خوبصورت پینٹنگز سے سجی تھیں۔چوبی فرش قیمتی چھوٹے بڑے قالینوں سے ڈھنپے نظرآئے تھے۔کونوں میں سجاوٹی اشیاء بھی توجہ کھینچتی تھیں۔پُوچھنے پُوچھانے کے دوران جانا کہ فرنیچر اور کچن کی چیزیں حکومت کی فراہم کردہ ہیں۔ہاں یہ کچھ سجاوٹی چیزیں بے شک ہم نے خریدی ہیں۔
فطرتاً بیٹی حساس اور غیر ضروری نمود و نمائش سے گریزاں مزاج رکھنے والی ہے۔ پریہاں یہ تام جھام سمجھ نہیں آیا۔
جی چاہتا تھا پُوچھوں اور پُوچھ بھی لیا کہ وطن کی محبت اور اس کی تیزی سے گرتی ہوئی اقتصادی زبوں حالی خالی خولی باتوں سے کہیں زیادہ عملی اقدام کا تقاضا کرتی ہے۔ ملک کا قیمتی زرمبادلہ اِس شوشا کی نذر کرنا کیا مناسب ہے؟
ممنائے لب و لہجے میں وہ معذرتیں پیش کررہی تھی۔
‘‘امّاں یہاں لوگ بہت رکھ رکھاؤ سے رہتے ہیں۔ٹپر واسیوں کی طرح تو نہیں رہا جاتا۔تھوڑی بہت ٹپ ٹاپ تو کرنی پڑتی ہے۔’’
رات گو ایک اجنبی ملک کے اجنبی شہر میں تھی۔تاہم نیند کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ نامانوس جگہیں،بستر تکیے کی تبدیلی کم کم ہی اثر انداز ہوتی ہے۔جوانی میں تو اثر پذیر ی کی یہ شرح صفر فی صدتھی کہ جسم نیندنے ستھر ملّیا جتھے پے گئی رات کا عکاس تھا۔ یہاں مگر تھوڑی سی عجب بات ہوئی کہ بے حد اپنائیت بھرے ماحول جہاں آپ کے ساتھ آپ کے دل کا ٹکڑہ محو خواب ہو،آنکھ کا کھل جانا اور دیر تک نہ لگنا ذرا حیران کن تھا۔ یہ احساس کہ بھئی میں تو صدیوں پرانے تاریخ ساز شہنشاہوں کے اس دیس میں ہوں جس کے ایک نہیں کئی عجوبوں نے اُسے زمانے بھر میں ممتاز اور منفرد کررکھا ہے۔
گھر کے سامنے رنگ روڈ نمبر 2پر ساری رات گاڑیوں کی بھاگ دوڑ اسی طرح جاری تھی جیسے کہیں آگ لگی ہواور فائر برگیڈ دھواں دھار رفتار سے بھاگتا جارہا ہو۔
صبح دم آنکھ کھلنے کی بیماری نے یہاں بھی نور پیر کے تڑکے ہی اٹھا کر بیٹھا دیا۔بالکونی میں آئی ۔سامنے گہری سرمئی رنگت کی عظیم الشان عمارت پر سُرخ جھنڈا ہواؤں کے زور سے پھڑپھڑاتا تھا۔ یہ کیمونسٹ پارٹی چائنا کی مرکزی کمیٹی کا پولیٹکل آفس تھا۔ اس بارے رات پتہ چلا تھا۔ چھدرے درختوں میں سے جھانکتے دروازے سے میری تصوارتی آنکھ اس کے عظیم رہنماؤں کو باری باری دیکھتی تھی۔ مچی مچی آنکھوں ،کچھ پچکی،کچھ پھولی گالوں والے ماوزے تنگ، چواین لائی،ڈینگ شیاؤ پنگ، چیانگ زے من،ہوجن تاؤ اور شی چن پنگ آگے پیچھے اپنے فلسفے، اپنے سیاسی اور معاشی نظام اور چینی قوم کو نشاۃثانیہ کے خوابوں اور ان کی تعبیروں کے منصوبوں کے پلندوں کے ساتھ نظر آئے تھے۔
شی چن پنگ خواب دکھانے اور ان کی تعبیریں دینے میں کتنا ماہر ہوگیا ہے۔کہتا ہے۔ہزار میل کے سفر کا آغاز پہلے قدم سے ہی تو ہوتا ہے۔بس اِس قدم کو لگن ،جذبے اور نیک نیتی سے اٹھالو۔اگلے قدم آسان ہوجائیں گے۔
عمارت کو تین سمت سے ڈھانپنے والا آسمان جس میں بیٹھا میرا خدائے واحد جس کی نظر کرم کی طلب گار یہ جاہل ،کاہل اور نالائق مسلم اُمّہ۔
نمی آنکھوں کو گیلا کرنے لگی تھی۔ شکوے زبان پر پھیلنے لگے تھے۔ آخر کیوں؟ تو نے ایسے لیڈر ہمیں کیوں نہ مقدر کیئے؟یقینا تیری دلچسپی اب دنیا کے اس کھیل تما شے کی سرکس کے نئے کھلاڑیوں کو رنگ Ringمیں اتارنے کی تیاریوں میں ہے۔
ٹپ ٹپ آنسو گالوں پر بہنے لگے تھے۔پاکستان کی آبادی جتنا بیجنگ چار پانچ سال پہلے سموگ کا بُری طرح شکار ہوا تھا۔انتظامیہ نے بڑی فیکٹریاں فوراً شہر سے باہر منتقل کیں۔درخت جڑوں سے اُکھاڑ کر لائے گئے اور ان کی پلانٹیشن ہوئی۔کہاں کی سموگ اور کہاں کی گرد آلود فضا۔
اس وقت میرے سامنے بیجنگ کا آسمان شفاف، آواخر مارچ کی خنکی سے بھرا تاحد نظر پھیلا فلک بوس عمارتوں کے بے انتہا خوبصورت جنگل میں گھرا حیران کرتا تھا۔ دائیں بائیں جاتی، مڑتی ایک دوسرے کو کاٹتی ،کہیں جھپیاں ڈالتی شاہرائیں اورگاڑیوں کا طوفان پریشان کن تھا۔
‘‘خدایا’’۔مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہورہا تھا۔ رشک اور حسد میں جلتی بُھنتی اندر آگئی تھی۔
1960میں یہی چینی میرے کراچی شہر کی بلندوبالا عمارتوں کو دیکھ کر کہتے تھے کاش ہمارے پاس بھی کراچی جیسا ایک شہر ہوتا۔
ناشتے کی میز پربیٹی نے میرے محسوسات اور جذباتی کیفیات پر کہا۔
تیس میل مشرق، تیس چالیس میل مغرب،ایسے ہی جنوب اور شمال کی طرف آسمان کو چُھوتا بیجنگ شہر ایک عجوبے سے کم نہیں۔
فروٹ باسکٹ میں سجی چھوٹی چھوٹی رسیلی شہد جیسی میٹھی نارنگیوں کو کھاتے ہوئے عمران نے میرے سامنے ٹائپ شدہ کاغذ رکھ دیا۔یہ میرا پروگرام چارٹ تھا۔ میں نے نظریں دوڑائیں۔
پہلی بسم اللہ آج بیجنگ کا گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ایک ایریل ویو قسم کا جائزہ تھا۔ نمبر دو پر دیوار چین تھی، اس کے بعد بیجنگ کی اہم جگہیں جن میں شہر ممنوعہ Forbidden City ، تھین آن من سکوائر ، تھیان شاؤ، قدیم بیجنگ کامسلم ایریا اور چھ سو سالہ قدیم مسجد ، ٹمپل آف ہیون میوزیم، آرٹ اینڈ کلچرل سینٹر، پیکنگ اوپیرا، شی آن مسلم تہذیب کا علاقہ۔ بلٹ ٹرین سے کوئی پانچ گھنٹے کا سفر،گونگ زو Guangzhou۔ایک خوبصورت شہر جس کی اہمیت ہم مسلمانوں کے نزدیک وہاں صحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص کے روضہ مبارک کی وجہ سے تھی۔ بات کتنی صحیح ہے واللہ علم بالصواب۔ بیجنگ سے ڈھائی گھنٹے کی پرواز، دن اور وقت کی ترتیب سب درج تھے۔
بھاپ اُڑاتا خوشبو بکھیرتا چائے کادم پخت بڑا مگ میز پر آچکا تھا۔رغبت سے ایک نظر اُسے دیکھتے ہوئے میرے اندر اُبھرتی ایک عجیب سی سوچ نے سوال کیا تھا۔اتنی گہری یاری والا ملک کہ مثالوں کے لیئے پہاڑوں اور سمندروں سے کم پر قناعت ہی نہ ہو۔اور میں جو کتابی کیڑا ہوں۔ مطالعے کی رسیا ہوں اِس لمبی چوڑی فہرست میں دیوارِ چین اور ایک آدھ مزید نام کے سوا کسی سے واقف ہی نہیں۔
چائے کے چھوٹے سے پہلے گھونٹ نے مسرور کیا۔خود کو تسلی دی۔‘‘کوئی بات نہیں۔یار سے ملنے آ تو گئی ہوں۔’’کاغذ پر ایک بار پھر نظریں دوڑائیں۔
ایک فوجی کی زندگی میں جس قاعدے کلیے اور نظم وضبط کا رکھ رکھاؤنظر آنا چاہیے وہ اس کاغذ سے عیاں تھا۔اس پروگرام میں کہیں میری مرضی شامل نہیں تھی۔ میرے خیال میں میری بونگیوں،بد حواسیوں، بھولنے، خجل ہونے اور ذلیل ہونے کے حسین تجربات سب کے بیڑہ غرق ہونے کے امکانات بڑے روشن اور واضح تھے۔
‘‘لوبھئی ہم تو ہوگئے نا مائنس۔’’
خود کو سُنانے کے سے انداز میں اِس جملے سے چھلکتی بیزاری کی ہلکی سی سٹراند کا احساس ہوا تھا۔شاید اسی لیے اندرنے ذرا تنبیہی انداز میں پھٹکارہ بھی تھا۔
‘‘ اری ا واحمق سُن ذرا ۔’’ اب اگر قوم موسیٰ کی طرح خدا نے یہ من وسلویٰ کی نعمت تیرے مقدر میں کردی ہے۔ کمبخت تو اُس ناہنجار قوم کی طرح ناشکری تونہ بن۔ اس خجل خواری کے لہسن پودینے والی چٹنی کے لیئے نہ مر۔ شکریہ بھیج اُوپر والے کو ۔سنکیانگ جانے کی آرزومند ہے۔تو سفارتی ربط و واسطے اور ناطوں سے تیرا یہ سفر آسان ہوسکتا ہے۔’’
شام تک داماد نے چاروں کھونٹ گھما کر میرا حشر نشر کر دیا تھا ۔ صفائی کا وہ عالم کہ کھانے کی پلیٹ نہ ملے تو دال چاول فرش پر ڈال کر کھا لو ۔ شہر مانگنے والوں سے پاک صاف جگہ جگہ پڑی سائیکلیں۔ آپ نے کہیں جانا ہے۔ سڑک کنارے بنے سٹینڈ سے سائیکل اٹھاؤ۔ جہا ں جاناہے وہاں پہنچو۔ سائیکل کو وہیں چھوڑو اور آگے بڑھ جاؤ۔کام پر جانے اور واپس آنے کے اوقات کے لیئے مخصوص نمبروں کی بسیں جن کے روٹ صبح و شام کے ان مختصر اوقات میں خاص بن جاتے ہیں کہ لوگوں کو انتظار کی زحمت نہ ہو۔
ستراسّی کی دھائی میں سنتے تھے ساری چینی قوم سائیکلوں پر سوار ہے۔پیڈل مارنے والے زمانے اب لد گئے ہیں۔سائیکل تو اب تفریح کا ذریعہ ہے۔ عوام اب شاندار ایرکنڈیشن گاڑیوں، بسوں اور میٹرو میں سفر کرتی ہے۔مخصوص یونیفارم پہننے والی عورت اب برینڈڈ کپڑے پہنتی اور ٹکا کے میک اپ کرتی ہے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں