گذشتہ برس آج کے دن میرے لڑکپن کے شہر پشاور کے افسوسناک سانحہ کےبعد تحریر کردہ دو نظمیں۔
میرے ابّو سلامت رہیں!!
“اے خدا، میرے ابو سلامت رہیں”
یہ دعا گو فرشتہ بھی کل صبح مارا گیا
ظالموں نے اسے بھون ڈالا ہے کچھ اس طرح
ناک نقشہ کہاں، اس کا چہرہ بھی اک لوتھڑا ہے
لہو میں نہایا ہو!
مارنے والے کا بھی تو اس عمر کا ایک فرزند ہے
ہاتھ اٹھائے ہوئے ننھے منے سے جو
یہ دعا مانگنا بھولتا ہی نہیں
“اے خدا، میرے ابو سلامت رہیں!”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری نظم
تابوتوں کا بوجھ!!
تم بھی کندھا دینا، بھائی
چھوٹے چھوٹے تابوتوں کو
بوجھ بہت بھاری ہوتا ہے
دیکھو، کندھا پھسل نہ جائے!
ان میں وہ ننھے منے سپنے سوئے ہیں
جو تاریک گھروں کے اجالے
اپنی چھب دکھلاتے، ہنستے کھیلتے رہتے تھے
چشم و چراغ ان حجروں کے جو
گھنی گھنیری تاریکی میں ڈوب چکے ہیں!!
چھوٹے چھوٹے ان تابوتوں میں ماؤں کی
آنکھوں کے تارے اب اپنی
ابدی نیند میں سوئے ہوئے ہیں
دیکھو، کندھا پھسل نہ جائے
چھوٹے چھوٹے تابوتوں کا

بوجھ بہت بھاری ہوتا ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں