چائے کے وقفے میں کرنل صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ درہ بُرزَل کے اُس پارشکمہ کے مقام پرموجود، کیپٹن(ڈاکٹر) مسعود پوسٹ آؤٹ ہو چکا ہے۔ اس کی شادی ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے، وہ منتظر ہے کہ کوئی اُس کی جگہ لے لے ۔ ہیلی کاپٹر آنے پر، تم جا کر اس کی جگہ لو گے۔ درہ برزل کو ماہ جون تک صرف ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی پار کیا جا سکتا تھا کیونکہ پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر بے تحاشا برف کے باعث پتھر روڑوں سے بنی سڑک کے ذریعے جانا ناممکن ہوتا تھا۔
اِس اثنا میں کرنل صاحب نے مجھے خوب ٹراؤٹ مچھلی کھلائی تھی۔ انہوں نے ایک کشمیری النسل نائب صوبیدار نذیر کو مچھلی کے شکار پر مامور کیا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں آفیسر میس کا باورچی انڈوں کی پڈنگ بہت ہی مزیدار بنایا کرتا تھا۔ میں نے ویسی لذیز پڈنگ پھرکبھی کہیں نہیں کھائی۔ ایک ہفتے کے اندر مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ کرنل موصوف کانوں کے کچے تھے۔ افسری جمانے کے لیے اپنے بے محابا قہقوں کو یک لخت روک سکتے تھے۔ سنجیدگی اور مسکراہٹ طاری کرنے، ہر دو کوششوں میں ان کی ایک آنکھ زیادہ کھلی اور سرخ ہو جاتی تھی۔ یونٹ چلانے کے لیے یا تو وہ صوبیداروں پر تکیہ کرتے تھے اور یا پھر ڈی کیو اکبر شریف کی بات مانتے تھے۔
فوری معاملوں میں اپنی یونٹ کے ساتھ ہی موجود ای ایم ای( انجینئرنگ اینڈ ٹیکنیکل کور) کی ایک چھوٹی سی ڈی ٹیچمنٹ (Detachment ) کے انچارج کیپٹن فدا کے کہے پر بھروسہ کرتے تھے جبکہ خود ان میں قوت فیصلہ کی بے حد کمی تھی۔ کیپٹن فدا سرخ و سپیدخوبصورت پٹھان اورنوجوان شخص تھا جو اردو خاصی اچھی بولتا تھا۔ ہنس مکھ، جیتا جاگتا شخص تھا۔ دوہری چالیں چلتا تھا۔ میرا ہم رتبہ تھا اِس لیے میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کرنل کی برائیاں کرتا تھا اور مجھے اکسا تا تھا کہ میں برزل کے اُ س پار جانے سے گریزاں رہوں۔ ہیڈ کوارٹر میں جا کرشاید میرے خلاف کان بھرتا تھا۔ کرنل کو سکھا تا تھا کہ ڈاکٹرحضرات کو کیپٹن کا عہد ہ تو مل جاتا ہے لیکن وہ فوج کے نظم و ضبط سے شناسا نہیں ہوتے اِس لیے ان کے ساتھ سخت اور سنجیدہ رویہ رکھا جانا چاہیے۔ کرنل صاحب کی مجبوری تھی کہ میں ان کا ماتحت تھا ،اِس لیے مجھ سے تو کھل نہیں سکتے تھے۔ گوری کوٹ میں واحد دوسرا افسرکیپٹن فدا ہی تھا جس کے ساتھ گپ شپ کرنے کے علاوہ Scrabbleبھی کھیلا جا سکتا تھا۔ مجھے فدا کے کردار کا شاید زیادہ معلوم نہ ہو سکتا اگر اگلے ہفتے میرا نشترمیڈیکل کالج کا کلاس فیلو اور گلگت کا رہائشی حفیظ گلگتی میری یونٹ میں نہ آجاتا۔ حفیظ مذہبی ذہن کا حامل اچھا شخص تھا اور مجھ سے عمر میں دو تین برس بڑا بھی تھا۔ میں اُس سے طالبعلمی کے زمانے میں بھی بے تکلف نہیں تھا البتہ ہم دونوں کا رویہ ایک دوسرے کی جانب دوستانہ رہا تھا۔ وہ شاید زیادہ مردم شناس تھا اسلیے فدا کو جلد سمجھ گیا تھا ۔ پھر میں بھی قائل ہو گیا تھا کہ حفیظ ٹھیک ہی کہتا تھا۔
حفیظ تو پہاڑی علاقے کا ہی رہنے والا تھا اِس لیے وہ پہاڑی علاقوں کی مشکلات اور نارسائی سے زیادہ آگاہ تھا۔ اس کے ساتھ گفتگو کرکے مجھے معلوم ہوا تھا کہ درہ برزل کے دائیں طرف کے علاقے سر سبز، خوبصورت اور نسبتاً قابل رسائی ہیں جبکہ بائیں طرف والے شکمہ اور گُل تری بے گیاہ، بنجر پہاڑ ہیں اور خاصی دور بھی۔ چونکہ کرنل صاحب نے مجھے اُ س طرف ہی بھیجنے کا سندیس دیا تھا اِس لیے میں نے اُن سے کہہ دیاتھا کہ میں آگے نہیں جاؤں گا۔ بجائے اس کے کہ وہ مجھ سے یہ پوچھتے کہ کیوں نہیں جاؤ گے؟ وہ کہہ بیٹھے تھے کہ کیسے نہیں جاؤ گے بس پھر کیا تھا۔ وہ ہونگے کرنل صاحب ۔ میں بھی مغل شہزادوں سے کم نہیں تھا ۔ہٹ دھرمی تو والدہ کے جِین سے ملی تھی۔ اِس لیے میں نے کہا تھا کہ بس نہیں جاؤں گا۔ اِس طرح ہم دونوں میں زیادہ ہی ٹھن گئی تھی۔ پہلی باراستور ہیلی پیڈ پہ حفیظ کو روانہ کرنے کے لیے گیا تھا تو ہیلی کاپٹر کے پائلٹوں میجر چیمہ اور نیوی کے لیفیٹنٹ خالد سے ملا قات ہوئی تھی۔
ہیلی کاپٹرمیں جگہ نہ ہونے کے باعث وہ تونہ جا سکا تھا پرمیجر چیمہ سے خوب گپ شپ رہی تھی۔ ایک بار پھر ہیلی کاپٹر آیا تو اس بارمجھے آگے جانے کی خاطراستور بھیجا جارہا تھا ۔میں نے پھر سے کہا تھا کہ میں ہر گز نہیں جاؤ ں گا ۔میں Cardioneurosis کا پرانا مریض ہوں اور یہ مرض عود کر سکتا تھا۔ کرنل صاحب نے مجھے کہا تھاکہ میں تمہیں بریگیڈ کمانڈر کے سامنے پیش کر دوں گا۔ میں نے فوجی بیلٹ اتار کر ان کے سامنے رکھ دی تھی کہ لیجیئے میں خود اتارے دیتا ہوں جا کرپیش کر دیجئیے گا۔ اِس حیص بیص کے سبب ہیلی کاپٹر پر کسی اور کو بٹھا کرآگے بھیج دیا گیا تھا۔ اب توکرنل صاحب سے میری bot زیادہ ٹھن گئی تھی۔ بات یونٹ میں پھیل چکی تھی ۔ میں عامتہ الناس ’’ عام فوجیوں‘‘ کا منظور نظر بن چکا تھا۔
ویسے بھی میں عام فوجیوں کی بیرک میں چلا جاتا،اُن میں بیٹھ کر اپنے رینک کھول دیا کرتا اور ان سے کہتا تھا کہ مجھ سے گھبراؤ نہیں میں افسر بعد میں ہوں اور ڈاکٹر پہلے۔ ایک صبح جب میں دفتر کے باہر جیپ سے اتراتو میں نے دیکھا تھا کہ شدید سردی میں ایک فوجی کی پیٹھ پہ خاصا بوجھ لدا ہوا تھا اورایک جابر قسم کا حوالداراُسے ادھراُدھردوڑارہا تھا۔مجھے دیکھتے ہی حوالدارنے سلیوٹ کیا تھا۔
میرے پوچھنے پر کہ یہ کیا ہو رہا ہے، اُ س نے فوجی انداز میں اونچی آواز میں جواب دیا تھا، ’’ سر یہ پٹھو پریڈ ہو رہی ہے‘‘۔مجھے بہت غصہ آیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ اُس کی پیٹھ پر سے وزن اُتروا دے۔ اس نے اسی لہجے میں جواب دیا تھا، ’’ سر! یہ کرنل صاحب کا حکم ہے۔‘‘ میں نے اس سے بھی اونچی آواز میں کہاتھا، ’’ اب میرا حکم ہے۔‘‘ اُس نے نہ چاہتے ہوئے بھی حکم کی تعمیل کی تھی۔
اتنے میں میرے عقب سے کرنل صاحب کی آوازسنائی دی تھی، ’’ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ میں گھوما تھااور حسب دستور سلیوٹ کر کے کہا تھا ’’ سراِس شخص کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔‘‘ کرنل صاحب کا چہرہ بگڑ گیا تھا، ’’ سزا دی جا رہی ہے اِس میں انسانی، غیر انسانی سلوک کی کیا بات ہے ‘‘؟ میں فوج میں نو وارد تھا لیکن میرے منہ سے یونہی نکل گیا تھا، ’’ سر کیا اِ س قسم کی سزا آپ آرمی کوڈ آف لاء میں مجھے دکھا سکتے ہیں؟‘‘ کرنل صاحب بڑ بڑاتے ہوئے اپنے دفتر میں چلے گئے تھے ۔ لگتا تھاکہ اِس قسم کی سزا واقعی فوج کے مینوئل میں نہیں تھی۔ اُس نوجوان کی سزا جاری نہیں رکھی گئی تھی۔ اُ س فوجی کا نام سجاول تھا ۔ وہ باورچی تھا اور فوج کی زبان میں ’’ ڈینگا ‘‘ تھا یعنی ٹیڑھے مزاج کا۔ ایک سزا کو باقاعدہ معطل کرا دینے سے میں فوج کے نچلے طبقے میں تو ہر دلعزیز ہو گیا تھا لیکن بریگیڈ کے افسروں میں میری شہرت خراب ہو گئی تھی کہ میں سرے سے فوجی نہیں تھا Damn Civilian تھا۔
اِس واقعہ کے دو روز بعد صبح بیدار ہونے سے تھوڑی دیر پہلے میں نے خواب میں دیکھا تھا جیسے میں علی پور میں تھا، برتن کھنک رہے تھے، ماں اور بہنوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ گھر کے کام ہو رہے تھے اور ناشتے کاوقت تھا۔ میری آنکھ کھلی تو خواب کا تاثر ابھی زندہ تھا لیکن میں ایک اور ماحول میں تھا۔ اٹھ کرتومیں بیٹھ گیا تھا پر طبیعت انتہائی مکدر تھی۔ مجھے ایسے گم سم بیٹھے دیکھا تو حفیظ گلگتی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا بات ہے۔ مجھے لگا تھاجیسے میں اپنے حوا س میں نہیں تھا۔
میں نے اس سے کہا تھا،’’ بکواس بند کرو میں جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں چپل پہنے، بغیر کوئی گرم کپڑا اوڑھے باہر نکل گیا تھا اور تیز تیزقدموں سے استور کی جانب چلنا شروع کردیا تھا۔ حفیظ بھاگ کر میرے پیچھے آیا تھا۔ میں نے مڑ کراسے گندی گالی بکی تھی اور متنبہ کیا تھاکہ اگر مجھے روکنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہو گا۔ وہ بیچارہ تو بوکھلا ہی گیا تھا کیونکہ میں نے اس سے بے تکلف نہ ہونے کے باوجوداُسے ایسی گالی دے دی تھی۔ وہ الٹے پاؤں لوٹ گیا تھا۔ مجھے واقعی ہوش نہیں تھا۔ نہ سردی کی پرواہ تھی اور نہ چپلوں میں گھس کرچبھتے کنکر روڑوں کا خیال ۔ میں بس چلا جا رہا تھا۔
پیچھے سے ایک جیپ کا شور سنائی دیا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ کوئی میرے پیچھے آیا ہو گا۔ میں ڈھلوان کی جانب اتر گیا تھا اور میں نے آدھی اینٹ جتنا ایک پتھر ہاتھ میں اٹھا لیا تھا۔ جیپ چلانے والے نے جیپ ٹیڑھی کرکے سڑک بلاک کردی تھی۔ جیپ میں سے ایک سینئر کیپٹن ڈاکٹر گل اُتراتھا ۔ گل کرنل صاحب کا چہیتا تھا اور یونٹ سے آؤٹ ہو کر جا رہا تھا، وہ اصل میں مہمان تھا۔ وہ یہ کہتا ہوا، ’’ کیا بات ہے کیپٹن مجاہد مرزا؟‘‘ میری طرف بڑھا تھا تو میں نے پتھر تان کراسے غیض آلود آواز میں دھمکی دی تھی:
’’کیپیٹن گل! اگر تم میری طرف بڑھے تو میں اس پتھر سے تمہارا سر پھوڑ دوں گا‘‘
مجھے لگتا تھا جیسے میری آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے ہیں۔ میرے جسم پر لرزہ طاری تھا اور باوجود شدید سردی کے مجھے پسینے آرہے تھے۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتا اور یہ کہتا ہوا ’’ مارو یار۔۔۔مارو‘‘ میری طرف آیا تھا اور پھر تیزی سے بڑھ کر مجھے اپنے بازوؤں میں بھر لیا تھا۔ مجھے اس کی آغوش سے یکدم نجانے کِس تحفظ کا احساس ہوا تھا کہ پتھر خود بخود ہاتھ سے چھوٹ کر گرگیا تھا اور چٹانوں سے ٹکراتا ہوا گہرائیوں میں لڑھک گیا تھا ۔ مجھ پر رقت طاری ہو گئی تھی۔ کیپیٹن گل مجھے اسی طرح بازوؤں میں بھرے بھرے جیپ تک لایا تھا اور جیپ کے عقب کی نشستوں پر مجھے اسی طرح لیے بیٹھا رہا تھا۔
جب میری ہچکی رکی تھی تو میں طوفان کے بعد کے سمندر کی طرح شانت ہو گیا تھا۔ میس میں جا کرگل نے مجھے میرے بستر پر لٹا دیا تھا اور دروازہ بند کر کے باہر نکل گیا تھا۔ میں اُ س روز یونٹ آفس نہیں گیا تھا بلکہ بہت دیر تک سوتا رہا تھا۔ دفتر سے لوٹ کر حفیظ نے پوچھا تھا،’’ ٹھیک ہو؟‘‘ میں نے نہ صرف اپنے صبح کے رویے کی اس سے معذرت کی تھی بلکہ ہم دیر تک باتیں کرتے رہے تھے ۔ شام ڈھلے مجھے پھر کرنل صاحب کا سلام آیا تھا۔ جب میں اُنکے کمرے میں جا کراٹین شن ہوا تھا تو لگتا تھا جیسے ان کی بھیڑیں مر گئی ہوں۔ چہرے پر خشونت کا پہرا تھا۔ ایک آنکھ زیادہ بڑی اور دوسری کم چھوٹی ہو چکی تھی۔ مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے بولے تھے:
’’ تمہارا کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’ سر میں Cardioneurosis کا مریض رہا ہوں، اب مجھے لگتا ہے جیسے میرے اعصاب جواب دے رہے ہیں۔ آپ مجھے معائنہ کے لیے سی ایم ایچ راولپنڈی ریفر کر دیں۔‘‘ میں حضرت سلیمان کی جیل سے کس قدر سادگی سے نکلنا چاہتا تھا۔اِس پہاڑی سلسلے کے متعلق مقامی لوگ یہی کہتے تھے کہ یہ حضر ت سیلمان کی جیل ہوا کرتی تھی، جہاں وہ جنوں کو قید کیا کرتے تھے۔
کرنل صاحب بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے۔ انہوں نے اپنا پینترا بدلا تھا اور انتہائی نرم خوئی اختیار کرتے ہوئے گویا ہوئے تھے۔ ’’ میں سمجھتا ہوں، میں سمجھتا ہوں! میں تمہیں گلگت کے CCS ریفر کردیتا ہوں۔ وہاں کا میڈیکل سپیشلٹ تمہیں پنڈی منتقل کردے تھا‘‘۔ میں نے سوچا چلو توپ کے لائسنس کی درخواست سے پستول کا لائسنس تو ملا اِس لیے متشکر ہوا تھا۔ اگلے روز مجھے گلگت بھجوا دیا گیا تھا۔ گلگت پہنچ کر مجھے CCS میں ایک آرام دہ کمرہ دے دیا گیا تھا جس کے ساتھ اٹیچ باتھ بھی تھا۔ دوسرے روز ایک سول میڈیکل سپشلٹ میرے معائنے کے لیے آیا تھا۔ اُس کا نام فرمان تھا۔ وہ گلگت کا ہی رہائشی تھا اور نشتر میڈیکل کالج میں ہم سے کچھ سال سینئر تھا۔ میں نے اسے پرانے مرض کے بارے میں بتا کر یہی کہا تھا کہ مجھے پنڈی ریفر کردیں۔
میں اگرواقعی مریض ہوتا تو میں کمرے میں رہتا ۔ میں دن بھر گھومتا پھرتا تھا۔ گلگت کے بازار، حفیظ کا گھر اور جو کچھ بھی دیکھ سکتا تھا دیکھا تھا۔ انہی دنوں ایک روز میں کیپٹن شمیم اور کیپٹن بٹ کے غسل خانے میں نہانے کے لیے گیا جہاں کچھ اندھیرا سا تھا۔ مٹی کے تیل کا ایک چولہا روشن تھا ۔ میرے لیے ان کا بیٹ مین ٹب میں جو پانی انڈیل کرکے گیا تھا وہ بہت ہی گرم تھا۔ میں نے ساتھ پڑے جیری کینوں کو ہلا کر دیکھا تو ایک میں پانی موجودتھا اور وہ بھی ٹھنڈا ۔ میں نے اُس میں سے ٹھنڈا پانی ٹب میں انڈیلا تو دروازے کی ریخ سے آتی روشنی میں مجھے یہ پانی ہلکا گلابی دکھائی دیا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ دریا کا پانی ہے۔ دریا کی مٹی کا رنگ ہوگا۔ اب پانی اسقدر گرم نہیں رہا تھا۔
میں نے پانی کے دو ایک مگ بھر کے سر پر انڈیلے تو مجھے جسم پر کہیں کہیں ہلکی سی جلن کا احساس ہوا تھا ۔جب پانی کا تیسرامگ سر پر ڈالنے کے بعد میں نے بالوں پر ہاتھ پھیرا تھا تو بالوں کو آپس میں جڑاہوا پایا تھا۔ یہ ماجراسمجھ نہیں آیا تھا۔ ناک نزلے کی وجہ سے بند تھی لیکن مجھے مٹی کے تیل کی ہلکی ہلکی بو محسوس ہونے لگی تھی۔ مجھے یک لخت ٹھنڈے پانی کی گلابی مائل رنگت او ر بالوں کے جڑنے کی سمجھ آ گئی تھی۔ میں نے گرم پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اُس میں ٹھنڈے پانی کی بجائے خاصی مقدار میں مٹی کا تیل شامل کر لیا تھا۔
اگرچہ پانی ملے مٹی کے تیل کو آگ نہیں لگتی لیکن میں نے احتیاطاَ پہلے جلتے ہوئے مٹی کے تیل کے چولہے کو پاؤں سے ہٹا کر دور کیا تھا، پھر تولیہ باندھ کر باہر آیا تھا تاکہ تیل کودھو ڈالنے کے لیے کوئی مناسب چیز جیسے شیمپو یا واشنگ پاؤڈر لے سکوں۔ کیپٹن بٹ ڈیوٹی سے عارضی طور پرکمرے میں لوٹا تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ غلطی سے میں مٹی کے تیل سے نہا لیا تھا تو اس نے ماچس کی جلتی تیلی ہاتھ میں تھام کر کہا تھا کہ ذرا میرے نزدیک آکر تو دکھاؤ۔ میں کھسیانا ہو کر ہنس رہا تھا اور وہ قہقہے پر قہقہہ لگائے جارہا تھا ۔ پھر اس نے مجھے واشنگ پاؤڈردے دیاتھا،جس کی مدد سے میں نے جسم سے مٹی کا تیل دھوڈالا تھا۔
ایک روز کے بعد میں نے محسوس کیا تھا کہ سول ہسپتال سے میرے معائنے کے لیے آنے والا سپیشلسٹ ڈاکٹر فرمان شاہ مجھ سے گھبرایا گھبرایا سارہتا تھا۔ کچھ روز کے بعد جب میں، شمیم اور بٹ کے ہمراہ بیٹھا چائے پی رہا تھا تو میں نے تعجب کا اظہار کیا تھا کہ ڈاکٹر فرمان پتہ نہیں میرے آگے بھیگی بلی کیوں بنا کھڑا ہوتا ہے؟ اس بات پر کیپٹن بٹ کا قہقہہ چھوٹ گیا تھا۔ اس نے بتا یا تھا کہ ایک بار اس نے ڈاکٹر فرمان سے مذاق میں کہہ دیا تھا کہ بہتری اِسی میں ہے کہ کیپٹن مرزا کو راولپنڈی ریفر کردو۔ مرزا تو پاگل ہے، ایک روز وہ مٹی کے تیل سے نہا بھی لیا تھا۔ ایک تو فرمان سادہ گلگتی تھا دوسرے بٹ کا ڈرامائی انداز بیان۔ اُس پہ خاصا اثر ہوا تھا۔ میں بھی اِس سلسلے میں چپ رہا تھا کہ چلو اِس بہانے وہ مجھے راولپنڈی منتقل کردے گا۔
میں فوج کے اندرونی جاسوسی نظام سے ناشناسا تھا۔ اگر واقعی سمجھتا تو میں ان دنوں ہسپتال کے کمرے میں صاحب فراش رہتا ۔ فرمان کے سامنے کوئی الٹی سیدھی حرکت کرتا لیکن میں تو گھومتا رہتا تھا بلکہ ایک بار پتہ نہیں کیوں وردی پہن کر شہرچلا گیا تھا۔ ایک سرخ و سفید میجر ہوتے تھے۔ ان کا نام ضیاء الدین بٹ تھا۔ وہ عموماَ بغیر وردی کے ہی ملتے تھے۔ بازار سے گذرتے ہوئے میری ان پر نظر پڑی تھی ۔وہ ایک دکان میں مقامی آدمیوں کے پاس اونی چادر اوڑھے بیٹھے تھے، میں نے کھڑاک سے سلیوٹ دے مارا تھا ۔ وہ شام کو ملنے آئے اور بولے ،’’ یار ڈاکٹر! تم نے تو میرا کام خراب کردیاتھا۔ میں تو وہاں ٹھیکیدار کے روپ میں بیٹھا تھا اور تم نے مجھے سلیوٹ کردیا۔ بڑی مشکل سے بات یہ کہہ کر ٹالی کہ تم میرے ایک شناسا کے بیٹے ہو اور تعظیماَ سلیوٹ کیا ہے‘‘ یہ صاحب آئی ایس آئی سے تھے۔ اب یہ ادارہ سروسز کی اندرونی جاسوسی کے کام کی بجائے کچھ اور ہی قسم کے کام کرنے لگا تھا۔
پھر ایک روز کیپٹن فدا گلگت آیا تھا، وہ مجھے ملنے آیا تو میں نہیں تھا۔ اس نے جاکر میرے کر نل کو اطلاع دی تھی اور انہوں نے CCS کے کرنل کو فون کر دیا تھا۔ یوں شام تک مجھے ہسپتال سے فارغ کردیا گیا تھا۔
اِس واقعے سے ایک روز پہلے شاہراہ ریشم پہ کام کرنے والے چینی کسی مریض کا معائنہ کرانے پہنچے تھے ، معائنہ تو کرلیا تھااور نسخہ بھی تجویز کردیا تھا مگر ایکسرے نہ کرنے کے لیے فلمیں نہ ہونے کا بہانہ بنا دیا تھا۔ میں ان کے چینی مترجم سے پہلے ہی گپ لگا رہا تھا۔ مجھے بڑی کوفت ہوئی تھی۔ میں سیکنڈ اِن کمانڈ کے پاس گیا تھااور ان سے بحث کرکے چینی مریض کا ایکسرے کروا دیا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئے تھے اور کہا تھا کہ ہمارے ہاں ضرور آئیں۔ میں آتے جاتے ان کے کیمپ دیکھ چکا تھا۔ انہوں نے لکٹری کے گھر بنا کر اپنی بستیاں بسائی ہوئی تھیں اور شام ڈھلنے پر اپنے اپنے سٹول ہاتھ میں پکٹرے سرخ جھنڈوں سے سجائے میدان میں شاید ماؤ کے اقوال سننے کے لیے اکھٹے ہواکرتے تھے۔
ان سبھوں نے ایک ہی قسم کا لباس زیب تن کیا ہوتا تھا ۔جب ہم جیپ میں بیٹھے ان کے قریب سے گزرا کرتے تو وہ ہاتھ بھی ہلایا کرتے تھے۔ مجھے ایک ہی چینی فقرہ آتا تھا ’’ نی ہاؤ‘‘ یعنی کیسے ہو۔ وہ ’’ہی ہاؤ‘‘ کہہ کر جواب دیتے تھے۔ لوگ بتاتے تھے کہ یہ اپنے کیمپوں میں عام سائز سے کہیں بڑے ٹماٹر اور مولیاں کاشت کر لیتے تھے۔
اگلے روزہی چھٹی سے آئے ہوئے جوانوں کے ہمراہ مجھے یونٹ واپس جانا تھا۔ جیپ میں جاتے ہوئے ایک سپاہی کی سگریٹ سے حیش کی بو آئی تومیں نے اُس سے اپنے حصے کے کش مانگ لیے تھے ۔وہ شرمندہ بھی ہوا تھااور خوش بھی۔ شرمندہ اس لیے کہ وہ ’’جرم‘‘کرتے ہوئے رنگوں ہاتوں پکڑا گیا تھا اور خوش اس لیے کہ افسراس سے اتنی بیباکی سے کش مانگ رہا تھا۔
جب چینیوں کا کیمپ آیا تو میں نے جیپ رکواکر ’’ لی ماؤ‘‘ نامی مترجم کو ڈھونڈا تھا۔ وہ مل گیا تھا اور بہت خوش ہوا تھا۔ ہمیں اپنے لکڑی کے گھر میں لے گیا تھا۔ وہاں موجود چینیوں سے تعارف کرایا تھا جن میں دو ماہر ڈاکٹر تھے اور ایک انجینئر تھا ۔پھر ہمارے لیے سبز چائے کے بڑے بڑے مگ بنائے تھے اور یہ کہہ کر کہ ہم شکر استعمال نہیں کرتے لیکن آپ کے لیے شکر ہے ہمیں پیش کیے تھے۔ جانے سے پہلے انہوں نے ٹافیاں پیش کی تھیں جو ہمارے ندیدے سپاہیوں نے میری جانب سے آنکھ کے اشارے سے روکنے کی کوشش کے باوجود مٹھی بھر بھر کے جیبوں میں ڈال لی تھیں۔ سیون اپ کی بوتلوں جیسی دو شراب کی بوتلیں مجھے تحفہ کر دی تھیں۔ میں مخمصے میں پڑ گیا تھا کہ میں کیا تحفہ دوں۔
میں نے چرس نوش سپا ہی کو، جس کا نام ریاض تھا اور ملتان کا رہنے والاتھا کہا تھاکہ دو سگریٹ بھرو۔ اس نے سب کے سامنے وہ سگریٹ بھرے تھے۔ پھر میں نے مترجم کوسمجھایا تھا کہ یہ سگریٹ باری باری کش لے کر پیئے جاتے ہیں۔ مترجم نے کش لے کر آگے کردیا تھا اور مجھ سے پوچھا تھا کہ اِس سگریٹ میں ڈالی جانے والی چیز کو کیا کہتے ہیں؟ میں نے اسے بتا یا تھا،’’ چرس۔‘‘ وہ سٹول سے اٹھ کر میز کے پاس گیا تھااور ایک کاغذ پر ’’ جرس‘‘ لکھا تھا ۔ میں نے ج میں دو نقطوں کا اضافہ کر کے اسے چ میں بدل دیا تھا ۔
لی ماؤ نے ایک بہت ہی موٹی چینی اردو لغت کھول کر یہ لفظ ڈھونڈا تھا جس کے آگے اردو میں درج تھا ’’ایک نشہ آور شے‘‘ ۔اس نے مجھ سے اپنے چینی لہجے والی اردو میں کہا تھا،’’ میں نہیں پیوں گا یہ ایک نشہ آور شے ہے۔‘‘ لیکن اس نے باقیوں کو چینی زبان میں تنبیہہ کرنے سے گریز کیا تھا۔ ظاہر ہے یہ تہذیب کی نشانی تھی۔ میں نے تحفہ میں دی گئی بوتلوں کی جانب اشارہ کر کے کہا تھاکہ یہ بھی تو نشہ ہے، اس نے جواب میں کہا تھا کہ یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز، میں تھوڑا ساشرمسار ہوا تھا۔ میں نے پھر شکریہ کہا تھااورہم روانہ ہو گئے تھے۔
پھر وہی دل دہلا دینے والاسفر، بالآخر خیر خیریت سے شام تک گوری کوٹ پہنچ گئے تھے۔ تھوڑا سا سستا کر میں بوتل سمیت کرنل صاحب کے کمرے میں گیا تھا اور جا کر بوتل ان کے سامنے میز پر رکھ دی تھی۔انہوں نے استفسار کیا تھا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے کہا تھا،’’سر چینی شراب ہے۔‘‘ان کی آنکھیں تو چمک اٹھی تھی لیکن انہوں نے لینے سے انکا ر کر دیا تھا۔
میں نے واپس اپنے کمرے میں جا کر اکیلے ہی چڑھا لی تھی، پھر کرنل صاحب کے بلانے پر ایک بار پھر ان کے کمرے میں گیاتھا۔ ان کا چہیتا کیپٹن گل ان کے سامنے بیٹھا تھا۔انہوں نے مجھے خاص طور پر ہسپتال سے فارغ کروایا تھا کیونکہ اگلے روز ہیلی کاپٹرنے پہنچنا تھا۔ انہوں نے ایک بار پھر وہی کہا کہ تم کل شکمہ جا رہے ہو۔میں ایک بار پھر اٹک گیا تھا۔ کیپیٹن گل مجھے پھسلارہا تھا اور کرنل صاحب دہلا رہے تھے، گڈ کاپ بیڈ کاپ کا کھیل کھیلا جا رہاتھا۔
میں نشے میں تو تھا ہی, پتہ نہیں کیوں جذباتی ہو گیا تھا اور فیصلہ داغ دیاتھا ’’آپ مجھے ایک پستول مہیا کر دیں ،پھر آپ جہا ں کہیں گے وہیں چلا جاؤں گا‘‘ کرنل صاحب بھونچکا رہ گئے تھے کہ یہ پستول کا معاملہ کیا ہے۔ کرنل صاحب طبعاً کمزور دل واقع ہوئے تھے۔ فوراً پگھل گئے تھے اور منت کا لہجہ اختیار کر لیا تھا کہ تم ایک بار چلے جاؤ میں دوسرا افسرآتے ہی تمہیں بلا لوں گا۔ میری ماں نے میرا نام ’’ لگ لگ کہے نہ لگے بن کہے لگ جائے‘‘ رکھا ہواتھا اور میرا اپنے بارے میں آج بھی قول یہی ہے ’’ گر مجھے پیار سے دیکھو گے تو مٹ جاؤں گا‘‘۔
کرنل صاحب نے پہلی بار انسانوں والا وطیرہ اختیار کیا تھا اور حکم کی بجائے درخواست کی تھی۔ میں نے جانے کی حامی بھر لی تھی۔ اگلے روز صبح کیپٹن گل کے ہمراہ میں استور پہنچا تھا۔ وہاں جا کر ڈی کیو سے ملے تھے۔ اُس کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ میرے آگے بچھ بچھ جا رہاتھا کیونکہ میں جانے پر آمادہ ہو گیا تھا۔ اُس نے چائے منگوائی تھی لیکن میں نے انکار کر دیا تھا۔ میں باقی ماندہ چینی تحفہ نوش جان کر کے چلا تھا۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں