آصف عمران، عصرِ حاضر میں اسلوب وبیان، کہانی پن اور احساسِ تجمیت کی عمدہ نگارشات کے حامل ایک کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں۔ ‘‘اہرامِ آرزو’’ آصف عمران کے افسانوں کو تیسرا مجموعہ ہے جس میں 13 خوب صورت افسانوں کو شاملِ اشاعت کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ان کے دو افسانوی مجموعے، ‘‘ سائے کے ناخن’’ اور ‘‘ لَوحِ تحیر’’ شائع ہوچکے ہیں۔
زیرِ نظر افسانوی مجموعہ، ‘‘ اہرامِ آرزو’’ میں شامل افسانوں میں آصف عمران نے کہانی پن کے عنصر کو نمایاں رکھا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے بیانیہ میں علامت، استعاروں اور کنایہ سے افسانوی اسلوب کے تاثر کو برقرار رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے گذشتہ افسانوں کی طرح یہ تخلیقِ نو بھی صاحب ِ ذوق قارئین کے لئے ان افسانوں میں بھی دل چسپی اور عبارتی خوش سلیقگی کا عنصر نمایاں ہے۔ اسلوب اور نثرنگاری کی یہی صفت موصوف افسانہ نگار کو اپنے ہم عصر مصنفین سے جُداگانہ مقام دلاتی ہے۔
آصف عمران کی افسانوی تخلیقات میں جہاں موضوعات کی رنگینیت ہے وہیں ان کے ہمہ جہت مشاہدات ، محبت کی ماجرائیت، مذہبی و اساطیری حوالے بعض ،مقامات، تاریخی اور سماجی حوالہ جات ان افسانوں کو ایک خوش رنگ اور بو گلدستہ کے پیراہن میں ڈھال دیتے ہیں ۔
ایک ادیب اور دانشور جہا ں اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کو اپنی تحریر میں مقید کرتا ہے وہیں وہ مجموعی سماجی و دُنیاوی احساسات و جذبات کی نمائیندگی بھی کرتا ہے۔ ‘‘ اہرامِ ِ آرزو ’’میں شامل افسانوں کا مجموعی تاثر بشری دُکھ سُکھ، بنتے بگڑتے سماجی رشتے، شوخ و سادہ محسوسات، زندگی کے روز و شب کے اُتار چڑھاؤ زندگی کی حرکیات و مضمرات کے عکاس و آئینہ گر ہیں۔آصف عمران کے افسانوں میں یہ عنصر واضح ہے کہ وہ اپنے کرداروں اور واقعات کے عمومی بیانیے سے خود دستِ نگر ہے۔ اس کی کہانیوں میں مکالمے اور منظر نامے کی کساوٹ افسانوں کو فطری تاثر دیتے ہیں۔
زیرِنظر افسانوی مجموعہ، ‘‘اہرامِ ِ آرزو ’’ میں زندگی کا دوہرا ظہور واضح ہے۔ ایک مظہر جس کا افسانہ نگار خود حصہ ہے اور دوسرا جو اس کی مذہبی ، تاریخی اور اساطیری احساس کا نمائندہ ہے۔ یہی آصف کے افسانوں کی دل چسپی کا پہلو ہے، وہ موجود سے سے معدوم، اور وجودیت سے مابعدالطبیعات تک کی پرچھائیں افسانوں میں بھیس بدل بدل کر سامنے آتی ہیں۔
حسین مجروح (ادیب، شاعر، نقاد، مدیر سائبان) آصف عمران کے افسانوی اسلوب کے بارے میں کہتے ہیں، ‘‘اسلوبیاتی سطح پر،آصف کسی خاص پیرائیہ اظہار کا پابند نہیں۔۔اس کی حقیقت نگاری، دروں بینی کے اسرار سے خالی نہیں۔ وہ گیلی مٹی سے اپنی مرضی کے برتن بناتا ہے اور اُن پر من چاہے نقش و نگار مرتسم کرتا ہے ، لیکن اس ساری کدو کاش میں اس بدیہی امر سے غافل نہیں رہتا کہ افسانہ حقیقت سے نہیں حقیقیت کے فن کارانہ اظہار سے نمو پاتا ہے۔’’
آصف عمران کے فنِ افسانہ نگاری، اسلوب، مشاہدہ اور اظہاری کنایوں پہ تبصرہ کرتے ہوئے غلام حُسین ساجد (ماہرِ تعلیم، شاعر، نقاد، افسانہ نگار) لکھتے ہیں کہ ، ‘‘ آصف کا مشاہدہ الہام میں گُندھا ہوا ہے اور اس کا اظہارکنایے میں بندھا ہوا ہے۔ اس کی لسانیات اور افسانوی شعریت میں تازگی اور ماحول کو اُجالا کردینے کی شکتی ہے۔’’
ڈاکٹر ضیاء الحسن (ماہرِتعلیم، دانشور، شاعر ، نقاد، سابق مدیر ‘‘ادبِ لطیف’’) ،زیرِ نظر تصنیف، ‘‘اہرامِ آرزو’’ کے حوالے سے آصف عمران کے افسانوی اسلو ب میں حقیقی وتجریدی استعاروں اور تشبیہات کے بر محل استعمال پر لکھتے ہیں کہ، ’’ آصف اپنے افسانوں میں تشبیہات کے فراواں استعمال کے ساتھ ساتھ تمثال کاری اور تجسیم کاری سے بھی کام لیتے ہیں جو بذاتہِ تشبیہاتی عمل ہیں’’۔۔ مزید لکھتے ہیں کہ، ‘‘ خواب اور تصور اِن کے افسانوں کے دو طاقت ور استعارے ہیں۔ دونوں استعارے تجریدی ہیں جس کی وجہ سے حقیقت پر بنیاد ہونے کے باوجود اِن کے افسانوں کی فضاء میں ایک رومانوی تجریدیت ہلکورے لیتی ہے اور افسانوں کی معنویت سیال حالت میں رہتی ہے۔’’
افسانوی مجموعہ، ‘‘ اہرام ِ آرزو’’ میں شاملِ اشاعت افسانوں کے بارے آصف عمران کے دائرۂ اختیار، تکنیک اور طریقِ اظہار پر رائے دیتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ اقبال (ماہرِ تعلیم، افسانہ و ناول نگار، سفر نامہ نگار) کہتی ہیں کہ، ‘‘موصوف اپنی شناخت، علمیت اور آگاہیت سے کرواتے ہیں۔یعنی تاریخی شعور، مبادیاتِ زمانہ کی آگاہی، بے شمار معلومات اور علوم کو افسانوی اسلوب میں یوں کھرل کردیتے ہیں کے تحریر ایک مکمل طریق ( Complete Method) والے کولرج کے اصول کی عملی تفسیر بن جاتی ہے۔ ’’
ڈاکٹر پریا تبیتا ( ماہرِ تعلیم، ادیبہ، نقاد، شاعرہ) نے افسانہ نگار کی موضوعاتی ندرت اور اسلوبی قدرت کو ان کی طویل‘‘ ریاضتوں کا ثمر’’ قرار دیا ہے۔ آصف عمران کے افسانوں پر ان کے مفصل تجزیہ سے اقتباس مُلاحظہ ہو، ‘‘آصف کے بعض افسانوں کا اسلوب عام فہم ہے اور بعض افسانوں میں دقیق لب ولہجہ کی بازگشت سُنائی دیتی ہے۔مختصر اور سادہ جملوں میں اپنا مُدعا بیان کرتے ہیں اور کہیں شعوری طور پر نِت نئی تشبیہات، استعارات اور علامات سے استفادہ کرتے ہیں۔’’

آصف عمران کے افسانہ طرازی ، جدیدیت کی تحریک کے غماز ہیں۔صاحبِ ذوق قارئین افسانہ نگار کے طریقِ اسلوب میں یہ بات واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہ افسانے قلبی واردات کے ساتھ ساتھ امکانی حقائق کے بھی عکاس ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آصف عمران کا افسانوی مجموعہ، ‘‘اہرام ِ آرزو’’ اُردو افسانہ کے سرمایے میں ایک اہم اضافہ ہے۔ ان کے پہلے دو افسانوی مجموعہ بنام، ‘‘سائے کے ناخن’’ اور ‘‘لوحِ تحیر’’ کی طرح زیرِ نظر افسانوی مجموعہ، ‘‘اہرام ِ آرزو’’ میں بھی ان کا انفرادی و جُداگانہ پیرائیہ اظہار قارئین پر گہراتا ثر مرتب کرے گا ۔ربّ العزت کرے زور بیاں اور زیادہ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں